Wednesday, 08 January 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Arslan Malik
  4. Hitler Aur Adalaten

Hitler Aur Adalaten

ہٹلر اور عدالتیں

کوئی بھی جمہوریت اتنی ہی مضبوط یا کمزور ہوتی ہے جتنے ادارے اس کی عمارت کو ڈھانپتے ہیں۔ جب جمہوریت کو پامال کیا جاتا ہے تو سب سے پہلے عدالتی نظام کی ادارہ جاتی اعتبار کو ختم کیا جاتا ہے۔ تاریخ کا ایک عظیم الشان ان ماخذوں کی گواہی دیتا ہے۔ جب بھی عدالتی جیوڈیشل مارشل لاء کے طرز پر چلایا جاتا ہے اور ساتھی ججز کی خودمختاری سلب کی جاتی ہے، تو اس ترتیب میں جبر، انتشار اور پھر انارکی، اس کے ناگزیر نتائج ہیں۔

1933 سے 1945 تک نازی حکمرانی کے مختلف پہلوؤں نے کتابوں، دستاویزی فلموں اور بہت سے علمی تجزیوں کی شکل میں بہت زیادہ توجہ حاصل کی ہے۔ تاہم، اس دور کی ایک بھولی ہوئی خصوصیت ایک آزاد عدالتی نظام کی منظم تباہی تھی۔

مشتعل ہٹلر نے جرمن عدالتی نظام کے درجہ بندی کے حکم سے باہر اور یہاں تک کہ جرمن قانون کے دائرے سے باہر، اپنا عدالتی نظام قائم کرنے کے لیے Reichstag فائر کے حکم نامے کے تحت اسے تسلیم کیے گئے اختیار کا فائدہ اٹھایا۔ یہ نازیوں کی خصوصی عدالتیں تھیں۔ ان خصوصی عدالتوں کا دائرہ وسیع تھا۔ تقریباً کوئی بھی جرم جسے نازی حکومت کی سیاسی مخالفت کے طور پر بیان کیا جا سکتا ہے، ان کے سامنے ختم ہوگیا۔

ان میں سے ایک عدالت مبینہ غداری کے مقدمات چلانے کے لیے قائم کی گئی تھی۔ ان اقدامات نے جرمن قانونی اور عدالتی نظام کے لیے موت کی گھنٹی بجا دی۔ 26 اپریل 1942 کو ہٹلر نے ریخ اسٹگ میں ایک تقریر میں عدلیہ سے خطاب کرتے ہوئے غیر جانبداری کے انجیر کے پتوں کو بھی چیر کر رکھ دیا تھا۔ ہٹلر نے کہا: "میں جرمن قانونی پیشہ سے یہ سمجھتا ہوں کہ قوم یہاں ان کے لیے نہیں ہے بلکہ وہ ان کے لیے ہے۔ (ہٹلر) یہاں قوم کے لیے ہے۔ اب سے، میں ان مقدمات میں مداخلت کروں گا۔

اس کے بعد نازی جرمنی میں ججوں کو ہدایت دی گئی کہ نازی پارٹی اور قانون کے درمیان کسی تصادم کی صورت میں، نازی پارٹی کو ہمیشہ کامیاب ہونا چاہیے کیونکہ ان کے مقاصد منصفانہ کھیل کے کسی بھی تصور پر غالب آتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ نازی جرمنی میں جج سب سے کم ستائے جانے والے طبقے تھے۔ نازی حکومت کے پاس وفادار جج تھے جنہوں نے اپنی مرضی سے لبرل جرمن قانون کو جبر، امتیازی سلوک اور نسل کشی کے آلے میں تبدیل کیا۔ یہ عدالتوں کے کام میں خاطر خواہ مداخلت کیے بغیر اور ججوں پر تادیبی اقدامات لاگو کیے بغیر حاصل کیا گیا۔ لیکن، تمام ججز حکومت کے سہولت کار نہیں تھے، کچھ نے ججوں کی حیثیت سے مزاحمت کی۔

جو کچھ نو مئی سے پہلے اور بعد، پاکستان کے نظام عدل میں دیکھنے کو ملا۔ زبان زد عام ہے کہ ججز صاحبان کی کازلسٹ دیکھ کر پتہ چل جاتا ہے کہ فیصلہ کیا ہوگا اور اسی صورتحال میں ججز میں واضح اختلاف رائے پایا جاتا ہے جس کے پیچھے پانامہ پیپر سے شروع ہونے والی ایک لمبی داستان ہے جو ہر پاکستانی کی زبان پر زدعام ہے کہ کیسے ایک شخص کو نکالنے کے لئے کیا کچھ پاکستان کے اداروں میں ہوا اور اب نو مئی کے ریاست پر حملہ آور ہونے کے بعد ضمانتوں میں انتہا کی گئی اور کیسے کیسے راستے بنائے گئے۔

اور اب بھی جن شخصیات نے لاڈلے کو کندھے پر بٹھایا ہوا تھا اور اب بھی ادراوں اور پاکستان کی ساکھ کی پرواہ کئے بنا لاڈلے کیلئے رستے بنانے کی کوششوں میں مصروف عمل ہیں۔ جب لاڈلا حکمرانی کے تاج سر پر سجائے بیٹھا تھا تو ایسا کونسا مقدمہ نہیں تھا جو پاکستانی اپوزیشن جماعتوں کے لیڈروں پر درج نہیں ہوا تھا پاکستانی سیاست میں پہلے ایک واضع داری ہوتی تھی لوگوں کی خواتین کو عزت دی جاتی تھی مگر پچھلے دور حکومت میں لوگوں کی خواتین کو عدالت، جیل اور کیا کچھ نہیں دیکھنے کو ملا۔ اور اب جب خواتین اداروں پر حملے کرتی ہوئی ثبوتوں کے ساتھ پکڑی گئی تو اب انکے بارے میں شرمناک الزامات لگائے کہ گرفتار خواتین کے ساتھ کیسا سلوک کیا جا رہا ہے۔

سول سوسائٹی وکلاء اور سیاسی جماعتوں نے خوب شور مچایا تھا کہ پانامہ کیس کے وقت سے اپنی مرضی کے بینچ بنانا اور اس پر نگران جج بیٹھا کر ایک مخصوص وقت میں فیصلے لینا تو سنا تھا مگر اب پی ڈی ایم حکومت کہہ رہی ہے کہ اب عدلیہ نے اپنے نو مئی کے واقعات پر بھی وہ فیصلے دیے ہیں جو ضرورت سے زیادہ ضمانتیں دے رہے ہیں اور ایسے فیصلے دیے گئے جس سے ایک سیاسی جماعت کو فائدہ ہوتا رہا چاہے اس کے لیے وہ آئین کو ری رائٹ کرے اور آپ کہتے ہیں پارلیمنٹ اور جمہوریت کے خلاف فیصلے آنے پر وہ پارلیمنٹرین بھی خاموش رہیں؟

Check Also

Sarak Roti Deti Hai, Zindagi Deti Hai

By Najam Wali Khan