Aik Talash Ki Kahani
ایک تلاش کی کہانی
یوں تو بظاہر یہ دو نامور انسانوں کی گفتگو ہے مگر باطن میں یہ ایک تلاش کی کہانی ہے کہ کس طرح انسان اپنے ربّ کو کھوجتا ہے اور کس طرح ربّ اسے قصوں، کہانیوں، سے لے کر کسی لہر میں، کسی بحر میں مل جاتا ہے اگر اس میں اضطراب باقی ہو۔
یہ انٹرویو آپ کے اندر نیا در کھول سکتا ہے۔ دس منٹ ضرور سنیں اور دیکھیں۔ میری کمنٹری سے آپ کو پس منظر سمجھنے میں آسانی ہوجائے گی۔
بولنے والا ایک 72 سالہ یوسف اسلام ہے۔ کیٹ سٹیونز کے نام سے معروف ہوا۔ 20 سال کی عمر میں فوک، پاپ اور راک میوزک کے میدانوں میں کروڑوں دلوں کی دھڑکن بن گیا۔ 30 سال کی عمر میں اس نے خدا کو اور خدا نے اسے ڈھونڈ لیا اور وہ یوسف اسلام ہوگیا۔ کیٹ سٹیونز کا قبول اسلام، اپنے وقت کے حساب سے مائیکل جیکسن کے قبول اسلام جیسی بڑی خبر تھی۔ ایک سال بعد اس نے اپنا گٹار ایک خیراتی ادارے کے لیے دان کردیا۔
جب امام خمینی نے سلمان رشدی کے قتل کا فتویٰ دیا تو اس نے ببانگ دہل اس فتوے کی حمایت کی اور مغرب میں زلزلہ برپا ہوگیا۔ آج کی دنیا کے مغربی سپر سٹار اسے جانتے اور مانتے ہیں۔ پچھلے 40 سال سے اس نے اپنی زندگی مسلمانوں میں تعلیم پھیلانے کے لئے وقف کر رکھی ہے۔ پچھلے کچھ سالوں سے اس نے خیراتی اداروں کے لیے فنڈ جمع کرنے کے لیے دوبارہ کچھ کنسرٹس کیے۔
آج کل وہ موسیقی کو خلاف اسلام نہیں سمجھتا۔ میری دو دفعہ ملاقات ہوئی۔ میں نے تو اسے ایک چلتا پھرتا صوفی پایا جس کے اندر سے روشنی اور قبولیت کی لہریں نکل رہی ہوں۔ اگر آپ نے آج تک یوسف اسلام کا مشہور ترین گانا "فادر اینڈ سن" نہیں سنا تو ضرور سنیے۔ میں نے اس گانے پر کٹھور مغرب میں لوگوں کو دھاڑیں مار مار کر روتے دیکھا ہے۔ https://youtu.be/P6zaCV4niKk
دوسرا بولنے والا برطانوی رسل برانڈ ہے، جسے کون نہیں جانتا؟ کامیڈین کے طور پر معروف ہوا، ہالی ووڈ پہنچا اور وہاں اپنا سکہ گاڑا۔ مغرب میں جنسی بلا اور پلے بوائے کے طور پر جانا گیا۔ ڈرگز اور ممنوع نشہ آور ادویات کے استعمال میں کافی ملوث رہا۔ معروف ترین گلوکارہ کیٹی پیری کے ساتھ شادی بس دو سال ہی چلی۔ پچھلے سات سال سے فلاسفر کے طور پر بھی مشہور ہوا۔
ری والیوشن نام کی کمال کی کتاب لکھی۔ رسل سے کئی ملاقاتیں رہیں۔ میں اسے ایک پاپ جینیئس سمجھتا ہوں۔ برطانیہ کے وزیر اعظم سے لے کر دنیا کے طاقتور ترین لوگ اس کے جملوں کی کاٹ سے پناہ مانگتے ہیں۔ کچھ سال پہلے جمائما خان اور اس کی جوڑی کافی مقبول ہوئی، مگر رومانس آگے بڑھنے سے پہلے ہی مرجھا گیا۔ رسل جتنا مشکل آدمی ہے، اس کو جانتے ہوئے یہی امید کی جاسکتی تھی۔
جب رسل برانڈ جیسا اوکھا آدمی یوسف اسلام جیسے صوفی کا انٹرویو لے تو کچھ بھی غیر معمولی ہوسکتا ہے، اور ہوا۔ جیسے آپ دیکھ سکتے ہیں، خلاف معمول رسل یوسف کے ساتھ بہت عزت سے پیش آرہا ہے۔ میں نے شاید پہلی مرتبہ اسے اس طرح بات کرتے دیکھا۔ یوسف بجا طور پر اس عزت کا مستحق بھی ہے۔ یوسف اسلام کئی مرتبہ اپنے قبول اسلام پر بات کر چکا ہے، مگر اس انٹرویو میں اس نے دل کے تار چھو لیے۔ واقعی یہ الوہی واردات لگی۔
"میں تو ایک آزاد پنچھی تھا۔ چرچ میں بھی میری دلچسپی برائے نام تھی۔ تو چونکہ پہلے سے کوئی خاص تصور خدا موجود نہیں تھا تو اسلام نے مجھے یہ تصور دیا۔ میری سب سے بڑی دریافت یہ تھی کہ اسلام کی صورت میں ایسا مذہب ملا جو کہ مکمل طور پر خدا کے گرد گھوم رہا تھا۔ مجھے کوئی راہب یا ملا بنے بغیر براہ راست خدا تک رسائی ہوگئی"۔ یوسف نے بتایا۔
