Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Arslan Malik
  4. Social Media Aur Sahafat Ka Badalta Manzar Nama

Social Media Aur Sahafat Ka Badalta Manzar Nama

سوشل میڈیا اور صحافت کا بدلتا منظرنامہ

صحافت ایک ایسی پیشہ ورانہ ذمہ داری ہے جو معاشرے کو آئینہ دکھاتی ہے، حقائق کو منظر عام پر لاتی ہے اور عوام کی رہنمائی کرتی ہے۔ مگر گزشتہ ایک دہائی میں، خاص طور پر پاکستان کے تناظر میں، صحافت کا منظرنامہ تیزی سے تبدیل ہوا ہے۔ جہاں کبھی خبروں کی ترسیل پر روایتی میڈیا ہاؤسز کا اجارہ تھا، وہیں آج سوشل میڈیا اور ٹیکنالوجی نے اس شعبے کی پوری تصویر بدل دی ہے۔ آج ہر شخص، جس کے پاس ایک سمارٹ فون اور سوشل میڈیا اکاؤنٹ ہے، ایک ممکنہ صحافی بن چکا ہے۔ یہ تبدیلی ایک طرف تو جمہوری عمل کو مضبوط کرتی ہے، لیکن دوسری طرف اس نے صحافت کے معیار، پیشہ ورانہ ذمہ داریوں اور معاشرتی اثرات پر گہرے سوالات اٹھائے ہیں۔

پاکستان میں گزشتہ پانچ سے دس سال کے دوران زیادہ تر بڑی خبریں سوشل میڈیا سے منظر عام پر آئیں۔ چاہے وہ سیاسی اسکینڈلز ہوں، سماجی ناانصافیوں کے واقعات ہوں یا پھر عوامی تحریکوں کی کوریج، سوشل میڈیا نے ہر بار روایتی میڈیا کو پیچھے چھوڑ دیا۔ اس کی وجہ واضح ہے: سوشل میڈیا فوری، غیر فلٹر شدہ اور عوام کے ہاتھوں میں ہے۔ ایک عام شہری اپنے فون سے ویڈیو بناتا ہے، اسے ایکس یا فیس بک پر آپ لوڈ کرتا ہے اور چند گھنٹوں میں وہ ویڈیو لاکھوں لوگوں تک پہنچ جاتی ہے۔ اس کے مقابلے میں روایتی میڈیا، جو کہ ادارتی عمل سے گزرتا ہے، اکثر سست روی کا شکار ہوتا ہے۔

مثال کے طور پر، 2018ء کے انتخابات کے دوران متعدد ووٹنگ بے ضابطگیوں کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں، جنہوں نے روایتی میڈیا کو مجبور کیا کہ وہ ان موضوعات پر بات کریں۔ اسی طرح، حالیہ برسوں میں پولیس تشدد، خواتین کے حقوق اور دیگر سماجی مسائل کے بارے میں عوامی احتجاج کی خبریں سب سے پہلے سوشل میڈیا پر ابھریں۔ یہ رجحان اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ اب خبر کا ذریعہ صرف صحافی یا میڈیا ہاؤسز نہیں رہے، بلکہ ہر شہری ایک ممکنہ رپورٹر ہے۔

تاہم، سوشل میڈیا کے اس عروج نے صحافت کے پیشہ ورانہ معیار کو بھی متاثر کیا ہے۔ روایتی صحافت میں خبر کی تصدیق، تحقیق اور غیر جانبداری بنیادی اصول تھے۔ لیکن سوشل میڈیا پر خبر دینے والوں کے لیے یہ اصول عموماً غیر اہم ہیں۔ ایک ویڈیو یا پوسٹ بغیر کسی تصدیق کے وائرل ہو سکتی ہے، جو اکثر افواہوں اور غلط معلومات کو جنم دیتی ہے۔ بدقسمتی سے، روایتی میڈیا بھی اس دوڑ میں شامل ہوگیا ہے، جہاں وہ سوشل میڈیا سے اٹھائی گئی خبروں کو بغیر تحقیق کے نشر کر دیتا ہے تاکہ "سب سے پہلے" ہونے کا اعزاز حاصل کر سکے۔

اس کے ساتھ ساتھ، پاکستانی میڈیا میں سیاسی وابستگیوں نے صحافت کو مزید زہریلا بنا دیا ہے۔ بہت سے صحافی اور میڈیا ہاؤسز سیاسی جماعتوں کے ترجمان بن کر رہ گئے ہیں۔ وہ حقائق کی بجائے بیانیہ پیش کرتے ہیں، جو ان کی پسندیدہ سیاسی جماعت کے مفادات سے ہم آہنگ ہوتا ہے۔ یہ رجحان نہ صرف صحافت کے وقار کو نقصان پہنچاتا ہے بلکہ عوام کے اعتماد کو بھی کم کرتا ہے۔ جب ایک صحافی کسی سیاسی جماعت کے کارکن سے زیادہ شدت پسند ہو جاتا ہے، تو وہ اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داری کو بھول جاتا ہے۔

