1.  Home/
  2. Blog/
  3. Aown Muhammad Shah/
  4. Sache Jazbe Sachi Muhabbat

Sache Jazbe Sachi Muhabbat

سچے جذبے سچی محبت

ممّا وہ پینڈو سا ہے میں نے اس سے شادی نہیں کرنی۔ افشاں اپنی ماں سے کہہ رہی تھی۔ ماں نے پیار سے کہا بیٹی وہ تمہارا کزن ہے اچھا لڑکا ہے کیوں شادی نہیں کرنی اس سے؟ افشاں نے کہا مما وہ پینڈو سا ہے نہ اسے کپڑے پہنے کی تمیز نہ اسے بات کرنے کا سلیقہ ہے میں اس سے شادی نہیں کروں گی۔ ماں نے کہا افشاں شادی تو کرنی پڑے گی تم راضی ہو یا نہ ہو۔ افشاں نے اپنے کزن صارم کو کال کی کہا صارم میں تم سے شادی نہیں کرنا چاہتی بہتر ہے تم بھی شادی سے انکار کر دو۔

صارم نے کہا میں ماں باپ کی مرضی کے خلاف نہی جا سکتا۔ افشاں نے کہا میں تمہارے ساتھ زندگی بھر نہیں رہ سکتی۔ صارم نے کہا تم خود انکار کر دو میں تو کچھ نہیں کہنے والا۔ افشاں نے جب دیکھا اس کی شادی صارم سے کر کے ہی رہیں گے تو اس نے خودکشی کرنے کے لیئے گھر میں پڑی میڈیسن کی کافی ساری گولیاں کھا لیں، ہسپتال لے گئے ڈاکٹرز نے معدہ واش کیا جان بچ گئی۔

افشاں نے اپنی ماں کے سامنے ہاتھ جوڑے مما مجھ پہ رحم کرو میں اس جاہل پینڈو کے ساتھ نہیں رہ سکتی وہ بھی گاؤں میں۔ ماں نے کہا بیٹی سوچ لو ہم سب جانتے ہیں صارم بہت اچھا لڑکا ہے کیا ہوا جو تم سے کم پڑھا لکھا ہے لیکن سلجھا ہوا ہے نیک ہے، وہ گاؤں میں رہتا ہے تو کیا ہوا؟ افشاں کے نہ چاہتے ہوئے بھی افشاں کی شادی صارم سے کر دی گئی۔

افشاں نے بس سمجھ لیا زندگی برباد ہو گئی سارے خواب ختم ہو گئے، کیا کیا سوچا تھا میں نے رومانٹک لائف کا ماڈرن سٹائل ہمسفر کا سب خوشیاں جلا دی گئ ہیں۔ سب کچھ ایک جاہل انسان کے حوالے ہو گیا ایک تو پینڈو اوپر سے دیندار۔ پہلی رات تھی افشاں نے صارم کو کہا صارم تم مجھ سے شادی کرنا چاہتے تھے سو ہو گئی لیکن خبردار مجھ سے دور رہو اور مجھے ہاتھ مت لگانا۔ صارم مسکراتے ہوئے کہنے لگا ٹھیک ہے آپ اتنا غصہ کیوں کر رہی ہیں؟

افشاں نے کہا تم نے میری زندگی تباہ کر دی ہے صارم۔ صارم نے ایک ڈبیہ کھولی اس میں چمکتی ہوئی انگھوٹی تھی اس نے وہ ڈبیہ افشاں کے سامنے رکھی اور کہنے لگا افشاں یہ گفٹ آپ کے لیئے۔ افشاں نے انگھوٹی اٹھا کر سائڈ پہ رکھ دی اور کروٹ بدل کر لیٹ گئی رونے لگی۔ صارم نوافل ادا کرنے لگا پھر افشاں کے قریب لیٹ گیا۔ یوں دردناک زندگی کا سفر شروع ہوا افشاں کا دم گھٹنے لگا صارم کے ساتھ۔