" لیکن قرآن نے ایک عجیب طریقے سے میری زندگی کی گتھی سلجھا دی۔ جب میں سورہ یوسف پڑھ رہا تھا، تو عجیب واردات ہوگئی۔ پیغمبر یوسفؑ بہت سے مراحل اور آزمائشوں سے گزرے اور ایسا وقت بھی آیا جب لوگوں کو ان کے پیغمبر ہونے کے بارے میں بھی معلوم نہیں تھا کیونکہ انہیں بطور غلام بیچ دیا گیا تھا اور وہ وہاں سے بادشاہت تک پہنچے۔ میرا دل اس داستان نے پکڑ لیا۔
ایک وقت ایسا بھی آیا کہ جن بھائیوں نے حضرت یوسفؑ کو آزمائش میں ڈالا تھا وہ سوالی بن کر ان کے(شاہ مصر) کے سامنے حاضر ہوگئے۔ اور انہوں نے یوسف کے سامنے بیٹھ کر ان کی برائی کی، یہ جانے بغیر کہ یہ وہی یوسف ہے تو حضرت یوسفؑ اندر سے ٹوٹ گئے، کرچی کرچی ہوگئے۔ مگر انہوں نے اپنا حال اپنے بھائیوں پر نہ کھولا اور یہ سورہ پڑھتے پڑھتے مجھ پر اپنا آپ منکشف ہوگیا۔
میں وہ گلوکار، موسیقار نہیں تھا جو لوگ مجھے جانتے تھے یا جیسے میں اپنا تعارف کراتا تھا۔ اور یہی ٹرننگ پوائنٹ تھا مسلمان ہونے کے حوالے سے اور تبھی میں نے اپنا نام یوسف پسند کیا، کیونکہ میں بھی اسی ٹوٹ پھوٹ سے گزرا تھا اور مجھ پر بھی ربّ کی بے شمار نعمتیں نازل ہوئی تھیں"۔ یوسف کے ان جملوں نے مجھے پکڑ لیا۔ ہم سب شاید وہ لمحات یاد کر سکتے ہیں جب اسی طرح کی ٹوٹ پھوٹ نے ہم پر زندگی کے مفہوم کھولے تھے۔
یوسف نے یہ بھی بتایا کہ قرآن نے کس طرح اسے لبھایا" قرآن بار بار کہتا ہے کہ سوچو، غور وفکر کرو، آنکھیں کھولو، سورج، چاند، سیاروں کی طرف اشارہ کرکے اور دن رات کے آنے جانے کے بارے میں کہتا ہے کہ یہ سب ربّ کی تخلیق ہیں۔ یہ سب علامتیں ہیں کہ ان کا خالق کون ہے؟ اور وہ ان علامتوں کے ذریعے ہم سے ہمکلام ہے"۔
انٹرویو کی سب سے شاندار بات یہ جاننا تھا کہ کیٹ سٹیون، یوسف اسلام کیسے بن گیا اور جب آپ یوسف کو یہ قصہ سناتے دیکھتے ہیں تو جیسے کلیجے کو کوئی ہاتھوں سے مسلتا ہے۔
"وہ ایک لہر تھی، جس نے مجھے دبوچ لیا۔ میں میلیبو میں سمندر میں نہا رہا تھا، اور میرے آس پاس کوئی نہیں تھا۔ میں نے ناسمجھی میں اس میں چھلانگ لگا دی اور لہر کے حوالے ہوگیا۔ جب واپس لوٹنا چاہا تو معلوم ہوا کہ اب شاید واپس نہ جاسکوں۔ اور مجھے چند ثانیوں میں فیصلہ کرنا تھا کہ اب کیا ہوگا؟ اور میں نے چیخ کر کہا "خداوندا، آج اگر مجھے بچا لے تو میں زندگی تیرے راستے میں وقف کردوں گا"۔ اور پھر ایک چھوٹی سی لہر آئی جس نے مجھے واپس پہنچا دیا۔
بہت سے لوگ کہیں گے یہ تو محض اتفاق تھا۔ میرے لیے یہ زندگی کا سب سے ضروری اتفاق تھا اور خدا ہم سے اسی طرح کے اتفاقات کے ذریعے ہی ہم کلام ہوتا ہے۔ یہ میرے نام خدا کا ٹیلی گرام تھا۔ کچھ عرصہ بعد میں نے قرآن پڑھا تو یہ آیت بھی پڑھ لی کہ جب وہ سمندر میں ان پر طوفان ٹوٹتا ہے تو ان کے دل خدا کی جانب پلٹ جاتے ہیں۔ اور میں نے کہا، یہی، یہی، یہی نشانی ہے جو میرے لیے اتری ہے۔ اور یہ سب اشارے درجہ بہ درجہ مجھے اسلام میں لا رہے تھے، رسل بولو تو، بھلا میں اور کیا کرتا؟"
ہمارا ربّ ہم سب سے روز ہم کلام ہوتا ہے۔ چاند، سورج، ستاروں میں بھی، سامنے آکر اور اشاروں میں بھی۔ جب ہم کرچی ہوجائیں تو ہمیں جوڑ بھی دیتا ہے۔ کبھی اسے غوطہ دینا پڑے تو غوطہ بھی دے دیتا ہے اور پھر سانس بھی بحال کردیتا ہے، یہ سب اس کے اشارے ہیں، اگر ہم سوچتے رہیں، سمجھتے رہیں، ڈھونڈتے رہیں تو وہ کسی بھی دن ہمیں "اتفاق" سے مل جاتا ہے۔