Nakaam Awami Inqilab Ki Koshishen
ناکام عوامی انقلاب کی کوششیں
عوام کے لئے اپنے اپنے انقلاب لانے کی خواہش پاکستانی رہنماؤں کا ہمیشہ سے ایک بڑا مقصد رہا ہے۔ لیکن عوامی امنگوں کے برعکس، وہ اپنے انقلابی منصوبوں کو لاگو کرنے میں کامیابی حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
پاکستان کے سیاسی منظرنامہ میں کئی رہنماؤں نے اپنے انقلابی وعدوں کے ساتھ عوام کو جذباتی کرنے کی کوشش کی ہے۔ عوام نے اکثر انتخابات میں انہی رہنماؤں کو ووٹ دیا ہے، امید رکھتے ہوئے کہ وہ انتخاب کے بعد سے بہترین نتائج حاصل کریں گے۔ لیکن جب یہ رہنماء اقتدار میں آتے ہیں، تو وہ عوامی معاملات کو بہت کم ترجیح دیتے ہیں۔ یہ عموماً اپنے خود کے مفادات کے لئے پالیسی بناتے ہیں جو عوامی مفادات کے بجائے وہیں رہتی ہیں۔
پاکستانی رہنماؤں کا عوامی امنگوں کے برعکس انقلاب لانے کی ناکام کوششوں کا سبب کیا ہے۔ رہنماؤں کی معاشرتی طرز زندگی، انقلابی تحریکوں کے لئے ایک خاص مسئلہ بنتی ہے۔ عوام انہیں اپنے ہمراہ نہیں سمجھتی اور انکی خدمات پر شک و شبہ رکھتی ہے۔ یہ سوچ بھی عوام میں بھی عمومی ہوتی ہے کہ جب رہنما جب خود ملکی معاشرتی زندگی سے ہٹ کر ایک الگ ہی زندگی گزار رہے ہوتے ہیں، تو وہ عوام کے مسائل کا حل کیسے لا سکتے ہیں؟
عوام کی طرف سے امنگوں کا ردعمل اس حقیقت کو دکھاتا ہے کہ عوام انقلابی رہنماؤں کو پوری اعتماد کے ساتھ ووٹ دیتی ہے، لیکن وہ توقع رکھتی ہے کہ وہ انقلابی تبدیلیاں لا سکیں گے۔ عوام نے امید کی تھی کہ رہنماء نظام بدلیں گے، سیاسی نظام کو صاف کریں گے اور معیشت، عدلیہ، تعلیم اور صحت کے شعبوں میں اصلاحات کریں گے۔ لیکن سیاسی رہنماؤں کے طرز عمل کو دیکھتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ عوام کی امیدیں توڑی گئیں ہیں۔
ایک اور بڑی چیز امنگ عوامی ردعمل ہے کہ وہ مشکلات کا شکار ہوتے ہیں جبکہ رہنماء عوام کے لئے ملکی معیشت اور تعمیر و ترقی کو بڑھانے کے لئے اپنی بہتری کی کوشش کرتے ہیں۔ عوام گھریلو مسائل، بے روزگاری، بہتر تعلیمی سہولیات کی عدم موجودگی اور عدالتوں میں دیری کے مسائل سے نمٹنے کی کوشش کرتی ہے، جبکہ رہنماؤں کو مقتدر حلقوں کے زیر اثر، ملکی امور کے اہم فیصلوں میں اور پارلیمانی حکومتوں میں دیکھا جاتا ہے۔
یہ صرف ایک جھلک ہے اور پاکستانی رہنماء اور عوام کے درمیان بہتری کیلئے مزید معاملات پائے جاتے ہیں۔ اس سلسلے میں عوام کو اپنے انقلابی رہنماؤں کے ساتھ طاقتور تعلقات قائم کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ وہ انقلابی منصوبوں کیلئے ضروری سیاسی آگاہی حاصل کر سکیں۔ اگر ایسا نہیں ہوتا ہے، تو عوام کو خود اقدار کا نظریہ اپنانا چاہئے، جہاں وہ خود انقلاب لا سکتی ہوں، سماجی تبدیلیوں کو روک سکتی ہوں اور اپنے حقوق کو حاصل کر سکتی ہوں۔
پاکستانی رہنماؤں کا عوامی امنگوں کے برعکس اپنا اپنا انقلاب لانے کی ناکام کوششوں اور عوامی ردعمل کی وجوہات بہت ساری ہیں۔ مگر اس کے برعکس پاکستان کے رہنماء اور عوام کے درمیان اپنے انقلابی منصوبوں کو لاتے ہوئے یہ مشترکہ ذمہ داری ہے کہ وہ ضرورت کے مطابق سیاسی، اقتصادی، تعلیمی اور عدالتی اصلاحات کریں۔ عوام کو بھی اپنی قوت کو پہچاننا چاہئے اور مطالبات کے لئے منظم ہونا چاہئے۔
یہ سمجھنا ضروری ہے کہ انقلاب لانا صرف رہنماؤں کی ذمہ داری نہیں ہے، بلکہ عوام کا حق ہے۔ عوام اور رہنماء کے مابین تعاون اور ایک دوسرے کا احترام کے ساتھ ہمیشہ رہنا چاہئے تاکہ پاکستان کے اندر ایک حقیقی انقلاب کا امکان ممکن ہو سکے۔ عوام کو ضرورت ہے کہ وہ سیاسی رہنماؤں کو معاشرتی مسائل اور عوامی ضروریات سے واقف کار سمجھیں۔ عوام اور رہنماؤں کے درمیان تعاون اور امید کا رشتہ مضبوط ہونا چاہئے تاکہ پاکستانی معاشرتی جدوجہد کامیاب ہو سکے۔