Wednesday, 08 January 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Arif Anis Malik
  4. Made In Crisis (2)

Made In Crisis (2)

میڈ ان کرائسس (2)

اب میڈ ان کرائسس کا ذکر چل نکلا ہے تو فولاد میں ڈھلے اور آگ پر پکے لوگوں کا تذکرہ ایک سیریز کی شکل میں کر لیا جائے۔ میاں جہانگیر کی صورت میں ابتدا ہو چکی ہے تو اب پاکستان کے بہترین لیڈر شپ کوچ قیصر عباس کی کہانی کہتے، سنتے ہیں۔ ہم دونوں اس موضوع پر ایک کتاب بھی لکھ چکے ہیں اور جلد ایک زبردست اناؤنسمنٹ کرنے والے ہیں۔

مجھے خوشی ہو گی کہ آپ پیارے پڑھنے والے اپنے ارد گرد جیتی جاگتی موجود وہ کہانیاں شیئر کریں، جن میں پاکستان میں رکاوٹوں کی دوڑ میں دوڑنے والوں کی ہمت پر بات ہو۔ یاد رکھیں جیتنا ایک ثانوی چیز ہے، دوڑنا پہلی شرط ہے۔ قیصر عباس کی اور اپنے ساتھ کی کہانی بھی الف لیلیٰ کی اسی داستان کا حصہ ہے۔ کبھی وقت ہوا تو تفصیل سے کہوں گا، فی الحال اختصار سہی۔ ہمارے ساتھ کو 25 برس سے زیادہ ہو گئے۔ اتنے برس تو عشق بھی مشکل سے چلتا ہے۔

پنجاب یونیورسٹی میں نفسیات کے ڈیپارٹمنٹ میں پڑھتے ہوئے ہم متعارف ہوئے۔ تب میں اپنی تلاش اور جستجو کے سفر پر تھا۔ کچھ لائینیں ربّ جان بوجھ کر کراس کرا دیتا ہے۔ یہ لائن سراسر وہی تھی۔ قیصر ایک سال جونیئر اور میں ایک سال سینئر۔ ڈیپارٹمنٹ میں پانچ چھ لڑکوں کے علاوہ نسائی اور حنائی اکثریت تھی۔ ہم پنجاب یونیورسٹی کے ہاسٹل 17، 16 میں رہتے ہم پھر بھی زیادہ قریب نہ تھے۔ میں اس وقت ذرا کمانڈو، شمانڈو فضا میں تھا۔

ایک دن پوری سینئر کلاس واہگہ کے دورے پر تھی اور بس میں بھرپور مستی اور ہنگامے کی فضا قائم تھی کہ معلوم ہوا کہ قیصر کے والد محترم کا انتقال ہو گیا۔ واپسی پر جنازے پر جانا ٹھہرا۔ وہاں روتے، بلکتے، بکھرے ہوئے قیصر سے کو گلے لگایا اور یوں ایک ڈور میں بندھ گئے۔ تب میں نے ایک ہی بات سوچی "اس شدید دکھ میں مبتلا، اس ٹوٹے پھوٹے وجود کے لیے میں کیا کر سکتا ہوں؟" یوں، میرے جاری پانچ، سات عشق سائیڈ پر رہ گئے اور قیصر عباس پراجیکٹ ون بن گیا۔

تب عمر عزیز کے دو عشرے پورے کیے تھے، سو جو کم زیادہ دیکھا تھا، سب اس پراجیکٹ پر الٹا دیا۔ نفسیات، تربیت، موٹیویشن، مقصد۔ سب کی چورن بنائی اور دھما دھم تجربات شروع ہو گئے۔ سینکڑوں گھنٹے کھپ گئے۔ قیصر بھی میری طرح فاروق آباد کا بے نوا تھا۔ ہم دونوں کھانے پینے سے تنگ تھے۔ میں ٹیوشن پڑھا کر گزارا کرتا اور قیصر کو اسی رستے پر لگا دیا۔ مل جل کر ایک بندے کے پیسوں سے ناشتہ کرتے اور دن تمام کرتے۔

قیصر نے کمال کر دیا۔ میں ڈرل سارجنٹ تھا، اس نے اپنے آپ کو تیاگ کر میرے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔ سینکڑوں کتابیں پڑھنے، مغز کھپانے سے لے کر پبلک سپیکنگ تک وہ ہر امتحان میں پورا اترا۔ کئی کئی مہینے میں نے اسے رات صرف دو سے چار گھنٹے سونے دیا۔ تاہم میدان ہار گیا اور قیصر جیت گیا۔ ہی ڈیلیورڈ ٪100۔

