1.  Home/
  2. Blog/
  3. Arshad Ghazali/
  4. Mera Jism Meri Marzi Ka Alambardar

Mera Jism Meri Marzi Ka Alambardar

"میرا جسم میری مرضی" کا علمبردار

ایک واقعہ نظر سے گزرا کہ کسی گائوں میں باباجی کھیت میں بھینسوں کو جوت کر ہل چلوا رہے تھے اور چھپر میں بیل ارام کر رہے تھے۔ کسی سیانے نے باباجی سے پوچھا یہ کیا تماشہ ہے؟ باباجی نے کہا پچھلے دنوں شہر سے ایک "چٹی گائے"آئی تھی اس نے انھیں ورغلایا کہ ہمیں گھر میں قید رکھا جاتا ہے ہمیں بیل کے برابر حقوق نہیں ملتے اور ہمارا استحصال کیا جاتا ہے چناچہ انھوں نے آزادی اور برابری کےحقوق مانگے تو میں نے ان کو ہل چلانے پر لگا دیا اب یہ دودھ بھی دیتی ہیں اور ہل بھی چلاتی ہے۔ بیلوں کو اب کوئی کام نہیں تو وہ ارام کرتے ہیں اور انھیں مزید حقوق مانگنے پر اکساتے رہتے ہیں۔

باباجی کی بھینسوں اور آزادی حقوق نسواں کی علم بردار "میرا جسم میری مرضی" کے نعرے لگانے والی لبرل انٹیوں کی تقلید میں ویکسین بنانے والے سائنسدانوں کے استحصال کا شکار کرونا وائرس بھی لبرل ازم کے فلسفے کے تحت اپنی "وائرسی" آزادی کو دنیا کے ہر شخص تک پھیلانے اور مساوات کے فلسفے پر عمل کرتے ہوئے ہر شخص کو برابر مستفیذ کرنے میں سرگرداں ہے۔ ایسے میں ہمارے ملک میں پائے جانے والے سازشی نظریات پر یقین رکھنے والے عالی شان دماغ اس کے ہراول دستے کا کردار ادا کر رہے ہیں اور پوری کوشش میں ہیں کہ کرونا وائرس خدانخواستہ پاکستان میں بھی " انی مچا دے"۔

پچھلے دنوں اسی سوچ کے حامل ایک صاحب کی طرف سے کرونا وائرس کو لبرل طبقے کی عالمی سازش قرار دئیے جانے کا سن کر حیرت ہوئی۔ موصوف فرما رہے تھے کہ مسلمانوں میں رائج مصافحے اورمعانقے کو ختم کرنے کے لئے یہ سازش ترتیب دی گئی تاکہ مسلمان ایک دوسرے سے ملنے جلنے سے اجتناب کریں ایک دوسرے کے قریب ناں ائیں اور ناں ہی ان میں پیار محبت اور بھائی چارہ بڑھ سکے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ پہلے کون سا پاس اکر ہم دودھ اور شہد کی نہریں بہا رہے ہیں۔ بھائی بھائی کا دشمن ہے ہم اخلاقیات اور اقدار کا جنازہ پڑھ چکے ہیں۔ ایک دوسرے کا حق مارنے دوسروں کو تکلیف دینے سے لے کر سود، چوری، ملاوٹ، بے حیائی اور رشوت خوری تک ہر معاشرتی اور اخلاقی برائی میں مبتلا ہیں۔ اپنے اصل کو بھول کر ہم مغربی رنگ میں ایسے رنگ چکے ہیں کہ اپنی پہچان اپنا تشخص اپنا دین اپنی روایات تک بھولتے چلے جارہے ہیں۔

