Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Arslan Malik
  4. Aafia Siddiqui Aik Jaiza Kahani

Aafia Siddiqui Aik Jaiza Kahani

عافیہ صدیقی ایک جائزہ کہانی

ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا کیس ایک پیچیدہ اور متنازع موضوع ہے جو پاکستان اور عالمی سطح پر کئی دہائیوں سے زیر بحث رہا ہے۔ اس کیس نے پاکستانی معاشرے، سیاسی و مذہبی جماعتوں اور بین الاقوامی مباحثوں میں گہری دلچسپی پیدا کی ہے۔ عافیہ صدیقی کی کہانی، ان کے مبینہ طور پر القاعدہ اور طالبان سے تعلقات کے الزامات، امریکی نقطہ نظر اور پاکستانی سیاسی و مذہبی جماعتوں کی اس ایشو پر پوزیشن کو سمجھنے کے لیے ایک جامع تجزیہ درکار ہے۔ اس مضمون میں ان تمام پہلوؤں کا جائزہ لینے کی کوشش کی جائے گی، تاکہ اس کیس کی پیچیدگیوں اور اس کے اثرات کو بہتر طور پر سمجھا جا سکے۔

عافیہ صدیقی ایک پاکستانی نیورو سائنسدان ہیں، جنہوں نے 1990 کی دہائی میں امریکہ کے ممتاز تعلیمی اداروں، جیسے کہ میساچوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (MIT) اور برینڈیز یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی۔ وہ 1991 سے 2002 تک امریکہ میں مقیم رہیں اور اس دوران انہوں نے امجد خان سے شادی کی، جس سے ان کے تین بچے ہوئے۔ 2002 میں ان کے شوہر سے طلاق کے بعد، وہ مبینہ طور پر عمار البلوچی سے شادی کر لیں، جو کہ القاعدہ کے اہم رہنما خالد شیخ محمد کا بھانجا بتایا جاتا ہے۔

2003 میں عافیہ صدیقی اپنے تین بچوں سمیت کراچی سے پراسرار طور پر لاپتہ ہوگئیں۔ ان کے خاندان کا دعویٰ ہے کہ انہیں امریکی ایجنسیوں نے اغوا کیا، جبکہ امریکی حکام اس کی تردید کرتے ہیں۔ 2008 میں امریکی حکام نے اعلان کیا کہ عافیہ کو افغانستان کے صوبہ غزنی سے گرفتار کیا گیا، جہاں ان پر امریکی فوجیوں پر حملے کا الزام لگایا گیا۔ 2010 میں نیویارک کی ایک عدالت نے انہیں امریکی فوجیوں پر حملے کے الزام میں 86 سال قید کی سزا سنائی۔

عافیہ کے کیس نے پاکستان میں شدید جذبات کو جنم دیا۔ ایک طرف وہ پاکستانی عوام کے لیے "قوم کی بیٹی" ہیں، جن پر امریکی ظلم کا نشانہ بننے کا الزام ہے، جبکہ دوسری طرف امریکی حکام انہیں القاعدہ کی سہولت کار اور دہشت گردی سے منسلک شخصیت قرار دیتے ہیں۔

عافیہ صدیقی کی خالد شیخ محمد سے رشتہ داری کے بارے میں اطلاعات متنازع ہیں۔ امریکی حکام اور کچھ ذرائع کے مطابق، عافیہ نے 2003 میں عمار البلوچی سے شادی کی، جو خالد شیخ محمد کا بھانجا ہے۔ خالد شیخ محمد کو 11 ستمبر 2001 کے حملوں کا ماسٹر مائنڈ سمجھا جاتا ہے۔ امریکی عدالت میں پیش کیے گئے دستاویزات اور ایف بی آئی کے ریکارڈز کے مطابق، عافیہ نے خود اس شادی کی تصدیق کی تھی، حالانکہ ان کے خاندان نے اس کی تردید کی ہے۔

خالد شیخ محمد کی گرفتاری کے بعد 2003 میں عافیہ کی گمشدگی کو بھی اسی تناظر میں دیکھا جاتا ہے۔ امریکی انٹیلیجنس ذرائع کے مطابق، خالد شیخ محمد کے بیانات سے عافیہ کے القاعدہ سے تعلقات کا انکشاف ہوا، جس کی بنیاد پر انہیں تلاش کیا گیا۔ گوانتانامو فائلز کے مطابق، عافیہ نے مبینہ طور پر القاعدہ کے لیے دھماکہ خیز مواد سمگل کرنے اور بائیولوجیکل ہتھیار بنانے کی پیشکش کی تھی۔

