Miss Marvel Pakistan
مس مارول پاکستان
پاکستان سے باہر نکل کر تھنک ٹینکس کے ساتھ یا دیگر بین الاقوامی فورمز پر کسی بھی تال میل میں ہمیشہ ایک ہی احساس ہوا کہ پاکستان دنیا میں پی آر کا سب سے بڑا ڈس آسٹر ہے۔ دنیا میں بہت سے کاموں میں بہترین ہونے اور بہترین کرنے کے باوجود ہم اکثر دنیا کے لئے مذہبی شدت پسند ہیں، خود کش بمبار ہیں، کری کھانے والے ہیں اور عورتوں پر ڈانگ سوٹا کرنے والے ہیں۔ مختلف تحقیقات کے مطابق دس میں سے سات لوگ ہمارے بارے میں یہی سوچتے ہیں۔
چلیں مان لیا ہم یہ سب ہیں، مگر دنیا کے تمام تر ملکوں میں ایسے لوگ موجود ہیں۔ ہم یہ سب کچھ ہونے کے ساتھ رنگ بھی ہیں، آہنگ ہیں، روشنی ہیں، سنگیت ہیں، آرٹ ہیں، یہ کوئی نہیں جانتا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ یہ پاکستان کے مقتدر حلقوں کا مسئلہ ہے ہی نہیں کہ وہ ڈی ایچ اے میں اپنا کنواں کھود کر اس میں بخوشی ڈبکیاں لگاتے رہتے ہیں، تاہم کروڑوں پاکستانی اس مسئلے کا سامنا کرتے ہیں جب وہ ہرے پاسپورٹ کے ساتھ ملک سے قدم باہر نکالتے ہیں۔
سچی بات تو یہ ہے کہ آج کی دنیا میں پاکستان کے سب سے بڑے محسن وہی ہیں جو دنیا کو پاکستان کا یہ چہرہ دکھانے میں کامیاب ہوں گے۔ ابھی حال ہی میں دنیائے فلم میں پاکستان کے حوالے سے بہت انوکھا واقعہ ہوا ہے۔ شاید پاکستان کے حوالے سے سب سے مثبت اور دھماکے دار واقعہ، لیکن سوشل میڈیا پر لوگ ایک دوسرے کے لتے لینے میں اتنے مصروف ہیں کہ انہیں اس پر سوچنے کا موقع ہی نہیں مل سکا۔
ڈزنی کی نئی سیریز مس مارول نے پوری دنیا کو چونکایا ہے تاہم اس سپر ہیرو سیریز کی کامیابی کا یقین ہر کسی کو نہیں تھا۔ ثنا امانت نے یہ کردار تخلیق کر کے ہم سب پر احسان کیا ہے۔ سوچیں ذرا کیسا کمال ہو گا کہ مارول ایونجیرز ویڈیو گیم میں آئرن مین، ہلک اور کیپٹن امریکہ سمیت تمام سپر ہیروز موجود ہوں اور ان کے ساتھ ایک نئی سپر ہیروئن کی انٹری ہو رہی ہے جن کا نام کمالہ خان ہے اور اس کی شناخت پاکستانی ہے اور وہ وہاں کوئی بم نہیں پھوڑ رہی، یا عورتوں کے حقوق پر مہم نہیں چلا رہی بلکہ زندگیاں بچا رہی ہے۔
سنہ 2013 میں جب مارول نے اعلان کیا کہ وہ مس مارول کے کردار کو ایک سنہرے بالوں والی جنگی ہیرو سے بدل کر ایک مسلمان پاکستانی نژاد امریکی لڑکی کمالہ خان کا روپ دینے جا رہے ہیں تو اسے متنازعہ، خطرناک اور خودکش فیصلہ سمجھا گیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ کامک بُک کردار ماضی میں مردانہ اور سفید فام رہے ہیں جبکہ کمالہ خان ان سب کا اُلٹ تھیں۔
اس سے قبل کامک کرداروں کو متنوع بنانے کی کوششوں، مثلاً سپائیڈر مین کی نسل تبدیل کرنا، کو فینز نے کافی تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ سب سے بڑا دھچکہ یہ تھا کہ نئی سپر ہیرو مسلمان اور اوپر سے پاکستانی بھی تھی۔ تاہم جب یہ کامک ریلیز ہوا تو مس مارول بہت جلد ایک مقبول اور آن لائن سب سے زیادہ بکنے والا کامک بن گیا۔ 2018 تک جب مس مارول پر کوئی ٹی وی شو یا فلم بھی نہیں بنی تھی اس کی پانچ لاکھ کاپیاں فروخت ہو چکی تھیں۔
