Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Arslan Malik
  4. Naye Soobe Ya Taqatwar Baldiyati Nizam

Naye Soobe Ya Taqatwar Baldiyati Nizam

نئے صوبے یا طاقتور بلدیاتی نظام

پاکستان میں عوامی خدمت اور اختیارات کی تقسیم پر ہمیشہ بحث رہی ہے۔ ایک طبقہ سمجھتا ہے کہ ملک میں طاقتوّر بلدیاتی نظام ہونا چاہیے تاکہ عوامی مسائل مقامی سطح پر حل ہوں، جبکہ دوسرا طبقہ نئے صوبوں کے قیام کو ضروری قرار دیتا ہے تاکہ محروم خطے اپنی الگ شناخت اور بجٹ کے ساتھ ترقی کرسکیں۔ اس مضمون میں دونوں ماڈلز کا جائزہ لیتے ہوئے دنیا کے دیگر ممالک کی مثالوں کے ذریعے ایک حقیقت پر مبنی تجزیہ پیش کیا گیا ہے۔

دنیا کے کئی ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک میں بلدیاتی نظام عوامی خدمت کا مرکزی ستون ہے۔ بھارت میں 1992ء کے بعد "پنچایتی راج" کے ذریعے مقامی حکومتوں کو آئینی حیثیت دی گئی۔ آج گاؤں کی سطح پر منتخب ادارے تعلیم، صحت اور ترقیاتی منصوبے چلاتے ہیں۔ اس نظام نے بڑے صوبوں کے باوجود عوامی خدمت کو ممکن بنایا۔

ترکی میں میونسپل سسٹم نہایت مضبوط ہے۔ استنبول، انقرہ یا چھوٹے شہروں میں میونسپل ادارے بجلی، پانی، کچرا، ٹرانسپورٹ اور صحت تک کے منصوبے سنبھالتے ہیں۔ عوام براہِ راست میئر کے سامنے جواب دہی کا مطالبہ کرسکتے ہیں۔

پاکستان میں نئے صوبوں کی تشکیل پر کئی سیاسی جماعتیں اعتراض اٹھاتی ہیں، لیکن اس کے بجائے ایک خودمختار، بااختیار اور آئینی تحفظ والا بلدیاتی نظام نافذ کیا جائے تو یہ مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ ضلعی اور شہری حکومتوں کے اختیارات کو صوبائی رحم و کرم پر نہ چھوڑا جائے بلکہ آئین میں واضح طور پر درج کیا جائے۔

وزیراعلیٰ ہاؤس کی بجائے میئر کے دفتر کو طاقتور بنایا جائے، شہر کے تمام ادارے میئر کے ماتحت لائے جائیں، صوبائی پولیس کی جگہ شہری پولیس کا نظام رائج کیا جائے اور بلدیاتی انتخابات کو بروقت نہ کرانے کو آئین شکنی سمجھا جائے۔ یہ نظام صوبوں کو برقرار رکھتے ہوئے بھی عوامی مسائل حل کر سکتا ہے۔ عام پاکستانی اس بات پر متفق ہے کہ یا تو طاقتور بلدیاتی نظام ہو یا چھوٹے صوبے، دونوں میں سے ایک ضرور ہونا چاہیے۔

پاکستان میں بلدیاتی نظام کی جڑیں برطانوی دور میں ملتی ہیں۔ 1688 میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے مدراس میں پہلی میونسپل کارپوریشن قائم کی۔ 1842 کے کنزروینسی ایکٹ نے شہری صفائی کے لیے کمیٹیاں بنائیں۔ 1867 کا میونسپل ایکٹ اور 1882 کا لارڈ رپن کا قرارداد دیہی علاقوں میں بلدیاتی کونسلیں متعارف کروایا۔ 1935 کے گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ نے صوبوں کو بلدیاتی قوانین بنانے کا اختیار دیا۔ یہ نظام انتظامی سہولت کے لیے تھا، لیکن عوامی شرکت محدود تھی۔ آزادی کے بعد، 1947 سے 1959 تک، نوآبادیاتی قوانین جاری رہے، جیسے میونسپل ایکٹ اور ڈسٹرکٹ بورڈ ایکٹ۔ بین الاقوامی امداد جیسے ولیج ایڈ پروگرام شروع ہوئے، مگر منتخب بلدیاتی ادارے نہیں بنے، جس سے کارکردگی کم رہی۔