تاہم، عافیہ کے حامیوں کا کہنا ہے کہ یہ الزامات بے بنیاد ہیں اور انہیں خالد شیخ محمد سے رشتہ داری کے الزامات کے ذریعے بدنام کیا گیا۔ ان کا دعویٰ ہے کہ عافیہ ایک عام پاکستانی خاتون تھیں، جنہیں امریکی ایجنسیوں نے اپنے مقاصد کے لیے نشانہ بنایا۔

امریکی نقطہ نظر کے مطابق، عافیہ صدیقی القاعدہ کی ایک فعال رکن تھیں۔ گوانتانامو فائلز اور امریکی انٹیلیجنس رپورٹس میں دعویٰ کیا گیا کہ عافیہ 2002-2003 کے دوران کراچی میں القاعدہ کے ایک سیل کا حصہ تھیں، جو 11 ستمبر کے حملوں کی کامیابی کے بعد مزید دہشت گردانہ منصوبوں پر کام کر رہا تھا۔ ان پر الزام ہے کہ انہوں نے ماجد خان نامی شخص کے لیے امریکی سفری دستاویزات حاصل کیں اور دھماکہ خیز مواد سمگل کرنے کی کوشش کی۔

مزید برآں، 2008 میں غزنی سے گرفتاری کے وقت عافیہ کے پاس مبینہ طور پر مشکوک دستاویزات اور کیمیکلز پائے گئے، جن سے امریکی حکام نے ان کے دہشت گردی سے تعلق کا دعویٰ کیا۔ امریکی عدالت میں پیش کیے گئے شواہد کے مطابق، عافیہ نے ایک امریکی فوجی کی رائفل چھین کر فائرنگ کی کوشش کی، جس کی بنیاد پر انہیں سزا دی گئی۔

دوسری طرف، عافیہ کے حامیوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں، جیسے کہ ایمنسٹی انٹرنیشنل، نے امریکی کہانی پر سوال اٹھائے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ عافیہ کو 2003 سے 2008 تک خفیہ امریکی جیلوں، جیسے کہ بگرام ایئر بیس، میں رکھا گیا، جہاں ان پر تشدد کیا گیا۔ برطانوی صحافی ایوان رڈلی نے بھی دعویٰ کیا کہ بگرام میں ایک خاتون قیدی کی چیخیں عافیہ کی تھیں۔

افغانستان میں عافیہ کی گرفتاری سے قبل ان کے طالبان سے رابطوں کے بارے میں بھی اطلاعات ہیں۔ ایک افغان ذریعے کے مطابق، عافیہ نے پاکستانی طالبان کے سربراہ بیت اللہ محسود سے ملاقات کی کوشش کی تھی اور وہ کابل سے غزنی تک سفر کر رہی تھیں۔ تاہم، اس دعوے کی آزادانہ تصدیق نہیں ہو سکی اور عافیہ کے خاندان کا کہنا ہے کہ یہ سب جھوٹے الزامات ہیں۔

امریکی حکام کے مطابق، عافیہ صدیقی ایک خطرناک دہشت گرد تھیں، جن کا القاعدہ سے گہرا تعلق تھا۔ ایف بی آئی نے 2004 میں انہیں اپنی سات انتہائی مطلوب دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کیا تھا۔ امریکی انٹیلیجنس کا دعویٰ ہے کہ عافیہ نے نہ صرف خالد شیخ محمد کے ساتھ تعاون کیا بلکہ القاعدہ کے دیگر سرکردہ ارکان کے ساتھ بھی رابطے رکھے۔ گوانتانامو فائلز کے مطابق، انہوں نے امریکہ میں دھماکہ خیز مواد سمگل کرنے اور بائیولوجیکل ہتھیار بنانے کی منصوبہ بندی کی۔