صارم دیکھنے میں خوبصورت تھا بس زیادہ پڑھا لکھا نہیں تھا ڈیسینٹ بھی نہیں تھا۔ افشاں ماڈرن سی لڑکی تھی صبح اٹھ کر صارم خود ناشتہ بناتا۔ افشاں کو غصہ آتا یہ پینڈو مجھے امپریس کرنے کے چکروں میں ہے لیکن میں اس کے چُنگل میں نہیں آنے والی۔ افشاں جب صارم کے ہاتھ کا بنا کھانا کھاتی بہت حیران ہوتی اتنا مزے کا کھانا۔ صارم رات کو تھکا ہارا آتا، افشاں بس خاموش سی اپنی دنیا میں گم سی رہتی اس کو کوئی پرواہ نہیں تھی صارم کی۔

صارم بھی افشاں کو کچھ نہ کہتا تھا۔ گھر آ کر کھانا بناتا افشاں کو کھانا دیتا دل و جان سے اسکی خدمت کرتا کہ کبھی تو افشاں کا دل پگھلےگا لیکن افشاں پتھر دل تھی شاید نہ گھر کی صفائی کرتی نہ وہ کبھی صارم کے کپڑے دھوتی، صارم اپنے سارے کام خود کرتا۔ سال گزر گیا صارم افشاں کی ہر بے رخی برداشت کر جاتا لیکن اندر ہی اندر سے ٹوٹتا رہا۔

رات کبھی سسکیوں کی آواز آتی تو افشاں دل ہی دل میں خوش ہوتی کہ میں نے روکا تھا تو رک جاتا کبھی سوچتی کہ دیکھو فریبی کیسے مجھے امپریس کرنےکیلیے مکر کرتا ہے۔ کبھی کبھی تو درد سےکراہنے کی آواز آتی لیکن وہ سب فریب سمجھ کر اگنور کر جاتی۔ افشاں کو یوں لگتا تھا ایک بدو سا انسان پلے پڑ گیا ہے اس سے کیسے جان چھڑوائی جائے؟ کیسےکیسے منصوبے بناتے رات گزر جاتی۔

صارم چونکہ ایک مرد تھا وہ عورت پہ ہاتھ اٹھانا مرد کی شان کے خلاف سمجھتا تھا اور پھر اس پہ ہاتھ اٹھانا جو ہمسفر ہو۔ صارم نے ایک دن کہا افشاں تم اپنا خیال کیوں نہیں رکھتی ہو؟ پاگل، دیکھو رنگ کتنا دھیما پڑ گیا تمہارا، تمہارے بال دیکھو کتنے روکھے سے ہو گئے۔ صارم آئل کی بوتل پکڑے افشاں کے پاس بیٹھ گیا ایک سال کے بعد صارم نے یوں افشاں کو خود چھوا تھا۔

افشاں کے بالوں میں آئل لگانے لگا، افشاں نے کہا چھوڑ دو مجھے۔ صارم نے کہا نہیں چھوڑوں گا افشاں نے دھکا دیا آئل صارم کے اوپر گر گیا۔ افشاں جانے لگی اٹھ کر صارم نے بازو پکڑا پاس بٹھا لیا مسکراتے ہوئے کہنے لگا افشاں میں یوں ایسے آپ کو افسردہ نہیں دیکھ سکتا۔ افشاں نے کہا میرا بازو چھوڑو صارم مجھے درد ہو رہا ہے۔ صارم نے پاس بٹھایا آئل لگانا شروع کیا۔ افشاں کے سر میں آئل لگایا پھر چہرے پہ سکرب کرنے لگا۔

افشاں خاموش بیٹھی رہی کہ کبھی تو جان چھوڑے گا۔ صارم نے مسکراتے ہوئے کہا جاؤ اب شاور لو اور پنک ڈریس پہنو میں تمہاری فیورٹ بریانی تیار کرتا ہوں۔ افشاں حیران تھی اتنی بے رخی پہ بھی اتنا پیار۔ دل میں کچھ نرمی آنے لگی لیکن پھر ذہن کو جھٹک دیا۔ افشاں شاور لے کر آئی۔ افشاں نے اپنی دوست کو کال کی کہ صارم نے ایسے کیا میرے ساتھ۔ اس کی دوست نے کہا صارم اچھا انسان ہے تم بہت ظالم ہو اس کی قدر کر لو ورنہ پچھتاؤ گی۔

