1.  Home/
  2. Blog/
  3. Arshad Ghazali/
  4. Molviyon Se Sehmi Hui Science

Molviyon Se Sehmi Hui Science

مولویوں سے سہمی ہوئی سائنس

"جب بھی کوئی نئی ایجاد یا دریافت ہو اج کل کے جدید مولوی اس کی تصدیق میں قران پاک سے ایتیں نکال کر لے اتے ہیں کہ یہ بات تو قران کریم نے صدیوں پہلے بتا دی تھی، بھائی، اگر صدیوں پہلے بتادی تھی تو تو دنیا کے اربوں مسلمانوں میں سے کوئی اس ایت کی مدد سے سینکڑوں برسوں میں وہ دریافت کیوں نہیں کر پایا، قران اور سائنس دو الگ چیزیں ہیں اسے الگ ہی رکھنا چاہئے، سائنس تو بدل جاتی ہے کل تم اپنا دین بھی بدل دو گے" کسی محفل میں ایک اعلی تعلیم یافتہ شخص کی اپنے دوست سے بحث سن کر حیرانگی ہوئی جو شاید مسلمانوں کے ابتدائی عروج کے دور سے ناواقف تھے یا پھر لبرل سائنسی سوچ سے کچھ زیادہ ہی متاثر بھی مگر حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ہاں دو طرح کے طبقات پائے جاتے ہیں ایک وہ لوگ ہیں جو ہر سائنسی دریافت اور ایجاد کو زبردستی مسلمان کرنے پر تلے رہتے ہیں اور دوسرا طبقہ سائنس کو مذہب کے ساتھ جوڑنے کے مخالف ہے۔

اگرچہ دونوں طبقات اپنے موقف کے حق میں دلائل رکھتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ مذہب اور سائنس دو مختلف چیزیں ہیں، مسلمان جنت، دوزخ، حیات بعد الموت، فرشتوں، جنوں، روح اور دیگر ایسے کئی امور پر ایمان رکھتے ہیں جو خالق کائنات نے اپنی کتاب مقدس قران حکیم میں بیان فرمائے ہیں جب کہ یہ تمام موضوعات سائنس کے دائرہ کار میں ہی نہیں اتے، سائنس تجربات اور مشاہدات کا علم ہے جنھیں ازادانہ طور پر دوہرایا جا سکے جب کہ روح، فرشتے یا حیات بعد از موت وغیرہ کا تعلق خالصتا ایمان بالغیب سے ہے تو پھر دونوں طبقات میں جھگڑا کس بات پر ہے اور کیوں ہمیشہ ایک دوسرے کی مخالفت میں کمربستہ نظر اتے ہیں۔

ہمارے ہاں ایک عمومی غلط فہمی یہ بھی پائی جاتی ہے کہ سائنس بدل جاتی ہے، اس کی تھیوریز اور نظریات وقت کے ساتھ بدل جاتے ہیں مگر ایسا نہیں ہے درحقیقت سائنس مظاہر فطرت کا نام ہے جو ہمیشہ اپنے قوانین کے پابند رہتے ہیں لہذا سائنس کے بدلنے کا کوئی سوال نہیں، بدلتا صرف انسان کا فہم، اس کے سمجھنے کا لیول اور استعداد ہے، سائنس کے اصول تخلیق نہیں کئے جاتے بلکہ دریافت ہوتے ہیں اور دریافت وہی چیز ہوتی ہے جو پہلے سے موجود ہو اس لئے سائنس کبھی نہیں بدلتی بلکہ اسے ہمارا سمجھنے کا فہم اور ہماری ذہنی استعداد بدلتی ہے۔

سرسید احمد خان کا ایک منطقی مقدمہ ہے کہ یہ کائنات اللہ تعالی کا فعل ہے اور قران کریم اللہ تعالی کا قول ہے چونکہ اللہ تبارک و تعالی کے قوم و فعل میں تضاد ممکن نہیں اس لئے کائنات اور قران میں بھی تضاد ممکن نہیں ہے، قران کریم سائنس کی کتاب نہیں ہے مگر اس میں کئی سو ایات سائنس سے متعلق ہیں، مختلف مفسرین نے ان ایات کے مختلف مطالب اور تفاسیر بیان کی ہیں اج کے دور میں اگر کوئی شخص ان ایات مبارکہ کو موجودہ سائنسی نظریات اور دریافتوں پر منطبق کرتا ہے تو سائنس کو مذہب سے جوڑنے کے مخالف طبقات کے علاوہ کچھ مذہبی حلقے بھی اس پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہیں جب کہ قران کریم کسی مخصوص دور یا حالات کے لئے نہیں ہے بلکہ قران کریم کا اعجاز ہی یہ ہے کہ وہ قیامت تک کے لئے راہ ہدایت ہے اور ہر دور میں اس کے معارف دنیا کے سامنے اتے رہیں گے۔

جو مسلمان اس بات سے خوفزدہ ہوتے ہیں کہ اج اگر ہم کسی قرانی ایت کی سائنسی توجیح پیش کرتے ہیں اور وہ انے والے کل میں سائنسی نظریات کے تبدیل ہونے کی وجہ سے غلط ثابت ہوتی ہے تو قران کریم پر اعتراض اٹھیں گے جبکہ حقیقت میں یہ بات قران پاک اور عربی زبان سے ناواقفیت کا نتیجہ ہے، اسکی مثال ایسی ہی ہے جیسےایک کثیر المنزلہ عمارت سامنے ہو اور اس عمارت کا چند افراد نظارہ کر رہے ہوں ایک فرد منازل کے اعتبار سے اس عمارت کو دس حصوں میں تقسیم کرتا ہت کہ یہ دس مزنلہ عمارت ہے، دوسرا فرد پورشن کے حساب سے اسے تقسیم کرتا ہے کہ ہر منزل میں چونکہ دو پورشن ہیں لہذا عمارت بیس حصوں پہ مشتمل ہے۔

