Sunday, 28 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Arshad Ghazali/
  4. Sahafat Ke Shagufe

Sahafat Ke Shagufe

صحافت کے شگوفے

مخصوص ایجنڈے اور ذہن سازی پر مامور کچھ دانش ور اور صحافی ہر چند دن بعد اپنی زنبیل سے نت نئی گھڑی ہوئی خبریں نکالتے ہیں ۔ کبھی حکومت کے جانے کی، کبھی میاں صاحب کی واپسی کی، کبھی کرسی اور صوفے کے ساتھ ٹوپی پہننے اور اتارنے کی، کبھی غیر ملکی دوروں کی ناکامی کی، کبھی سیاسی و عالمی تنہائی کی، کبھی حکومت اور اداروں کا پیج پھٹنے کی مگر صحافت اور سیاست کے عمرو عیاروں کے مقابل جب سچائی اور دلائل کی جادوگری جلوہ دکھاتی ہے تو ان کا سارا پراپیگینڈہ ہوا میں تحلیل ہوجاتا ہے۔

ایسے میں جب انھیں حکومت کے خلاف اور کچھ نہیں ملتا تو ذاتیات پر کیچڑ اور غلاظت اچھال کر غیر صحافتی مہارت و تربیت کا مظاہرہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں، جو رد عمل میں خود ان کی طرف لوٹ جاتا ہے کہ اس حمام میں سب ہی کے دامن داغدار ہیں۔ پچھلے چند دنوں میں تحریک عدم اعتماد کے لئے جس اپوزیشن کے اکٹھے ہونے اور حکومتی اتحادیوں کو توڑنے کے دعوے کئے جاتے رہے، بنیادی طور پر وہ کچھ پارٹیوں کی اپنی قیمت بڑھانے، کچھ کی سیاست میں متعلق رہنے اور کچھ کی صرف آنیاں جانیاں تھیں۔

مگر چھوٹے میاں صاحب کے لئے عمران خان کا جانا فناء اور بقاء کا معاملہ تھا کہ عدالتیں اور نیب تو "مینج" ہونا ممکن تھا، مگر ایف آئی اے کا مقصود چپڑاسی والا کیس گلے میں اٹک چکا ہے جس کی ڈور کا سرا خود وزیراعظم نے سنبھالا ہوا ہے۔ کیونکہ یہ تحریک انصاف کے لئے بھی لائف لائن ہے کہ بڑے میاں صاحب اور ان کی دختر نیک اختر کے نا اہل ہونے کے بعد، خاندان کو سنبھالنے اور ریلیف دلوانے کی واحد امید اور سہارا بھی چھن کر نااہل ہوگیا تو نون لیگ میں سے ہی کئی لوگ ضیاءالحق کے زمانے کے بغیر پہیوں اور باڈی کے، نون لیگی ٹرک کو دانتوں سےکھینچنے کے لئے کھڑے ہوجائیں گے، جو پارٹی کی تقسیم کے ساتھ ساتھ سیاسی نقصان کا باعث بھی بنے گا اور شریف خاندان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچائے گا۔

ٹمٹماتی امید کی آخری کرن چھوٹے میاں صاحب کے بعد ملکی سیاست میں نون لیگ کے پاس کوئی قابل ذکر نام نہیں، جسے عوامی سطح پر اس حد تک پزیرائی حاصل ہو کہ وہ کھوئی ہوئی عظمت رفتہ بحال کروا سکےاور پارٹی کو واپس طاقت کی راہداریوں میں لے جا سکے۔ اس لئے چوھدری برادران جیسے دیرینہ حریفوں سے لے کر، ایم کیو ایم تک اور جہانگیر ترین سے لے کر گیٹ نمبر چار تک "تیرے آستاں کی تلاش میں ہر آستاں سے گزر گیا" مگر نتیجہ وہی دھاک کے تین پات، صفر ہی رہا اور ہر جگہ "بڑے بے آبرو ہو کر تیرے کوچے سے ہم نکلے" کہ ذہن سازی اور پراپیگینڈے پر مامور صحافیوں اور نام نہاد دانش وروں کا شوروغل ہمیشہ کی طرح شاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری تھا۔

جو ہر بار کی طرح "صفحے" کے ایک ہونے کی سچائی کے بوجھ تلے دفن ہونا ہی تھا کہ سب کے بڑے ابو ٹوپی پہنیں یا اتاریں وہ لائف لائن بڑھاتے چلے جانے کو اس لئے بھی مجبور ہیں، کہ چین کے حالیہ دورے اور روس کے‍‍ آئندہ دورے تک اور دیگر اہم معاملات کے پیش نظر حکومت کے ساتھ قدم ملانا، ملکی سلامتی اور استحکام کے لئے ضروری ہے اور خاص طور پر جب نہ تو اپوزیشن کے پاس اپنے نمبر پورے ہیں، نہ ہی ان کی صفوں میں اتحاد ہے اور نہ ہی موجودہ حکومت کے ہٹائے جانے کے بعد معیشت اور ملکی بہتری کے لئے ان کی پٹاری میں کوئی معجزہ۔ ایسے میں جب تین بار ماضی میں ڈسے جانے اور ہر بار بلیک میلنگ اور دھمکیوں کا بھی طویل ریکارڈ ہو تو، مومنانہ فراصت یہی ہے کہ سب کو لالی پاپ ملنےکے آسروں پر رکھ کر وقت گزار دیا جائے۔

Check Also

Mein Aap Ka Fan Hoon

By Rauf Klasra