ایوب خان کے دور (1959-1969) میں بنیادی جمہوریت کا نظام متعارف ہوا۔ 1959 کے بیسک ڈیموکریسی آرڈر کے تحت 80,000 بنیادی ڈیموکریٹس کا انتخاب ہوا، جو صدر، قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے لیے الیکٹورل کالج تھے۔ یونین کونسلیں اور کمیٹیاں قائم ہوئیں جو پیدائش/موت کا اندراج، تنازعات کا حل اور دیہی ترقی کا کام کرتی تھیں۔ 18 شہروں میں امپروومنٹ ٹرسٹ بنے۔ عوامی شرکت بڑھی، دیہی ترقی ہوئی اور قومی سطح سے جڑے۔ مگر اس بلدیات نظام پر بھی مرکزی کنٹرول زیادہ تھا اور 1969 میں غیر منتخب کونسلیں واپس آئیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق، یہ نظام سیاسی مشق کے لیے اچھا تھا مگر حقیقی مرکزی اختیارات نہیں تھے۔

ضیاء الحق کے دور میں لوکل گورنمنٹ آرڈیننس 1979 نافذ ہوا، جو صوبائی نوعیت کا تھا۔ 1979،1983،1987 اور 1991 میں غیر پارٹی بنیاد پر انتخابات ہوئے۔ دیہی اور شہری کونسلیں قائم ہوئیں جو پبلک ورکس، صحت، تعلیم، زراعت، سیوریج، لائیو سٹاک، سیفٹی، ماحولیات اور کلچر کا کام کرتی تھیں۔ دس سال سے زیادہ چلا، باقاعدہ انتخابات ہوئے اور وسیع ذمہ داریاں ملیں۔ مگر اس نظام میں بلدیاتی اداروں کے پاس اختیارات ذمہ داریوں سے کم تھے اور 1991-1993 میں کونسلیں تحلیل ہوگئیں، جس سے تسلسل ٹوٹا۔ ایک مطالعہ کے مطابق، یہ نظام اچھی انتظامیہ کے لیے اہم تھا مگر صوبائی کنٹرول کی وجہ سے کمزور رہا۔

پرویز مشرف نے 1999 کے مارشل لاء کے بعد 2000 میں ڈیویلووشن آف پاور پلان شروع کیا، جو 2001 کے لوکل گورنمنٹ آرڈیننس (LGO) سے نافذ ہوا۔ یہ تین درجوں پر مشتمل تھا: ضلع (ضلع ناظم کی سربراہی میں)، تحصیل (تحصیل ناظم) اور یونین (یونین ناظم)۔ 2001 اور 2005 میں غیر پارٹی انتخابات ہوئے۔ خواتین، اقلیتوں، کسانوں اور مزدوروں کے ساتھ، 33% سیٹیں خواتین کے لیے محفوظ سیٹیں تھی سٹیزن کمیونٹی بورڈز (CCBs)، مصالحتی انجمنیں، ضلع محتسب اور ویلیج/نیبرہوڈ کونسلیں قائم ہوئیں۔ ڈیویلووشن ٹرسٹ فار کمیونٹی ایمپاورمنٹ (DTCE) 2003 میں بنا۔

مرکز کے اختیارات سے خدمات کی فراہمی بہتر ہوئی، خاص طور پر تعلیم اور صحت میں۔ ایک سوشل آڈٹ (2005) نے اداروں میں خدمات میں بہتری دکھائی۔ عوامی شرکت بڑھی، نئی سیاسی قیادت ابھری اور دیہی شہری فرق کم ہوا۔ ایشین ڈویلپمنٹ بینک کی 2004 رپورٹ نے کارکردگی اور احتساب کی تعریف کی۔ خواتین اور اقلیتوں کی نمائندگی بڑھی، جو 2001-2009 میں نمایاں تھی۔ سیاسی مشق اور قومی بلدیاتی رابطہ بہتر ہوا۔

آئینی تحفظ کی کمی سے 2009 میں ختم ہوگیا۔ کرپشن، elite capture اور partiality کے مسائل تھے۔ پارٹیوں کی عدم شرکت سے سیاسی تنوع کم ہوا۔ مالی خودمختاری محدود تھی، ٹیکس جمع کرنے کا اختیار نہیں۔ 2005 میں ایک رپورٹ نے سیاسی اور انتظامی اصلاحات کی کمی کی نشاندہی کی۔ انٹرنیشنل کرائسس گروپ (2004) نے کہا کہ یہ فوجی حکمرانی کی حمایت کے لیے تھا۔ صوبائی اور وفاقی منصوبوں سے بلدیاتی اختیارات کم ہوئی۔ ایک مطالعہ نے بتایا کہ 2002-2008 میں مقاصد پورے نہ ہوئے۔

یو ایس آئی پی کی 2018 رپورٹ نے مشرف پلان کو legitimising strategy قرار دیا، مگر یہ خدمات میں بہتری لائے۔ سوشل آڈٹس نے شہری اطمینان دکھایا مگر policy gaps کی نشاندہی کی۔

