Wednesday, 08 January 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Arif Anis Malik
  4. Tum Mumkin Ho

Tum Mumkin Ho

تم ممکن ہو

ہاں تم، کوئی لیڈر، کوئی دیوتا، کوئی افسر نہیں، تم خود۔ تم جو ایک بے نام مرد یا عورت رضا کار ہو۔ تم جو اس سیل رواں کا راستہ روکنے والی چٹان ہو۔ تم جسے دو ہفتے پہلے ٹی وی، اخبار، فون پر لاکھوں ٹن کیوسک پانی اچھلتا کودتا بند توڑتا نظر آیا تو تمہارے دل کی دھڑکنیں تیز ہو گئیں۔ تم جسے کیچڑ میں لت پت لاشیں دکھائی دیں تو گلے میں لقمہ پھنس گیا۔

پھر تم جس حال میں تھے، رندھے ہوئے گلے اور پانی والی آنکھیں لیے گھر سے باہر نکلے اور دیوانہ وار، ان جگہوں کی طرف لپکے جہاں سے لوگ دور بھاگ رہے تھے۔ تمہارے پاس سیلابی جیکٹیں نہیں تھیں، مطلوبہ سازو سامان نہیں تھا۔ بس ایک سیلاب کے مقابلے میں عزم کی ایک چٹان تھی۔ جو تمہارے دل میں راتوں رات بلند ہو گئی اور تم نے پانیوں میں تحلیل ہونے سے انکار کر دیا۔

تم نے کسی کیمرے یا انتظار کیے بغیر، کاغذ کی ناؤ کے سہارے بھنور میں چھلانگ لگا دی۔ کبھی تیر کر خشکی تک پہنچنے، کبھی خاندانوں، بچوں، بوڑھوں، عورتوں کی زندگی بچائی۔ بے کسوں کے سر پر ہاتھ رکھا، انہیں اپنے کپڑے، جوتے پہنا دیے، اپنی نیند اور روٹی آدھی کر لی پھر تم میں سے وہ جو گھروں سے نہ نکل سکے، انہوں نے آواز اٹھائی۔ کبھی نعرے میں، کبھی ترانے میں، کبھی نوحے میں۔

کبھی سوشل میڈیا پوسٹ لگائی، کبھی دل کو گداز کرنے والی پکار اٹھائی۔ کبھی گریبان پکڑا، کبھی جھنجھوڑا، مگر ٹھان لیا کہ جو کرنا ہے، خود کرنا ہے۔ تمہیں معلوم تھا یہ دلوں کے سودے ہیں۔ جو باہر نکلے ان کے پاس کوئی انشورنس، کوئی سیکورٹی نہیں تھی۔ جو آواز لگانے، پوسٹ بنانے، جان کاری کرنے پر مامور تھے، انہیں بھی معلوم تھا کہ کبھی وہ صحرا میں اذان دے رہے ہیں۔

ہاں تم جو الخدمت ہو، اخوت ہو، سیلانی ہو، تم جو امجد ثاقب، اسامہ موعود، مظہر نواز صدیقی، فیاض محمود، سید مہدی بخاری، فریحہ نقوی، صباحت عروج، طیب امین قیصرانی، اسد عزیز، وسیم قریشی، خطیب احمد، افراہیم الطاف، عمران لودھی، مخمور قلندری، ظفر عباس، زیب تن، جعفر لغاری، صوفیہ زاہد، حیدر نقوی، حذیفہ قاسمی اور بے شمار نام ہو۔

تم جو بند باندھنے، ٹوٹنے، انگلیاں اٹھانے اور الزام دھرنے سے قطع نظر، فاضل پور، راجن پور، تونسہ، پنوں عاقل، خیرپور، سانگھڑ، بدین، ٹھٹھہ، سجاول، دادا، جامشورو، حیدر آباد، کوہلو، ڈیرہ بگٹی، بارکھان، موسیٰ خیل، قلعہ عبداللہ، اور نوشہرہ کے سیلابی پانیوں میں امید کے دیے روشن کرتے رہے۔ تم، جن میں سے بہت سوں نے کبھی اپنے والدین سےجیب خرچ بھی نہیں مانگا تھا۔

مگر انہوں نے غیروں کے سامنے، پانی میں ڈوبی اپنی بستیوں کے لیے ہاتھ پھیلائے۔ اور تم میں سے بہتوں نے اپنی جیبوں میں ہاتھ ڈالا اور جو کچھ ملا، نثار کر دیا۔

تم ہمارے گم نام سپاہی ہو۔

ہم تمہارا احسان مانتے ہیں۔

تمہارے ہوتے ہوئے یہ پانی ہمیں توڑ نہیں سکتے۔

ہم ان پانیوں کے نیچے سے مزید تابناک اٹھیں گے۔

تمہارا شکریہ

Check Also

Nuqta, Riwayat Aur Jadeediyat Ka Haseen Imtizaj

By Mujahid Khan Taseer