Oxford Wali Bibi Se Mulaqat
آکسفورڈ والی بی بی سے ملاقات
بے نظیر بھٹو کو تو میں جانتا ہی تھا، مگر بی بی سے ملاقات میری آکسفورڈ یونیورسٹی میں ہوئی۔بی بی اپنے گھر میں بے پناہ استعمال ہوتا ہے ،کہ یہ محبوبہ، معشوقہ اور منکوحہ کے لیے پیار کا مخصوص لفظ ہے۔ تاہم فروری 2013 میں یہ لفظ میں نے اس تصویر کے نیچے آکسفورڈ یونین کی پہلی روسی صدر ماریہ ریومینی کے منہ سے سنا اور حیران ہوا۔ پھر میں نے محویت سے آکسفورڈ یونین کے ہال میں آویزاں اس پورٹریٹ کو دیکھا جو میرے خیال میں بے نظیر بھٹو کی سب سے نایاب اور دل ربا تصاویر میں سے ایک ہے ،جس میں وہ پورے جمال کے ساتھ موجود ہیں ۔
ہم موٹیویشنل سپیکرز، مصنف لوگوں کو ٹرافیاں جمع کرنے کا شوق ہوتا ہے۔ میں پارلیمنٹ میں بولا، ہاؤس آف لارڈز میں، کیمبرج میں، ہارورڈ میں،میں، میں، میں، سو اسی میں کو شوق تھا کہ ایک دن آکسفورڈ یونیورسٹی کے یونین ہال میں بولے، جہاں مارٹن لوتھر کنگ، مالکم ایکس، نیلسن مینڈیلا کی آواز گونجی۔ یہ خواہش تو 2013 میں پوری ہوگئی جب لیڈرشپ کے موضوع پر تین سمندوبین سے خطاب کیا، مگر پوری اس طرح ہوئی ،کہ میں فخر کر رہا تھا کہ میں اس ہال میں بولا ہوں ،جہاں محترم بے نظیر بھٹو نے ایک فاتح کی حیثیت سے خطاب کیا تھا۔
اور اس کھوج کی ذمہ دار سنہرے بالوں والی یونین پریزیڈنٹ ماریہ تھی۔"میں آکسفورڈ یونین کی پہلی روسی صدر ہوں ۔ مجھ سے پوچھو گے، میں نے یہاں کھڑے ہونے کی ہمت کہاں سے لی۔ بی بی سے لی" اس نے بہت پیار سے اس تصویر کی طرف اشارہ کیا اور میں ہکا بکا دیکھتا رہا۔"میں نے پڑھا اور سنا کہ جب بی بی نے آکسفورڈ یونین کی صدارت کے لیے الیکشن لڑا تو تب یہ عہدہ صرف ایلیٹ کلاس کے سفید فام مردوں کے لئے مخصوص تھا۔
تب اس نے اپنے لیے کیمپین کی۔ تب تو وہ تیسری دنیا کی ایک انجانی لڑکی تھی۔ ایک سال نہیں پورے تین سال وہ لڑی اور آکسفورڈ یونین کی پہلی غیر سفید فام خاتون صدر منتخب ہوئی۔ جب مجھے یہ معلوم ہوا تو میں نے تہیہ کرلیا کہ میں یہاں کی پہلی روسی صدر ہوں گی۔ تو تھینک یو بی بی "۔ ماریہ کی آواز قدرے بھیگ سی گئی تھی۔میں نے غور اور غرور سے بی بی کی تصویر کو دیکھا، اور میرا قد شاید فخر سے دو فٹ اونچا ہوگیا تھا۔ یا شاید مجھ پینڈو کو ایک ایلیٹ گھرانے میں پلی وزیراعظم یا بادشاہ کے ساتھ "ہالو کمپلیکس" کا دورہ پڑا تھا۔