2010 کی 18ویں ترمیم نے آرٹیکل 140-A متعارف کیا، جو صوبوں کو بلدیاتی ادارے قائم کرنے کا پابند کرتا ہے۔ مگر تاخیر ہوئی، 2015 میں سپریم کورٹ کے حکم پر انتخابات ہوئے۔

خیبر پختونخوا میں ویلیج/نیبرہوڈ کونسلیں بنیں، بجٹ دیا گیا مگر بعد میں کم کیا گیا۔ پنجاب اور سندھ میں مرکزی نظام بنا جہاں سیاسی جماعتوں میں تنازعات رہے بلوچستان میں صلاحیت اور وسائل کی کمی رہی۔ حالیہ (2025) میں، پنجاب لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2025 کو ریگریشن کہا جا رہا ہے۔

مرکز کے اختیارات سے علاقائی شکایات کم ہونے کے ساتھ کمزور گروپس کی نمائندگی کم ہوئی۔ کے پی میں بجٹ استعمال سے خدمات بہتر مالی autonomy کم، صوبائی کنٹرول زیادہ تھا ڈسٹرکٹ ہیلتھ اور ایجوکیشن اتھارٹیز سے technocrats کو طاقت ملی۔

حالیہ چیلنجز کو مدنظر رکھتے ہوئے 2024-2025 میں معاشی، غربت اور مہنگائی سے خدمات اور سول سروس ریفارمز کے بغیر جیسا کہ ڈان کی 2025 رپورٹ میں کہا گیا کہ مشرف ماڈل کی طرح آئینی تحفظ ضروری ہے عوامی شرکت، خدمات کی فراہمی (صحت، تعلیم)، سیاسی تربیت اور مرکزی کے اختیارات مرکزی کنٹرول، کرپشن، مالی کمی اور تسلسل کی کمی۔

طاقتور بلدیاتی نظام نئے صوبوں کا بہتر متبادل ہے، جو صوبوں کو برقرار رکھتے ہوئے مسائل حل کرے۔ مشرف نظام نے بہتری دکھائی مگر آئینی تحفظ کی کمی سے ناکام رہا۔ دیگر نظاموں سے سبق سیکھ کر آئینی اصلاحات، مالی devolution اور بروقت انتخابات ضروری۔ سیاسی جماعتیں اب یہ کر سکتی ہیں، ورنہ عوام چھوٹے صوبوں کی طرف جائیں گے۔ یہ نظام پاکستان کی جمہوریت کو مضبوط کرے گا۔

پاکستان میں سب سے بڑا مسئلہ صرف صوبوں کی تعداد نہیں بلکہ اختیارات کی تقسیم ہے۔ اگر نئے صوبے بنا بھی دیے جائیں لیکن ان میں اختیارات پھر بھی صوبائی دارالحکومت تک محدود رہیں تو عوامی مسائل حل نہیں ہوں گے۔ اسی لیے سب سے زیادہ توجہ طاقتوّر بلدیاتی اداروں پر ہونی چاہیے۔

نئے صوبے انتظامی سطح پر مفید ہو سکتے ہیں مگر یہ ایک لمبا اور پیچیدہ آئینی عمل ہے جس کے لیے سیاسی اتفاقِ رائے درکار ہے۔

طاقتوّر بلدیاتی ادارے فوری اور تیز ترین حل ہیں کیونکہ یہ کسی آئینی ترمیم کے بغیر بھی صوبائی حکومتوں کے تحت مضبوط کیے جاسکتے ہیں۔

پاکستان میں ترقی، شفافیت اور عوامی خدمت کا اصل راستہ طاقتوّر اور خودمختار بلدیاتی نظام ہے۔ اگر بلدیاتی ادارے مضبوط کر دیے جائیں تو بڑے صوبے بھی عوامی مسائل حل کرنے میں مؤثر ثابت ہوسکتے ہیں۔ البتہ جہاں انتظامی طور پر نئے صوبے واقعی ناگزیر ہوں، وہاں عوامی مطالبہ اور سیاسی اتفاقِ رائے کو سامنے رکھتے ہوئے نئے صوبوں پر غور کیا جاسکتا ہے۔

یوں پاکستان ایک ایسا ملک بن سکتا ہے جہاں اختیارات اوپر سے نیچے نہیں بلکہ نیچے سے اوپر کی طرف سفر کریں اور عوامی خدمت ہی ریاست کا اصل مقصد بنے۔

Check Also

Naye Meesaq Ki Zaroorat Hai

By Syed Mehdi Bukhari