Canada Aur Khalistan
کینیڈا اور خالصتان
کینیڈا کا نام آمنے سامنے آتا ہے جب بات خالصتان کے خصوصی مسائل کی ہوتی ہے۔ اس ملک کی چالیس ملین آبادی میں آٹھ لاکھ سکھ ہیں، اور یہاں کی سکھ کمیونٹی کے افراد نے ووٹ کا حق رکھتے ہیں اور خالصتان کے کٹر حامی بھی ہیں۔ خالصتان، جو کہ ایک بڑے مذہب کا حصہ ہے، اس پر ریفرنڈم ووٹ کرنے کا بنیادی حق ہے۔ ان کا یہ حق کینیڈا کی جمہوریت کی بنیاد ہے جس میں ہر شہری کو اپنے نمائندے منتخب کرنے کا حق ہوتا ہے۔ ناصرف ملک کی روایاتی نظام کی حوالے سے سکھ کمیونٹی کو حقوق دیئے گئے ہیں بلکہ ان کا ایک خصوصی مقام ہے جو ان کے خود کی سرکاری حقوق کو محفوظ رکھتا ہے۔
پچھلے دنوں، کینیڈا میں ایک موضوع سامنے آیا ہے جو دنیا بھر کی توجہ حاصل کر رہا ہے۔ یہ موضوع ہے خالصتان کے خلاف ہندوتوا کی تحریک کا مرکز بننا۔ خالصتانی رہنما، ہردیپ سنگھ کا کینیڈا میں قتل کو مودی سرکار کی بڑی غلطی کے طور پر ذکر ہوتا ہے۔
ہردیپ سنگھ، خالصتان کے اہم رہنما، کینیڈا کے را کے ذریعے قتل کے شدید الزامات کے باوجود، کینیڈا کی پارلیمنٹ میں وزیراعظم کے بیان کی مثال دنیا بھر کے خالصتان کے حامیوں کے لئے ایک نئی پیغام کی طرح ہے۔
خالصتان، جو تنازعے کا سبب بنا ہوا ہے، سکھوں کا مذہبی قومی تنازعہ ہے جہاں سکھ مذہب کے افراد خالصتان کو بطور آزاد ملک بنیادی حقوق کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ یہاں ایک اہم بات یہ ہے کہ کینیڈا کا سکھ سماج خالصتان کے حامی اور ہندوتوا کے خلاف عالمی تحریک کا مرکز بن گیا ہے۔
سکھوں کی مخصوص تاریخ میں خالصتان کا تنازعہ ایک بڑا حصہ کے طور رہا ہے اور اس کی بنیاد ایک مذہبی اور فرقے واری تشدد پر رکھی گئی ہے۔ مودی حکومت کے آنے سے ہندوتوا کی تحریک کا آغاز بھارت میں ہوا اور اس کی مقصد تھا کہ کو بھارت کو ایک ہندو راج میں تبدیل کیا جائے۔ اور ہندوتوا کے خلاف جدوجہد کرنے والوں کو چن چن کر نشان عبرت بنایا جائے۔
کینیڈا میں سکھوں کی بڑی تعداد میں جدوجہد سے یہ ممکن ہوا کہ خالصتان تحریک اپنی قوت بڑھائی۔ مودی حکومت کی ہندوتوا کی تاریخ سکھوں اور ہندو کے درمیان تشدد کو فروغ دینے میں مدد فراہم کی ہے، جس سے خالصتان کے حامیوں کی تحریک کا مقصد اور مشترکہ معاونت تشدد اضافے کا باعث بنتی ہے۔
کینیڈا کے لبرل اور آزاد ماحول نے خالصتان کی تحریک کو ان کے مقاصد میں آسانی سے آگے بڑھنے کی اجازت دی ہے۔ کینیڈا میں خالصتان کی تحریک کے بڑھتے ہوئے اثرات کی وجہ سے ملک کی سیاست میں بڑی تبدیلیاں آ سکتی ہیں۔ خالصتان کی تحریک کا مرکز بننے کے بعد، کینیڈا کی داخلی سیاست اور بین الاقوامی تعلقات پر اس کے اثرات کا جائزہ لینا ضروری ہوتا ہے۔
اس معاملے کو حل کرنے کے لئے حکومت کو موجودہ حالات کو دھیان میں رکھ کر افعال منظم کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے تاکہ معاشرتی امن اور اہمیت کی پس منظر کو برقرار رکھا جا سکے۔
کینیڈا میں ہندوتوا کی تحریک کا مرکز بننے کا موضوع ہندوتوا کے معاملے کو ایک نئی روشنی میں پیش کرتا ہے، اور اس کے اثرات کو دنیا کی سیاست میں بھی محسوس کیا جا رہا ہے۔ کینیڈا کی حکومت کو اس معاملے کو جدی طور پر دیکھنے اور مناسب طریقے سے اس کا سامنا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ امن اور انسانی حقوق کی پیروی کی جا سکے۔
کینیڈا ہی ہے جو خالصتان کے خصوصی مسائل کی پیشہ ورانہ شکل میں اور عالمی معنوں میں پیش کرتا ہے۔ خالصتان کے کٹر حامیوں کا ان کے ووٹ کا حق استعمال کرنے کا حق دیتا ہے، اور ہردیپ سنگھ کی مثال نے دنیا کو یہ دکھایا ہے کہ تعصب اور انسانی حقوق کی خلاف ورزش کے خلاف لڑائی میں کینیڈا کا کردار کتنا اہم ہوتا ہے۔