کمالہ خان کی مارول سنیما کی دنیا میں آمد بھی کوئی سوچی سمجھی اشتہاری کوشش نہیں تھی۔ اس کردار کی شہرت نے ہی اس کو ممکن بنایا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ڈزنی نے مس مارول کا کاسٹیوم بھی دوپٹے کے ٹچ کے ساتھ متعارف کرایا ہے۔ خوش قسمتی سے مرکزی کردار یعنی مس مارول کے لیے پاکستانی کینیڈین اداکارہ ایمان ولانی کی شکل میں ڈزنی کے ہاتھ سونا لگا جن میں وہ تمام باتیں موجود ہیں جو اس کردار کو کتاب میں ایک بہترین شکل دیتی ہیں۔
جون میں مس مارول ڈزنی پر ریلیز ہو چکی ہے اور ہر طرف کامیابی کے جھنڈے گاڑ رہی ہے۔ میرے خیال میں دنیا بھر سے اگلے سالوں میں لاکھوں سیاح صرف مس مارول دیکھ کر پاکستان کا رخ کریں گے۔ یہی کام ہمارے پڑوسی بہت کامیابی سے کر چکے ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ شاید یہ پچھلے ستر برس میں واحد مووی سیریز ہے جس کا تعلق پاکستانی فوج، ایٹم بم، سیاست دانوں کی کرپشن کے ساتھ نہیں بس زندگی کے ساتھ ہے۔
کمالہ خان کے کردار کو ادا کرنے والی 19 سالہ لڑکی ایمان ولانی بھی پاکستانی نژاد ہیں جو کہ صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی میں پیدا ہونے کے بعد کینیڈا منتقل ہو گئی تھیں۔ علاوہ ازیں مس مارول، کے چار ہدایت کاروں میں سے ایک ہدایت کار شرمین عبید چنائے بھی پاکستانی ہیں جب کہ ویب سیریز کے دیگر اداکار بھی پاکستان سے لیے گئے ہیں۔ مس مارول ویب سیریز کا حصہ بننے والے دیگر پاکستانی اداکاروں میں ثنا بُچہ خان، مہوش حیات اور فواد خان سمیت ثمینہ احمد شامل ہیں۔
اس سیریز پر تنقید بھی ہو رہی ہے۔ کمالہ خان کے ماں باپ کے ہندوستانی لہجے پر تنقید ہو رہی ہے۔ تاہم کمالہ خان ایک سو فیصد پاکستانی لڑکی بن کر سامنے آئی ہیں، ایسی ہی لڑکیاں جو ہمارے گھروں میں ہیں۔ مارول شو پر 1966 میں پاکستانی پاپ گانا کو کو کورینہ، اور حال ہی میں ریلیز ہونے والا پیچھے ہٹ، اور نازیہ حسن کا گانا بجتا ہوا بھی بہت اچھا لگا۔ میں بطور پاکستانی محسوس کرتا ہوں کہ یہ ایک انڈین سیریز نہیں ہے بلکہ اس پر پاکستان کی چھاپ موجود ہے۔
یاد رہے کہ مارول اتنا بڑا نام ہے کہ مشہور ہندوستانی ایکٹر فرحان اختر اس میں محض ایک سائیڈ رول ادا کرتے ہوئے پائے گئے ہیں۔ ابھی تک چار قسطیں ریلیز ہو چکی ہیں جو زور دار رہی ہیں۔ سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ پاکستانی پس منظر کے حساب سے جنوں اور نور کے تصورات کو بھی فلم میں جگہ دی گئی ہے۔ مجھے سب سے زبردست سین کراچی کے لگے جس میں دوڑتی بھاگتی زندگی کو شاندار طریقے سے فلمایا گیا ہے۔
شاید مس مارول کو پاکستانی کلچر دکھانے کے سو فیصد نمبر نہ دیے جا سکیں مگر ستر نمبر دیے جا سکتے ہیں۔ کیا یہ کم ہے کہ فلم کا موضوع کراچی میں اغوا برائے تاوان نہیں ہے؟ شاندار خبر یہ ہے کہ یہ سیریز پاکستان میں سینما پر ریلیز ہونے والی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ مس مارول سیریز پاکستان میں پر اعتماد لڑکیوں کی ایک نئی نسل کو انسپائر کرے گی۔ میں تو ہر پاکستانی لڑکے، لڑکی میں ویسے بھی ایک سپر ہیرو دیکھتا ہوں۔ اسے باہر آنے دینا اور اس کی نشوونما کرنا ہمارا اپنا انتخاب ہے۔