KP Senate Election Siasi Hikmat e Amli
کے پی سینیٹ الیکشن سیاسی حکمت عملی

خیبر پختونخوا (کے پی) میں 2025 کے سینیٹ الیکشن نے سیاسی منظرنامے میں ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے۔ اس الیکشن نے نہ صرف پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی قیادت اور حکمت عملی کو آزمایا بلکہ اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ معاہدے اور پارٹی کے اندرونی معاملات پر بھی روشنی ڈالی۔ یہ الیکشن سیاسی چالوں، پارٹی وفاداریوں کی تبدیلی اور مشکل حالات میں حکومتی اتحاد کی کامیابی کا ایک دلچسپ مظہر رہا۔
خیبر پختونخوا کی صوبائی اسمبلی کے 145 اراکین نے 11 سینیٹ نشستوں کے لیے ووٹنگ کی۔ نتائج کے مطابق، پی ٹی آئی نے 6 نشستیں حاصل کیں، جبکہ اپوزیشن اتحاد (مسلم لیگ ن، جے یو آئی ف اور پیپلز پارٹی) نے 5 نشستیں اپنے نام کیں۔ پی ٹی آئی کے کامیاب امیدواروں میں مراد سعید، فیصل جاوید، نور الحق قادری اور مرزا آفریدی شامل ہیں، جبکہ اپوزیشن سے مسلم لیگ ن کے نیاز احمد، جے یو آئی ف کے مولانا عطا الحق اور پیپلز پارٹی کے طلحہ محمود کامیاب ہوئے۔
یہ الیکشن محض نشستوں کے حصول سے زیادہ، سیاسی حکمت عملی اور پارٹی وفاداریوں کی تبدیلی کا ایک پیچیدہ کھیل تھا۔ پی ٹی آئی کی قیادت، خاص طور پر وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور، نے نہ صرف اپنی پارٹی کی برتری قائم رکھی بلکہ اپوزیشن کے ساتھ ایک ایسا معاہدہ کیا جس نے مالیاتی لین دین کے امکانات کو کم کیا اور پارٹی کے اتحاد کا پیغام بھی دیا۔
پی ٹی آئی کی قیادت کو اس الیکشن میں کئی چیلنجز کا سامنا تھا۔ سب سے نمایاں تنقید پارٹی کے اندر امیدواروں کے انتخاب پر اٹھی۔ مثال کے طور پر، خرم ذیشان جیسے "ڈائی ہارڈ" کارکن کی جگہ نور الحق قادری کو سینیٹ کے لیے نامزد کیا گیا۔ اسی طرح پشاور سے پی ٹی آئی کے صدر عرفان سلیم کی جگہ مرزا آفریدی کو ٹکٹ دیا گیا، جو 9 مئی کے احتجاج کے بعد پارٹی سے علیحدگی اختیار کر چکے تھے۔ ان فیصلوں نے پارٹی کے اندر کچھ حلقوں میں مایوسی کو جنم دیا اور سوشل میڈیا پر یہ بحث زور پکڑ گئی کہ کیا یہ فیصلے عمران خان کی مرضی سے ہوئے یا پارٹی کی مقامی قیادت کے دباؤ میں۔
تاہم، ان تنقیدوں کے باوجود، پی ٹی آئی نے اپنی سیاسی حکمت عملی سے ثابت کیا کہ وہ تنقید کے باوجود ایک مضبوط سیاسی کھلاڑی ہے۔ وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور کی قیادت میں پارٹی نے نہ صرف اپنی عددی برتری کا فائدہ اٹھایا (92 ووٹوں کے مقابلے اپوزیشن کے 53 ووٹوں پر) بلکہ اپوزیشن کے ساتھ ایک معاہدہ بھی کیا، جس نے مبینہ طور پر مالیاتی لین دین کے امکانات کو روکا۔ اس معاہدے نے اپوزیشن کو مناسب نمائندگی دی اور پی ٹی آئی کو اپنی پوزیشن مضبوط کرنے کا موقع فراہم کیا۔
اپوزیشن جماعتوں نے الیکشن سے قبل ایک متحدہ حکمت عملی تیار کی۔ فیصل کریم کنڈی کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں اپوزیشن نے موجودہ صورتحال کا جائزہ لیا اور اپنے امیدواروں کے انتخاب پر اتفاق کیا۔ اس اتحاد نے نہ صرف اپوزیشن کی عددی قوت کو بڑھایا بلکہ امیدواروں کے انتخاب میں ہم آہنگی پیدا کی۔ مسلم لیگ ن، جے یو آئی ف اور پیپلز پارٹی نے مشترکہ طور پر اپنے امیدواروں کو میدان میں اتارا، جن میں مولانا عطا الحق (جے یو آئی ف)، طلحہ محمود (پیپلز پارٹی) اور نیاز احمد (مسلم لیگ ن) شامل تھے۔
اپوزیشن نے پی ٹی آئی کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے بلامقابلہ انتخاب کے فارمولے پر کام کیا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق، اپوزیشن اور صوبائی حکومت کے درمیان رات گئے تک مذاکرات جاری رہے، جس کے نتیجے میں 6/5 فارمولے پر اتفاق ہوا، یعنی پی ٹی آئی کو 6 اور اپوزیشن کو 5 نشستیں ملیں۔ اس معاہدے نے نہ صرف انتخابی تناؤ کو کم کیا بلکہ پیسوں کی لین دین کے امکانات کو بھی محدود کیا، جس سے سیاسی عمل کی شفافیت بڑھی۔ اپوزیشن لیڈر ڈاکٹر عباد نے کہا کہ "حکومت نے ہمارے فارمولے سے اتفاق کر لیا اور کچھ ایشوز بھی دور ہو گئے ہیں"۔
