Zindagi Ka Arq
زندگی کا عرق
یہ سر کلائیو لائیڈ سے میری تیسری ملاقات تھی۔
میں نے کلائیو کو ان تینوں ملاقاتوں میں عالم سرور میں دیکھا، بہترین اور خوشگوار کمپنی انجوائے کرتے ہوئے، روح افزا لطیفوں پر ہنستے ہوئے یا ارد گرد موجود حسیناؤں پر اپنے ویسٹ انڈین لہجے میں کمنٹری کرتے ہوئے۔ کلائیو لائیڈ نے 1974 سے 1985 تک ویسٹ انڈیز ٹیم کی کپتانی کی۔ سابق ویسٹ انڈیز کپتان لائیڈ کی قیادت میں کیریبین ٹیم کا کئی برسوں تک کرکٹ میں دبدبہ رہا تھا۔
ویسٹ انڈیز کے کپتان اور سٹار بیٹسمین کلائیو لائیڈ نے 1975 میں عالمی کپ کے فائنل میچ میں 85 گیندوں پر 102 رنز کی دھواں دار اننگ کھیلی جو اس زمانے میں تاریخ کی تیز ترین سنچری کہلائی۔ یوں پہلا عالمی کپ اپنے نام کر لیا۔ دوسرا عالمی کپ بھی ویسٹ انڈیز نے 1979 میں جیتا۔ تب یہ سالے کالی آندھی والے ایسے کھیلتے تھے، جیسے آنے والے سارے کپ انہوں نے ہی جیتنے ہیں۔
مجھے تو کلائیو لائیڈ سے ملنے میں مزہ آیا۔ چھریرے بدن والا کلائیو چالیس برس پیچھے رہ گیا تھا۔ ہاں اس کی عینک برقرار تھی۔ ایک بھاری جسم میں درویشانہ بے نیازی اور کھلا پن۔ جو ان لوگوں میں ملتا ہے جو اپنی زندگی اپنی شرطوں پر جی چکے ہوتے ہیں۔ کلائیو لائیڈ سے ملاقات ہو، پاکستان کا تذکرہ ہو اور خان کی بات نہ ہو، ہو نہیں سکتا۔ آج ہم ایشیا کپ کے فائنل میں بھارتی اور انگلستانی ٹیموں کا میچ دیکھ رہے تھے۔ لندن میں درجہ حرارت 35 عبور کر چکا تھا۔
تاہم، پولو کپ کی ٹشکریوں کی وجہ سے ہم مرد حضرات کھولتا ہوا سوٹ پہنے ہوئے تھے، جب کہ خواتین رنگ برنگے ہیٹوں کے علاوہ مختصر جاموں میں تھیں۔ پولو میچ اور گھڑ دوڑ کے مقابلے برطانیہ میں اشرافیہ کی دولت اور تاب و تب کی نمائش کا ذریعہ ہوتی ہیں۔ جہاں ٹکٹیں بیش قیمت بکتی ہیں، وہاں صرف ایک دن کے پہناوے پر لاکھوں صرف کیے جاتے ہیں۔ حتیٰ کہ ان میچوں کے لیے المشہور ڈیزائنر ہوتے ہیں جو انہی امور میں دسترس رکھتے ہیں اور کروڑوں میں کھیلتے ہیں۔
"کلائیو، دو دفعہ کپ جیتنے اور اپنے عہد کے کامیاب ترین کپتان رہنے کے باوجود، تمہیں سیاست میں جانے کا خیال نہیں آیا؟" میں نے اسے چھیڑا۔
"ہاہاہا"۔ وہ کھل کر ہنسا "میں تمہیں ایسے زندگی انجوائے کرتا اچھا نہیں لگ رہا"۔ اس نے سپین کی بنی ریڈ وائن کا بڑا سا گھونٹ نگلنے ہوئے کہا۔ " ویسے بھی ویسٹ انڈین جزائر بکھری ہوئی چھوٹی چھوٹی آبادیاں ہیں اور ہمارے ہاں سیاست دان بن جانا کوئی مزیدار پیشہ نہیں ہے"۔
"لیکن سیاست دان بن کر لوگوں کی خدمت بھی تو کی جا سکتی ہے"۔ میں نے پکا مونہہ بنا کر، داہنی آنکھ میچتے ہوئے کہا۔
"ہاہاہا، یو آر فنی۔ " کلائیو مسکرایا اور اس نے اپنے بھاری ہاتھ سے میرا کندھا تھپتھپایا۔ "میرے دوست، دنیا میں مختلف طرح کی ڈرگز ہوتی ہیں اور پاور ان میں سے سب سے جان لیوا ڈرگ ہے۔ سیاست پاور کے سوٹے پر چلتی ہے۔ خدمت؟ مائی بم"۔ اس نے اپنے بم کی طرف اشارہ کیا اور وہ واقعی بھاری بھر کم بم تھا۔
