Made In Crisis (1)
میڈ ان کرائسس (1)
شہر دو طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جن میں آپ عدم سے وجود میں آتے ہیں۔ زمین پر پہلا قدم دھرتے ہیں۔ پہلی سانسیں لیتے ہیں۔ پہلا لمس محسوس کرتے ہیں۔ پہلی آوازیں سنتے ہیں۔ اپنے ہونے کو محسوس کرتے ہیں۔ دوسرا شہر وہ ہوتا ہے جس میں آپ پہلی بار مار کھاتے ہیں، کٹ چڑھاتے ہیں، پہلا پہلا کچا کچا سا عشق کرتے ہیں، پہلی دوستیاں پالتے ہیں۔ پہلی بار سائیکل، موٹر سائیکل پر چڑھتے، پھسلتے اور گرتے ہیں۔ پہلی بار لیر و لیر ہوتے ہیں، پھر اکٹھے ہوتے ہیں۔ بنتے، بگڑتے، پارہ پارہ ہوتے اور پھر جمع ہوتے ہیں۔
پہلے شہر میں آپ پیدا ہوتے ہیں، دوسرے میں آپ بنتے ہیں۔
آئی واز بارن ان سون ویلی۔ آئی واز میڈ ان ملتان۔
ملتان کے سفر میں بہت سے شاندار لوگ ملے، اکثر اس قابل ہیں کہ ان پر کہانی کہی جائے اور ضرور کہی جائے گی۔ تاہم آج کی کہانی یار دلدار میاں جہانگیر کے بارے میں ہے کہ ابھی حال ہی میں اپنی یاری کی سلور جوبلی پوری ہوئی ہے۔ یعنی پورے پچیس برس جو چوتھائی ایک صدی کے ہوتے ہیں۔ وی ور ٹرولی میڈ ان کرائسس۔
میاں جہانگیر کے ساتھ وہ سپنے دیکھے اور سچ کیے جو ارمانوں میں شامل ہوتے ہیں۔ پچیس برس قبل ہماری آنکھیں سپنوں سے بھری مگر جیبیں خالی تھیں۔ ملتان میں ہم نے مامے کی امریکی امداد کے ساتھ برٹش یونیورسٹی کالج کا آغاز کیا، جس نے آنے والے عشروں میں تین لاکھ سے زیادہ پروفیشنلز کی تربیت کی۔ جن میں سے، کوئی پچاس ہزار سے زائد اعلیٰ تربیت یافتہ لوگ پاکستان سے باہر درجنوں ممالک میں پہنچے اور کامران ٹھہرے۔
جب اس سفر کا آغاز تھا تو میاں جہانگیر کے جنت مکانی والد بھری جوانی میں رخصت ہو گئے۔ مجھے اب بھی وہ کال یاد ہے جو لاہور کی جانب دوران سفر موصول ہوئی تھی اور وہاں سے ہم لودھراں کے لیے روانہ ہو گئے تھے۔ تب ہماری کل کائنات ایک لال رنگ کی خیبر سوزوکی تھی جو شاید ہم نے کراچی سے خیبر تک کوئی دو لاکھ کلومیٹرز تک بھگائی تھی۔ یہ وہ دن تھے، جب زمین سخت اور آسمان دور تھا، تاہم، ہم قدم ملائے ساتھ کھڑے رہے۔
برٹش یونیورسٹی کالج میں پڑھانا، سٹوڈنٹس کو قائل کرنا، تنکے جوڑ کر تنخواہیں جمع کرنا اور پھر ہمیشہ دو چار لاکھ کم پڑ جانا یہ سب ہم نے ساتھ ساتھ کیا۔ ایسا وقت بھی آیا جب زیور گروی رکھنے کی نوبت بھی آئی اور ہم نے پلک نہیں جھپکی۔ پھر ربّ نے بھاگ لگائے۔ جنونی پنجاب میں سینکڑوں میل دور سے طالب علم جمع ہونے لگے۔ برٹش یونیورسٹی کالج کو مولا نے رنگ لگا دیے اور وہ ایک یونیورسٹی کا روپ دھارنے لگا۔
جس کا بڑا کریڈٹ میاں جہانگیر کو جاتا ہے کہ میں حسب دستور اصولوں اور آئیڈیل ازم کی مے پیتا تھا جب کہ میاں جہانگیر کو ایجوکیشن انڈسٹری کو انڈسٹری کے طور پر ڈیل کرنے کا فن آتا تھا۔ ہم نے ملتان میں چائے خانہ بھی کھولا، پنجاب کا فشریز کا بہت بڑا ماڈل پراجیکٹ بھی کیا جس کے بارے میں عمران خان نے اپنے پہلے سو دن کی کارکردگی میں ذکر کیا۔ ریئل اسٹیٹ کے کئی پراجیکٹ بھی شامل ہیں۔
بیس سال میں جو بیج ہم دونوں نے بویا، وہ ایک تناور درخت بن گیا۔ یونیورسٹی میں سٹوڈنٹس کی تعداد بیس ہزار سے زائد ہو گئی۔ پراجیکٹس کی ورتھ میں آٹھ، دس صفروں کا اضافہ ہو گیا۔ میں انگلستان کو پیارا ہوا تو میاں جہانگیر نے فل ایکسیلیریٹر دبا دیا۔ پچھلے تین برس میں ہم ملتان، بہاولپور اور رحیم یار خان میں تین چارٹر یونیورسٹیوں کے پراجیکٹس پر کام کر رہے ہیں۔ یہ رکاوٹوں کی دوڑ ہے، تاہم الحمد للہ، ہم اس کے حتمی مراحل میں پہنچ چکے ہیں۔ بیس، پچیس سال پہلے جو خواب کچی آنکھوں سے دیکھے تھے، اب ان کی تجسیم ہونے لگی ہے۔ جس کا بڑا کریڈٹ میاں جہانگیر کو جاتا ہے۔
ان پچیس برسوں میں ہم ریل کی متوازی پٹڑیوں کی طرح ساتھ ساتھ چلتے رہے۔ اکثر معاملات میں ہمارا زاویہ نظر مختلف ہے۔ ہم ایک جیسا نہیں سوچتے۔ تاہم ہم ایک دوسرے کے ساتھ جم کر کھڑے ہیں، یہی ہماری طاقت ہے۔ اس چوتھائی صدی کی دوستی اور تعلق واسطے میں شاید ہمارے درمیان کوئی تلخی ہوئی ہو۔ ہم پورے وثوق سے ایک دوسرے کے ساتھ موجود رہے اور یوں بہت سا ناممکن، ممکن ہو گیا۔
بے شک ہر مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔ مگر اس کے لیے کالے کوسوں چلنا شرط ہے۔ تاہم رکاوٹوں کی اس دوڑ میں جب کوئی ہم سفر مل جائے تو کٹھن لمحات، کٹ جاتے ہیں۔ اب ہم پھر اکٹھے ہیں اور انشاءاللہ کچھ پھلجھڑیاں اور فائر ورکس نظر آئیں گے۔ بیس برس قبل بھوک تھی، جنون تھا اور خواب تھے۔ اب ہم چالیس کے پیٹے میں ہیں۔ کچھ کر دکھانے کی تمنا اب بھی ہے، جنون بھی باقی ہے اور مولا کے کرم سے، وسائل بھی دستیاب ہیں تو کچھ اچھا سا ہو جائے گا! انشاءاللہ۔
یاری کی سلور جوبلی ہم دونوں کو مبارک ہو۔
لیٹ اس میک اے ڈینٹ۔