ایک تیسرا فردعمارت میں استعمال ہونے والی اینٹوں کو عمارت کی اکائی قرار دیتے ہوئےاسے لاکھوں حصوں میں تقسیم کردیتا ہے کہ یہ عمارت لاکھوں اینٹوں پر مشتمل ہے، مگر کلاسیکل فزکس کو سٹوڈنٹ اسے ایٹمز کا مجموعہ قرار دیکر ناقابل شمار بھی قرار دے سکتا ہے، جبکہ اس سے بھی آگے چلے جائیں تو کوانٹم فزکس کا ایک سٹوڈنٹ اسے مزید ناقابل شمار قرار دے سکتا ہے، مگر اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ مفسرین کی تفاسیر اور ترجمے کو نظرانداز کر کے عربی زبان، قواعد و گرائمر سے ناواقف ہوتے ہوئے محض اردو ترجمہ پڑھ کر ان ایات مبارکہ کو سائنسی دریافتوں پر چسپاں کرنے کی کوشش کی جائے۔

مفسرین کی تفاسیر، ایت کی شان نزول، عربی الفاظ، متن، موضوع اور گرائمر کو سمجھے بناء جب محض قران کریم کی مخصوص ایت مبارکہ کے اردو ترجمے کو کسی سائنس دریافت یا نظرئے پر منطبق کیا جاتا ہے تو پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں اور قران کریم اور سائنس میں مطابقت پیدا نہیں ہوتی مثال کے طور پر قران کریم میں اللہ تعالی سات اسمانوں کا ذکر فرماتا ہے اور اس کے لئے عربی لفظ "سماء" استعمال ہوا ہے جس کا اردو ترجمہ اسمان کیا جاتا ہے، لنڈے کے دیسی سائنسدان اس پر شور مچاتے ہیں کہ سائنس میں اسمان نامی کوئی چیز نہیں ہے ناں سات اسمانوں کا وجود ہے اور یہ بات حقیقت بھی ہے اب کچھ کم فہم مسلمان سات اسمانوں کو زمینی فضاء کی سات لیئرز سے تشبیح دیتے ہیں اور کچھ اس کی دیگر وضاحتیں کرتے ہیں مگر درحقیقت "سماء" کا مطلب عربی میں بلندی ہے اور بلندی کی کوئی حد نہیں ہمارے پاس کوئی ایسی ٹیکنالوجی یا علم نہیں جس کی مدد سے ہم اس کائنات سے باہر نکل سکیں، ہم جہاں تک اپنی انکھوں یا دوربین کی مدد سے دیکھ سکتے ہیں وہ ہماری نسبت سے بلندی ہی ہے خواہ کائنات کا اخری سرا ہی کیوں ناں ہو، اب سات اسمانوں سے مراد سات مختلف ڈائیمینشمز ہیں یا سات الگ الگ کائناتیں جو اس موجودہ کائنات سے باہر بھی ہوسکتی ہیں اس بارے میں فی الوقت ہمارے پاس کوئی وضاحت موجود نہیں ہے۔

دوسری طرف قران کریم کی بہت سی ایات مبارکہ ایسی ہیں جن میں اللہ تعالی نے چودہ سو سال قبل جو فرمایا سائنس اسے جھٹلاتی ائی قران نے کہا کائنات ایک انتہائی مختصر وقت میں وجود میں ائی اللہ پاک نے "کن" کہا اور "فیکون" یعنی وہ اسی وقت ہوگئی اگر فیکون کا مطلب یہ ناں بھی لیں کہ "ہونا شروع ہوگئی" تب بھی اج انفلیشن تھیوری یہ ثابت کرچکی ہے کہ ایک سیکنڈ کے دس کی طاقت منفی بتیس سے بھی مختصر وقت میں ساری کائنات انفلیٹ ہوکر موجودہ شکل میں اگئی تھی یہ کتنا مختصر ترین وقت ہے اس کا تصور کرنا ہی عقل سے بالاتر ہے ایسے ہی تمام جانداروں کی پانی سے پیدائش، کائنات کا پھیلنا، لوہے کا "اتارا" جانا اور بگ بینگ سمیت بہت سے سائنسی مظاہر ہیں جو قران کریم نے صدیوں قبل بیان فرمائے اور موجودہ سائنس اج اس مقام تک پہنچ سکی کہ انھیں دریافت کر سکے حتی کہ قران کریم اس زمین سے ہٹ کر کائنات میں زندگی کے موجود ہونے، اسمان میں راستے ہونے اور کائنات کے اختتام سمیت بہت سے مظاہر تک کی پیشگوئی بھی کرتا ہے، یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ مسلمان قران سے فائدہ کیوں نہیں اٹھاتے اور ایات مبارکہ پر غور و فکر کیوں نہیں کرتے تو یہ حقیقت ہے کہ مسلمانوں کے زوال کا سبب ہی قران کریم اور دین سے دوری اور قران کریم کی ایات مبارکہ پر غور و فکر ناں کرنا ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلمان اپنے اصل کی طرف لوٹ ائیں تاکہ دنیا و اخرت میں سرخرو ہوسکیں اور دنیا کی تعمیر و ترقی میں قائدانہ کردار ادا کر سکیں۔

Check Also

Laut Aane Ko Par Tolay

By Mojahid Mirza