نیو کیمپس کی نہر کنارے ہم چلتے اور ایک ایسی زندگی کا خواب دیکھتے جو اس قدر مشکل نہ ہو۔ جس میں ہم ٹونی رابنز، برائن ٹریسی، ٹونی بیوزان کی باتیں کرتے اور حسرت کرتے کہ کیا ہو کہ یہ ہم کر پائیں گے۔ دل میں یہ تمنا تھی کہ اندر دہکتے ہوئے امید کے انگارے پورے جہان پر گرا دیے جائیں۔ تاہم یہ یقین میں نے قیصر تک پہنچا دیا تھا کہ یہ بس چند برس کی بات ہے۔ شعبہ نفسیات میں پڑھتے پڑھتے ہم نے مل کر "ٹک ٹک ڈالر" آور "شاباش تم کر سکتے ہو" لکھ ڈالیں۔ اس وقت اردو میں پرسنل ڈیویلپمنٹ پر اپنی نوعیت کی یہ اولین کتابوں میں سے تھیں۔

نیو کیمپس سے باہر آئے تو معلوم ہوا زندگی کتابوں سے مختلف ہے۔ لیکن کہتے ہیں ناں کہ جاگتی آنکھوں سے دیکھے جانے والے خوابوں میں ایک برائی ہے کہ وہ پورے ہو جاتے ہیں۔ ہم نے جنگل، بیلے، بیابان چھانے، مگر چلتے گئے۔ کبھی اکٹھے چلے، کبھی الگ، مگر روحانی طور پر ساتھ ساتھ ہی رہے۔ سی ایس ایس کیا تو قیصر میرے ساتھ ہی سول سروسز اکیڈمی میں منتقل ہو گیا۔ اکثریت اسے فیلو پروبیشنر سمجھتی رہی۔ ہم نے 29 کامن کو مل کر پڑھایا بھی، جو اپنی جگہ ایک دلچسپ کہانی ہے۔

آج قیصر عباس پاکستان میں پرسنل ڈیویلپمنٹ اور کارپوریٹ تربیت کاری میں سب سے بڑا نام ہے۔ 100 سے زائد ملٹی نیشنل کمپنیاں اس کے پیچھے ہیں۔ دنیا کے سب سے منا پرمنا کوچ مارشل گولڈ سمتھ اس کی تعریف میں رطب اللسان ہے۔ وہ لاکھوں لوگوں کی زندگیاں بدل چکا ہے۔ اس نے اور میں نے مل کر کوئی پندرہ کے قریب کتابیں لکھ ماری ہیں جو لاکھوں افراد تک پہنچی ہیں۔

رب کریم نے جاگتی آنکھوں سے دیکھے جانے والے خواب کچھ یوں سچ کیے کہ تین سال قبل جب قیصر میرے مہمان کے طور پر لندن میں پہنچا تو اس کے استقبال کے لئے لندن کے مرکز میں ہلٹن ہوٹل میں پرسنل ڈیویلپمنٹ کا سب سے بڑا نام برائن ٹریسی ہزاروں افراد سمیت موجود تھا۔ اگلے آنے والے بیس برسوں میں کوئی دس ہزار سے زیادہ کوچز کو سکھایا، مگر پراجیکٹ ون والا جنون بس چھ، سات میں ہی پایا۔ باقی کبھی تھک جاتے تھے، کبھی اونگھ جاتے تھے، کبھی اوب جاتے تھے۔ شاید پراجیکٹ ون نے ایکسیلنس کا معیار ہی بہت اونچا سیٹ کر دیا تھا۔

قیصر سے ملاقات ہو تو وہ آج بھی مجھے "کوچ" کہتا ہے۔ یہ اس کی مہربانی ہے۔ آج کل وہ پاکستان کی سب سے بڑی کمپنیوں کے سربراہان کی کوچنگ کر رہا ہے۔ ہماری ملاقاتیں اب دنیا کے مختلف خطوں، براعظموں اور ممالک میں ہوتی ہیں، جہاں میں، یا وہ کانفرنس سے خطاب کرنے، کی نوٹ گفتگو کرنے جا رہے ہوتے ہیں۔ ہم بے نواؤں کا ہاتھ ربّ کریم نے پکڑا اور وہ کیا خوب ہاتھ پکڑنے والا ہے۔

Check Also

Main Te Mera Dilbar Jani

By Saleem Zaman