امریکی عدالت میں عافیہ پر الزام لگایا گیا کہ انہوں نے 2008 میں غزنی میں امریکی فوجیوں پر رائفل سے فائرنگ کی۔ اگرچہ اس واقعے میں کوئی امریکی زخمی نہیں ہوا، لیکن عدالت نے انہیں اقدام قتل سمیت سات الزامات میں 86 سال قید کی سزا سنائی۔ امریکی حکام نے عافیہ کی گرفتاری سے قبل ان کے 2003 سے 2008 تک کے مقام کے بارے میں معلومات دینے سے انکار کیا، جس سے ان کے خاندان اور حامیوں کے خدشات کو تقویت ملی کہ انہیں خفیہ جیلوں میں رکھا گیا تھا۔

امریکی نقطہ نظر کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے، عافیہ کے وکیل کلائیو سٹیفرڈ اسمتھ نے دعویٰ کیا کہ انہیں بگرام ایئر بیس اور دیگر خفیہ جیلوں میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ عافیہ کی گرفتاری کی کہانی میں تضادات ہیں اور امریکی حکام نے ان کے خلاف ٹھوس شواہد پیش نہیں کیے۔

پاکستان میں عافیہ صدیقی کا کیس ایک جذباتی اور سیاسی ایشو بن چکا ہے۔ مختلف سیاسی اور مذہبی جماعتوں نے اسے اپنے ایجنڈے کے لیے استعمال کیا، جس سے یہ کیس ایک قومی علامت بن گیا۔

جماعت اسلامی عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے سب سے سرگرم جماعتوں میں سے ایک رہی ہے۔ سینیٹر مشتاق احمد خان نے عافیہ کے کیس کو پارلیمنٹ اور میڈیا میں بارہا اٹھایا اور ان کی رہائی کے لیے مہم چلائی۔ انہوں نے عافیہ کو "قوم کی بیٹی" قرار دیتے ہوئے امریکی عدالت کے فیصلے کو ناانصافی کا نتیجہ قرار دیا۔ پی ٹی آئی کے رہنما، بشمول سابق وزیراعظم عمران خان، نے عافیہ کی رہائی کا مطالبہ کیا۔ عمران خان نے 2019 میں اپنے دورہ امریکہ کے دوران عافیہ کے بدلے ڈاکٹر شکیل آفریدی کی رہائی پر بات کرنے کی پیشکش کی تھی۔ پی ٹی آئی کے کارکن عافیہ کے کیس کو پاکستانی خودمختاری پر حملے کے طور پر پیش کرتے ہیں۔

دیگر مذہبی جماعتیں: جمعیت علمائے اسلام (ف) اور دیگر مذہبی جماعتوں نے بھی عافیہ کے کیس کو امریکی سامراجیت کے خلاف ایک علامت کے طور پر پیش کیا۔ وہ اسے ایک مظلوم مسلمان خاتون کے طور پر دکھاتی ہیں، جسے امریکی ظلم کا نشانہ بنایا گیا۔ ان جماعتوں نے عافیہ کی رہائی کے لیے احتجاج اور مہمات چلائیں، جو اکثر ان کے اینٹی امریکن بیانیے کا حصہ رہا۔

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور پاکستان مسلم لیگ (ن) جیسی جماعتوں نے عافیہ کے کیس پر نسبتاً کمزور موقف اپنایا۔ 2009 میں پی پی پی کی حکومت نے عافیہ کے وکلاء کے لیے 2 ملین ڈالر کی امداد کا اعلان کیا تھا، لیکن لاہور ہائیکورٹ نے اسے روک دیا۔ موجودہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت پر تنقید کی جاتی ہے کہ وہ عافیہ کی رہائی کے لیے سنجیدہ کوششیں نہیں کر رہی۔

پاکستانی میڈیا اور عوام میں عافیہ صدیقی کو "قوم کی بیٹی" کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ ان کے کیس نے پاکستانی معاشرے میں اینٹی امریکن جذبات کو ہوا دی اور بہت سے لوگ انہیں ایک معصوم خاتون سمجھتے ہیں جو امریکی ایجنسیوں کے ظلم کا شکار ہوئیں۔ میڈیا رپورٹس میں ان کی جیل میں مبینہ طور پر جنسی اور نفسیاتی تشدد کا ذکر کرکے عوامی جذبات کو مزید ابھارا گیا۔