ٹیکنالوجی نے جہاں زندگی کو آسان بنایا ہے، وہیں اس نے صحافیوں کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو بھی متاثر کیا ہے۔ آج کی صحافت میں گہرائی اور تحقیق کی کمی نظر آتی ہے۔ سوشل میڈیا پر فوری ردعمل اور سطحی تجزیوں کی دوڑ نے پیچیدہ موضوعات پر سنجیدہ گفتگو کو پس پشت ڈال دیا ہے۔ مثال کے طور پر، معاشی پالیسیوں، ماحولیاتی تبدیلیوں یا بین الاقوامی تعلقات جیسے موضوعات پر گہرائی سے بات کرنے کی بجائے، میڈیا اکثر سنسنی خیز سرخیوں اور سطحی تبصروں پر توجہ دیتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایسی سطحی گفتگو زیادہ "کلکس" اور پزیرائی حاصل کرتی ہے۔

اس کے علاوہ، ٹیکنالوجی نے صحافیوں کی یکسوئی کو بھی متاثر کیا ہے۔ سوشل میڈیا پر مسلسل آنے والی معلومات کی بمباری نے توجہ کے دورانیے کو کم کر دیا ہے۔ نتیجتاً، صحافی پیچیدہ موضوعات پر تحقیق کرنے کی بجائے فوری اور آسان مواد تیار کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہ رجحان نہ صرف صحافت کے معیار کو گراتا ہے بلکہ عوام کو بھی سطحی معلومات تک محدود کر دیتا ہے۔

اس بدلتے منظرنامے میں صحافت کے لیے نئی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ سب سے پہلے، صحافیوں کو سوشل میڈیا کے اس دور میں اپنی پیشہ ورانہ شناخت کو دوبارہ متعین کرنے کی ضرورت ہے۔ انہیں سوشل میڈیا سے آنے والی خبروں کی تصدیق کے لیے ایک مضبوط نظام بنانا ہوگا۔ اس کے علاوہ، صحافیوں کو اپنی غیر جانبداری کو بحال کرنا ہوگا تاکہ وہ سیاسی یا کارپوریٹ مفادات سے بالاتر ہو کر کام کر سکیں۔

دوسری طرف، عوام کو بھی سوشل میڈیا پر ملنے والی معلومات کو تنقیدی نظر سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ میڈیا لٹریسی پروگرامز کے ذریعے عوام کو یہ سکھایا جا سکتا ہے کہ وہ جھوٹی خبروں اور افواہوں کو کیسے پرکھیں۔ اس کے ساتھ ساتھ، میڈیا ہاؤسز کو اپنے صحافیوں کی تربیت پر توجہ دینی چاہیے تاکہ وہ ٹیکنالوجی کے اس دور میں بھی گہرائی سے تحقیق کر سکیں۔

سوشل میڈیا اور ٹیکنالوجی نے صحافت کو ایک نئے دور میں داخل کر دیا ہے، جہاں ہر شخص خبر دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ تبدیلی جمہوری عمل کے لیے فائدہ مند ہے، لیکن اس نے صحافت کے پیشہ ورانہ معیار کو بھی خطرے میں ڈال دیا ہے۔ پاکستانی میڈیا کو اس نئے دور کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے اپنی حکمت عملی بدلنی ہوگی۔ صحافیوں کو اپنی غیر جانبداری، تحقیق اور گہرائی سے سوچنے کی صلاحیت کو بحال کرنا ہوگا، جبکہ عوام کو بھی میڈیا لٹریسی کے ذریعے بااختیار بنانے کی ضرورت ہے۔ صرف اسی طرح صحافت اپنی اصل روح کو برقرار رکھ سکتی ہے اور معاشرے کی رہنمائی کا فریضہ ادا کر سکتی ہے۔

یہ مضمون نہ صرف سوشل میڈیا کے اثرات کو اجاگر کرتا ہے بلکہ صحافت کے مستقبل کے لیے ایک مثبت سمت بھی دکھاتا ہے۔ اگر ہم اس تبدیلی کو ایک موقع کے طور پر دیکھیں، تو صحافت نہ صرف زندہ رہے گی بلکہ ایک نئے اور بہتر روپ میں ابھرے گی۔

Check Also

Muhammad Yaqoob Quraishi (3)

By Babar Ali