اپوزیشن نے اپنے امیدواروں کے انتخاب میں لچک دکھائی۔ مثال کے طور پر، اقلیتی نشست پر مسلم لیگ ن نے جے یو آئی ف کے امیدوار گرپال سنگھ کے حق میں دستبردار ہونے کا فیصلہ کیا، جس سے ٹاس کی ضرورت ختم ہوئی اور معاملہ خوش اسلوبی سے طے ہوا۔ اس فیصلے سے اپوزیشن نے اتحاد اور مفاہمت کی فضا کو برقرار رکھا، جیسا کہ امیر مقام نے کہا کہ "یہ فیصلہ اتحاد کو مضبوط کرنے کے لیے کیا گیا"۔ اسی طرح، طلحہ محمود، جو پہلے جے یو آئی ف سے وابستہ تھے، پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر کامیاب ہوئے، جبکہ دلاور خان، جو ماضی میں مسلم لیگ ن سے وابستہ تھے، جے یو آئی ف کے امیدوار کے طور پر کامیاب ہوئے۔
خیبر پختونخوا اسمبلی میں اپوزیشن کے 53 ووٹ تھے، جبکہ پی ٹی آئی کے پاس 92 ووٹوں کی برتری تھی۔ اس کے باوجود، اپوزیشن نے اپنی عددی قوت کو بہتر طور پر استعمال کیا۔ مشترکہ حکمت عملی کے ذریعے، اپوزیشن نے اپنی 4 نشستیں (2 جنرل، 1 ویمن اور 1 ٹیکنوکریٹ) یقینی بنائیں، جیسا کہ ابتدائی تخمینوں میں بتایا گیا تھا۔ تاہم، مذاکرات کے نتیجے میں ایک اضافی نشست حاصل کر لی گئی، جو اپوزیشن کی سفارتی کامیابی تھی۔
اپوزیشن اتحاد، جس میں مسلم لیگ ن، جے یو آئی ف اور پیپلز پارٹی شامل ہیں، نے بھی اپنی حکمت عملی سے 5 نشستیں حاصل کیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس الیکشن میں سیاسی وفاداریوں کی تبدیلی نمایاں رہی۔ مثال کے طور پر، طلحہ محمود، جو پہلے جے یو آئی ف سے وابستہ تھے، اب پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر کامیاب ہوئے۔ اسی طرح دلاور خان، جو کبھی مسلم لیگ ن کے رکن تھے اور پھر آزاد ہوئے، اب جے یو آئی ف کے امیدوار کے طور پر کامیاب ہوئے۔ مسلم لیگ ن کی صوبائی سیاست اس الیکشن میں صرف امیر مقام کے گھر تک محدود نظر آئی، جو پارٹی کی کمزور پوزیشن کی عکاسی کرتی ہے۔
وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور کی قیادت نے اس الیکشن میں ایک متوازن حکمت عملی اپنائی۔ ایک طرف انہوں نے اپنی پارٹی کے 6 سینیٹرز کو کامیاب بنایا، تو دوسری طرف اپوزیشن کے ساتھ معاہدہ کرکے سیاسی استحکام کا مظاہرہ کیا۔ یہ معاہدہ نہ صرف سیاسی تناؤ کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہوا بلکہ پارٹی کے اندرونی اتحاد کو مضبوط کرنے کا پیغام بھی دیا۔ گنڈاپور کی اس حکمت عملی نے یہ ثابت کیا کہ مشکل حالات میں بھی پارٹی کی قیادت نہ صرف اپنی پوزیشن برقرار رکھ سکتی ہے بلکہ اپوزیشن کے ساتھ تعمیری مذاکرات بھی کر سکتی ہے۔
پی ٹی آئی کی قیادت پر تنقید کا سلسلہ جاری ہے، خاص طور پر امیدواروں کے انتخاب کے حوالے سے۔ کچھ کارکنوں کا خیال ہے کہ عمران خان کے فیصلوں پر عملدرآمد کے بجائے مقامی قیادت نے اپنی مرضی سے فیصلے کیے۔ تاہم، یہ تنقید اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کر سکتی کہ پی ٹی آئی نے اپنی عددی برتری اور سیاسی حکمت عملی کے ذریعے 6 نشستیں حاصل کیں، جو ایک بڑی کامیابی ہے۔
کے پی کے سینیٹ الیکشن 2025 نے سیاسی منظرنامے میں ایک نئی جہت متعارف کرائی ہے۔ پی ٹی آئی کی قیادت نے نہ صرف اپنی سیاسی طاقت کا مظاہرہ کیا بلکہ اپوزیشن کے ساتھ معاہدے کے ذریعے ایک نیا سیاسی کلچر بھی متعارف کرایا۔ یہ الیکشن نہ صرف پی ٹی آئی کی قیادت کے لیے ایک امتحان تھا بلکہ پاکستانی سیاست میں تعمیری مذاکرات کی اہمیت کو بھی اجاگر کرتا ہے۔ مستقبل میں اس قسم کے معاہدوں اور حکمت عملیوں سے سیاسی استحکام کو مزید فروغ مل سکتا ہے، بشرطیکہ پارٹیاں اپنے اندرونی اختلافات کو خوش اسلوبی سے حل کریں۔

