Siasi Groh Ki Chief Ko Dhamki
سیاسی گروہ کی چیف کو دھمکی
اگرچہ سوشل میڈیا نے دنیا بھر میں ارتقاء کیا ہے، لیکن اس کا استعمال بہتر یا برا، قابل تعریف یا مذموم، ہو سکتا ہے۔ یہ طاقتور اوسط میں لوگوں کو جوڑتا ہے، لیکن جب اسے برائیوں کے لئے استعمال کیا جاتا ہے تو یہ معاملات کو خراب کر سکتا ہے اور سیاسی ماحول میں بہت سنگین نتائج پیدا کرسکتا ہے۔
دنیا میں سیاسی جماعتوں اور ریاستوں کو سوشل میڈیا نے آسان روایتوں کے ساتھ دنیا کے سامنے لایا ہے۔ یہ سیاسی جماعتوں کو اپنے پیغام کو جلدی اور آسانی سے عوام تک پہنچانے کا ایک طاقتور ذریعہ فراہم کرتا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے اس کو بھی غلط اور منفی مقاصد کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے۔
ایک سیاسی گروہ کی مثال لیتے ہیں جس نے اس قوت کو بے جواز استعمال کیا ہے۔ یہ گروہ ریاست کے خلاف بیانیہ بنانے کے ساتھ ساتھ سرکاری اداروں پر حملوں کا ذمہ دار ٹھہرا۔ تشدد کے ایک نئے مرحلے میں، انہوں نے سوشل میڈیا پر ایک قاتلانہ کمپین چلائی جو آرمی چیف کے نقصان پہنچانے کیلئے چلائی گئی۔ اسی سیاسی گروہ نے عدلیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو دھمکی دی اور حکمران اور ریاست نے انکے خلاف کوئی ٹھوس ایکشن نہیں لیا، یہ سنگین قومی مسئلہ ہے۔
سوشل میڈیا کے استعمال اور اس کی ترقی نے ایک نیا دور بنایا ہے جہاں سیاسی گروہوں کو اپنے آپ کو قانون کے اوپر مقرر کرنے کی آزادی حاصل ہوگئی ہے۔ سیاسی جماعتیں حکومتی اداروں اور قانون نافذ کرنے والوں پر حملہ آور ہونے کے لئے انتہائی نا مناسب اور غیر قابل قبول بیانیہ بنا چکی ہے
حقیقت میں حکمرانوں کا اس کمپین کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لینا یہ نہ صرف مسئلہ کو بڑھائے گا یہ عام طور پر لوگوں میں حکمرانوں کی بے قابو ہوتی ہوئی حکمت عملی کی نشانی سمجھا جائے گا ایک معقول حکمت عملی کا استعمال ہونا چاہئے جب کوئی سیاسی جماعت قانون کی خلاف ورزی کرتی ہے اور حکمرانوں کو اداروں پر حملوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
آرمی چیف کے خلاف حملے کی کوئی بات یا حرکت قابل مذمت ہے یاد رہنا چاہیے کہ آرمی ایک ادارہ ہے جو ریاست کی حفاظت اور امن و امان کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ اگر کسی سیاسی گروہ کو آرمی چیف کے خلاف شدید مخالفت ہو تو وہ اسے معاشرتی طریقے سے اظہار کرنا چاہیے بجائے اس طرح کے غیر قانونی اقدامات کا انتخاب کرنے کرے۔
سوشل میڈیا کمپین کی ایک بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ یہ بلاواسطہ اور نا قابل کنٹرول ہو سکتی ہے۔ جب ایک جماعت سوشل میڈیا کے ذریعے اپنے مخالفین کے خلاف کمپین چلاتی ہے، تو یہ بعض اوقات تشدد و فساد کا باعث بن سکتی ہے۔ یہ تشدد ہماری معاشرتی امن و امان کو تباہ کر سکتا ہے اور ملک میں بحران پیدا کر سکتا ہے۔
حکومت کو ایسی صورتحال سے نمٹنے کی ضرورت ہے اور ان کو سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے ساتھ کام کرتے ہوئے یہی حفاظتی تدابیر اختیار کرنی چاہیے جو تشدد اور خلافِ قانون مواد کو روکیں۔
حکومتوں کو ایک آئینی، قانونی اور اخلاقی مفاد کے ساتھ سوشل میڈیا پر قابو پانا چاہیے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو بھی اپنے استعمال کی شروعات پر نظر رکھنی چاہیے۔ یہ ضروری ہے کہ ہم سوشل میڈیا کو ایک مثبت، جامعہ اور ترقی بخش آلہ بنائیں تاکہ یہ ایک بنیادی اصول کے ساتھ استعمال ہو سکے۔
سیاسی گروہوں کو اپنے خیالات کو اظہار کرنے کے لئے اپنے قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے کرنا چاہیے جبکہ حکومتوں کو ان کی خلاف ورزی کو قابو میں رکھنا چاہیے۔ سوشل میڈیا کو معقول، منظم اور انسانی حدودوں میں رکھنا ضروری ہے تاکہ یہ تشدد، اور خلافِ قانون مواد کو نہ بڑھا سکے۔ منظم اور بنیادی اقدامات کے ساتھ، ہم ایک تعصب سے پاک ترقی یافتہ معاشرے کی تعمیر کر سکتے ہیں جہاں تمام افراد کے حقوق اور خیالات کی حفاظت ہو۔