محدود دماغی گروتھ کی حامل پاکستانی عوام کی اکثریت سازشی نظریات قبول کرنے اور پھیلانے کی فیکٹری ہے۔ اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کو کبھی یہودیوں کبھی عالمی طاقتوں اور کبھی ان سرمایہ کاروں کے سر ڈالنا ہمارا شیوہ ہے جن کی کوششوں اور مہربانیوں کی وجہ سے ہی موبائل سے ٹیلی وژن اور کمپیوٹر سے انٹرنیٹ تک ہر ایجاد اور ٹیکنالوجی سے ہم فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ پچھلے کچھ وقت سے چونکہ کرونا وائرس نے دنیا میں تباہی پھیلائی ہوئی ہے تو اب سازشی نظریات کا حدف کرونا وائرس ٹھرا۔ کوئی ویکسین لگوانے کے بعد بازو پر بلب لگا کر جلاتا نظر اتا ہے کوئی مقناطیس لگا کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہا ہوتا ہے کہ ویکسین کے نام پر ہمارے جسم میں اصل میں مائیکرو چپ ڈال دی گئی ہے جس کا مقصد ہمارے دماغ کو کنٹرول کرنا اور ہماری مصروفیات کو مانیٹر کرنا ہے۔

بندہ "چھتر" اتار لے اور پوچھے پولیو ویکسین سے لے کر بچوں کو دہائیوں سے لگنے والی دیگر ویکسین کیا کالا شاہ کاکو میں بنتی ہیں اور موبائل پر جب ہم ایپلی کیشنز انسٹال کرتے ہوئے خود انھیں اپنی تمام تر معلومات اور ڈیٹا تک رسائی دیتے ہیں کیا تب ہماری مانیٹرنگ نہیں ہوتی۔ اس وقت دنیا اتنی جدید ہوچکی ہے کہ موبائل کی مدد سے کسی کو بھی دیکھا جا سکتا ہے سنا جا سکتا ہے حتی کہ اس کے ذہنی رحجان تک کا پتہ چلا کر میڈیا، پراپیگینڈے، اشتہارات اور دیگر چیزوں کی مدد سے اس کی ذہن سازی کی جا سکتی ہے تو ایسے میں کیا کرونا ویکسین ہی رہ گئی ہے دماغ کو کنٹرول کرنے اور مصروفیات کو مانیٹر کرنے کے لئے۔

پاکستان جیسے ملک میں جہاں کرونا زحمت ہے وہاں خواتین کے لئے کسی نعمت سے کم نہیں جو بیک وقت ماسک سے "نقاب" کا کام بھی لیتی ہیں اور اگر جلدی میں میک اپ کے بناء گھر سے نکلنا پڑ جائے تو لوگوں کے بناء میک اپ "ڈر جانے" اور ناں پہچانے جانے کی ٹینشن سے آزادی نصیب ہوجاتی ہے اس کے علاوہ کراچی کے لوگ تو خاص طور پر کرونا وائرس کے فوائد سے مستفید ہو رہے ہیں کہ جو "لونڈے" گٹکا، ماوا اور پان وغیرہ کھا کر لال کالے پیلے دانت اور بدبو کا چلتا پھرتا اشتہار بنے ہوتے ہیں ان سے کم سے کم عام لوگوں کو ظاہری طور پر نجات مل جاتی ہے۔

عوام الناس کو چاہئے کہ لبرلوں کی عالمی سازش کو ناکام کرنے اور پاکستان کو ترقی کی راہ پر ڈالنے کے لئے ماسک، سماجی فاصلے اور بیماری کی صورت میں قرنطینہ ترک کر کے بھائی چارے، باہمی میل جول اور محبت کو فروغ دیں تاکہ ہمارا شمار بھی بیوقوفوں کے بجائے عقلمندوں میں ہو اور ہم بھی مودی کے بھارت کی طرح کرونا کے خلاف "کامیاب حکمت عملی" پر عمل کر کے خوشحالی و ترقی کے سفر پر زمین سے چھ فٹ نیچے کی طرف گامزن ہوسکیں۔

Check Also

Zindagi Ka Khoya Hua Sira

By Javed Chaudhry