بادشاہ جو کچھ بھی کر جائیں، مگر زمین پر خدا کا سایہ رہتے ہیں ۔بڑے انسانوں میں ایک قدر مشترک ہوتی ہے، وہ جتنے بھی کمینے، خودغرض، نااہل ہوجائیں، ان کی طلاقیں ہوجائیں، ذاتی زندگی تباہ و برباد ہوجائے، وہ پھر بھی ہمیں اُبھارتے رہتے ہیں، کہ انسان اپنی محدودات سے اٹھ جائے تو ایسا بھی ہوسکتا ہے۔مجھے اندازہ ہے کہ گزشتہ ستر برس میں جس انقلاب کے چورن کے نام پر پبلک کا کیس چرایا گیا، اس کاروائی میں بھٹو خاندان سر فہرست ہے۔
تاہم بڑے بھٹو پر کسی طرح کی مالی کرپشن کا الزام ان کے حریف بھی نہ لگا سکے۔ پھر نامعلوم کیا ہوا کہ دنیائے اسلام کی پہلی خاتون وزیراعظم اور آکسفورڈ کی پہلی غیر سفید فام خاتون صدر نے اس امر پر کمپرومائز کر لیا۔ اپنے شریک حیات کی ماراماری، اور پھر اپنی پارٹی کی طرف سے ایک آنکھ اور پھر دونوں آنکھیں بند کر لیں ۔ مرحومہ اور ان کے شوہر کے باہمی رشتے کے حوالے سے سینہ بہ سینہ بہت سی داستانیں سننے کو ملتی ہیں، مگر بہت کچھ ریکارڈ پر نہیں آسکا۔ مرحوم واجد شمس الحسن سے اس پہلو پر کافی گفتگو رہی مگر ان کا اصرار تھا کہ وہ آف دا ریکارڈ رہے گی۔
لیڈر شپ کے ایک طالب علم کی حیثیت سے یہ سلگتا ہوا سوال تشنہ ہی رہا ہے کہ اس سرزمین خداداد سے اٹھنے والے اور آکسفورڈ اور برکلے پہنچنے والے سورما، ذہین، خوب صورت اور وجیہہ حکمرانوں کے باوجود ہمارا مقدر تاریک کیوں رہا ہے؟ ہمارا سورج تاریک کیوں ہے؟سنا ہے کہ پاکستان واپس آنے سے پہلے وہ امریکہ کے شہر کولوراڈو میں ایسپن جارہی تھیں۔ طیارے میں امریکی سفیر زلمے خلیل زادہ اور ان کی اہلیہ بھی ان کے ہمراہ تھے۔ طیارے کی میزبان نے بینظیر کو تندور سے براہ راست نکلی تازہ تازہ کوکیز کھلانے کی پیش کش کی۔
بے نظیر نے شائستگی سے یہ کہتے ہوئے انکار کردیا کہ ان دنوں وہ اپنا وزن کم کررہی ہیں۔ لیکن ایک سیکنڈ کے اندر ہی انھوں نے ائیر ہوسٹس کو واپس بلایا اور کہا چلو۔ اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟ مجھے چند مہینوں میں مر ہی جانا ہے۔ "خیر کوئی بات تو تھی اس بی بی میں ،زاتی زندگی کی کمزوریاں اور نفع نقصان ایک طرف، جب مکے اٹھا اٹھا کر بڑھکیں لگانے والا اور کسی سے ڈرنے ورنے نہ والا کمانڈو پاکستان سے منہ پھیر کر نکل گیا تو وہ پوری سج دھج کے ساتھ اسی مقتل کی طرف روانہ ہوگئی تھی۔ شاید وہ اقتدار کی امنگ تھی، شاید کچھ بھٹو پن تھا، یا شاید وہ اپنے ماضی سے اوپر اٹھنے کا سفر تھا!
کون دلاں دیاں جانے ہو!
بحر حال 27 دسمبر کو ہمارا ایک اور رومانس قتل ہوگیا۔بس وہ شان سلامت رہتی ہے