"مجھے کسی نے بتایا، عمران خان نے ریزائن کر دیا؟" شاید وہ سیاست اور پاکستان کی یکجائی دیکھ کر اپنے دیرینہ حریف کے بارے میں پوچھے بغیر نہ رہ سکا۔
"ریزائن تو نہیں، بس تھوڑا سا سافٹ کو، جو ہمارے ہاں ہوتا ہی رہتا ہے۔ اب خان سڑکوں پر ہے اور واپس آنے کے لئے مہم چلا رہا ہے"۔ میں نے گزشتہ چھ مہینے کی سمری کرنے کی کوشش کی۔
"خان فائٹر ہے، وہ اسے روک نہیں پائیں گے۔ وہ ہمیشہ سے ایک شاندار فائٹر ہے، وہ واپس آ جائے گا"۔ کلائیو نے ایک مختصر مگر زود اثر تبصرہ کیا جس سے پتہ چلتا تھا وہ ایک زمانے میں اپنے حریف کو اچھی طرح جانتا تھا۔
ہم باتیں کرتے رہے۔ کلائیو طرح طرح کے کاک ٹیل سے لطف اندوز ہوتا رہا۔ پولو کپ چلتا رہا۔ کبھی کبھی ہمارے سامنے اودے بیلے پیرہن پہنے، طرح طرح سے آراستہ لڑکیاں آ جاتیں اور توجہ گھوڑوں سے بھٹک جاتی۔ ساتھ ہی سپینش گٹار بجنا شروع ہوا تو ہمارے ٹیبل پر بیٹھی اطالوی آرٹسٹ لڑکی نے رقص کے لیے اشارہ کیا۔ "بیلا موس"۔ مجھ سے انکار نہ ہوا اور دو چار منٹ ٹھونگیں مارنے کے بعد واپس آ گیا۔ تھری پیس میں انگلستان کی گرمی دھوئیں نکال رہی تھی۔
واپس آیا تو کلائیو لائیڈ دوستوں کے حلقے میں لطیفے اور کثیفے سن رہا تھا۔ میں نے بھی پولو کے حوالے سے ایک کثیفہ شیئر کیا۔ اسی دوران معلوم ہوا کہ کپ تقسیم ہونے لگا ہے۔ زیادہ تر لوگ کھسک لیے، مگر ہم بیٹھے رہے۔
"تم پی نہیں رہے"۔ کلائیو نے مارٹینی کا گلاس اٹھاتے ہوئے پوچھا۔
"میں پیتا نہیں ہوں، مگر کچھ اور طرح کے گناہوں میں یقین رکھتا ہوں"۔ میں نے کہا تو اس کے چہرے پر شگفتہ سی مسکراہٹ در آئی۔
"کلائیو، مجھے ایک خاص چل ہے، تو یہ سوال میں ہر جگہ پوچھتا رہتا ہوں۔ جتنا تم سمجھے ہو اس حساب سے تم بتاؤ، زندگی کا سیکرٹ کیا ہے؟"
"یہ تو کوئی خاص مشکل سوال نہیں ہے۔ " اس نے فلسفیانہ انداز میں آنکھیں بند کیں اور پھر بولا۔ "میک ایوری ڈے کاؤنٹ۔ اپنا بیسٹ دو اور موج میلہ کرو، جو ممکن ہے۔ جب زندگی تمہیں ہٹ کرے تو لیٹ مت جاؤ۔ پرابلم ہمیں، گرو کرنے کے لیے آتے ہیں، ان کا یہی رول ہے۔ تمہیں جو چیز زیادہ تکلیف دے رہی ہے، زندگی تمہیں اسی جگہ زیادہ گرو کرانا چاہ رہی ہے، پھنس جاؤ گے تو درد مسلسل ہے، نکل جاؤ گے تو ایک مائل سٹون ہے۔ بس کچھ ایسی ہی ہے، زندگی"۔
"واہ کلائیو، تم تو سیانے گیانی نکلے؟" میں نے توصیفی انداز میں اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھا۔
"کچھ خاص نہیں، میرے ماہر نفسیات دوست، 77 سال میں زندگی کی تھوڑی بہت سمجھ تو آ ہی جاتی ہے"۔ وہ مسکرایا، یا شاید اس نے طنز کیا تھا، اور پھر وہ ہاتھ ملا کر مارکی سے باہر کی جانب چل دیا۔