عافیہ صدیقی کا کیس پاکستانی سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے لیے ایک طاقتور ہتھیار رہا ہے۔ اسے کئی طریقوں سے استعمال کیا گیا۔ عافیہ کا کیس اینٹی امریکن جذبات کو ابھارنے کے لیے استعمال ہوتا رہا ہے۔ مذہبی اور دائیں بازو کی جماعتیں اسے امریکی سامراجیت اور پاکستانی خودمختاری پر حملے کے طور پر پیش کرتی ہیں۔ یہ بیانیہ پاکستانی عوام میں مقبول ہے، کیونکہ یہ ان کے امریکی پالیسیوں سے متعلق شکایات کو تقویت دیتا ہے۔

سیاسی جماعتیں، خصوصاً اپوزیشن، عافیہ کے کیس کو موجودہ حکومت کی ناکامیوں کو اجاگر کرنے کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر، جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی نے موجودہ حکومت پر تنقید کی کہ وہ عافیہ کی رہائی کے لیے کافی کوششیں نہیں کر رہی۔

عوامی ہمدردی: عافیہ کی کہانی، خصوصاً ان کے بچوں سے جدائی اور جیل میں مبینہ تشدد، پاکستانی عوام میں ہمدردی پیدا کرتی ہے۔ اس سے سیاسی جماعتیں عوامی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہیں، کیونکہ عافیہ کو ایک مظلوم خاتون کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔

مذہبی جماعتیں عافیہ کے کیس کو ایک مسلمان خاتون کے خلاف امریکی ظلم کے طور پر پیش کرکے مذہبی جذبات کو ابھارتی ہیں۔ یہ بیانیہ ان کے ووٹر بیس کو متحرک کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔

عافیہ صدیقی کا کیس دو متضاد بیانیوں کا امتزاج ہے۔ ایک طرف امریکی حکام کے الزامات ہیں کہ وہ القاعدہ کی سہولت کار تھیں اور دہشت گردی کی سرگرمیوں میں ملوث تھیں۔ دوسری طرف، پاکستانی عوام اور ان کے حامیوں کا موقف ہے کہ وہ ایک معصوم خاتون ہیں، جنہیں امریکی ایجنسیوں نے ظلم کا نشانہ بنایا۔ دونوں بیانیوں کے درمیان سچائی کہیں درمیان میں ہو سکتی ہے، لیکن ٹھوس شواہد کی کمی اور کیس سے متعلق تضادات نے اسے مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔

عافیہ کی کہانی پاکستانی معاشرے میں اینٹی امریکن جذبات، حکومتی ناکامیوں اور انسانی حقوق کے حوالے سے بحث کو اجاگر کرتی ہے۔ سیاسی اور مذہبی جماعتوں نے اسے اپنے ایجنڈوں کے لیے استعمال کیا، لیکن اس سے عافیہ کی رہائی کے امکانات پر کوئی خاص اثر نہیں پڑا۔ امریکی عدالت کے فیصلے اور عافیہ کی سزا نے اس کیس کو ایک عالمی تنازع بنا دیا ہے، جو آج بھی حل طلب ہے۔

عافیہ صدیقی کا کیس ایک ایسی کہانی ہے جو سچائی، افواہوں اور سیاسی ہتھکنڈوں کے درمیان گھری ہوئی ہے۔ امریکی حکام کے مطابق ان کے خالد شیخ محمد سے مبینہ رشتے اور القاعدہ سے تعلقات کے الزامات نے ان کے کیس کو پیچیدہ بنایا، جبکہ پاکستانی سیاسی و مذہبی جماعتوں نے اسے اپنے ایجنڈوں کے لیے استعمال کیا۔ امریکی نقطہ نظر عافیہ کو ایک دہشت گرد کے طور پر پیش کرتا ہے، جبکہ پاکستانی بیانیہ انہیں ایک مظلوم خاتون کے طور پر دیکھتا ہے۔ اس کیس کا حل نہ صرف قانونی اور سفارتی کوششوں کا تقاضا کرتا ہے بلکہ اسے سیاسی ہتھکنڈوں سے الگ کرکے منصفانہ طریقے سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔

Check Also

Youtube Automation, Be Rozgar Nojawano Ka Badalta Mustaqbil

By Syed Badar Saeed