افشاں نے کہا وہ مجھے امپریس کر رہا ہے۔ اس کی دوست نے کہا افشاں قمست والوں کو ایسے مرد اور مخلص ہمسفر چاہنے والے ملتے ہیں۔ اتنے میں صارم نے آواز لگائی جہاں پناہ کھانا تیار ہے تشریف لے آئیے وہ مکاری سے ہلکا سا مسکرائی۔ آج بریانی سے مزے کی خوشبو آ رہی تھی۔ افشاں نے کھانا شروع کیا اتنے مزے کی بریانی اس کا دل چاہا تعریف کرے صارم کی لیکن اناء کی خاطر خاموش رہی۔ کھانا کھایا کمرے میں سونے چلی گئی۔

صارم نے برتن اٹھائے واش کرنے لگا، برتن واش کیئے، سارے دن کا تھکا ہارا بیڈ پہ گرا اور سو گیا۔ صبح اٹھا افشاں کو اٹھایا کہا افشاں میری جان ناشتہ بنا دیا ہے کر لینا میں جا رہا ہوں اور ہاں آج تمہارے لیے گفٹ لے کر آوں گا۔ شام کو صارم گھر آیا ہاتھ میں ایک گلاب کا پھول تھا افشاں کرسی پہ بیٹھی ہوئی تھی گارڈن میں۔ سوہانی سی ہوا چل رہی تھی ہلکی ہلکی روشنی تھی۔

صارم گھٹنے کے بل بیٹھ گیا، گلاب کا پھول افشاں کو دیا، مسکراتے ہوئے کہنے لگا ہیپی برتھ ڈے افشاں۔ افشاں نے کہا تم کو کیسے یاد میرا آج برتھ ڈے ہے؟ صارم نے کہا ہمسفر ہوں آپ کا افشاں۔ پیپرز نکالے ایک لفافے سے۔ افشاں کا ہاتھ پکڑ کر کہنے لگا جانو جانتی ہو یہ پیپرز کس چیز کے ہیں؟ افشاں کا دل دھڑکنے لگا کیا ہے یہ صارم؟ صارم نے کہا یہ ہم دونوں کی خوشی ہے افشاں۔ افشاں نے کہا بتاؤ صارم یہ کیا ہے؟

صارم نے پیار بھرے لہجے میں کہا یہ ہمارے نئے گھر کے پیپرز ہیں۔ میں نے نیا گھر خریدا ہے اور تمہارے نام کیا ہے۔ افشاں کو یقیں نہیں ہو رہا تھا، اس نے دیکھا نیا گھر وہ بھی میرے نام! افشاں کرسی پہ بیٹھ گئی آنکھوں میں آنسو آ گئے، سسکتے ہوئے بولی صارم اتنی محبت؟ صارم کی آنکھ سے پہلی بار آنسو چھلکا تھا صارم نے کانپتی ہوئی آواز میں کہا افشاں ایک چیز مانگوں؟

افشاں نے ہاں میں سر ہلا دیا افشاں ہمیشہ خوش رہنا۔ جانتی ہو تم پری سی ہو معصوم سی، بہت پیاری ہو تم میں بہت خوش نصیب ہوں تم جیسی ہمسفر ملی مجھے۔ افشاں ہماری شادی کو دو سال گزر گئے لیکن ہم نے کبھی ایک دوسرے کو گلے نہیں لگایا، مجھے آج سینے سے لگا لو نا پلیز۔ افشاں نے نہ چاہتے ہوئے آج صارم کو سینے سے لگا لیا۔ صارم سینے سے لگا بلکتے ہوئے کہنے لگا یہ بانہیں کیا پتہ پھر نصیب ہوں یا نہ ہوں؟

اتنا کہہ کر صارم روتے ہوئے کمرے میں چلا گیا۔ افشاں کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کیا کرے صارم کو کیا سمجھتی رہی؟ صارم کتنا اچھا انسان ہے۔ ہائے کتنا برا سلوک کیا میں نے صارم کے ساتھ پر وہ کتنا ٹوٹ کر چاہتا ہے مجھے۔ افشاں کا دل چاہ رہا تھا صارم کی بانہوں میں سما جاؤں سابقہ بے رخی کی معافی مانگ لوں لیکن سوچا صبح سرپرائز دوں گی۔

کتنی پاگل تھی میں صارم کی بے پناہ محبت دو سال سے اگنور کرتی رہی صارم پھر بھی مجھے چاہتا رہا۔ رات بھر افشاں کبھی روتی کبھی خواب دیکھتی رہی صبح جان کے لیئے ناشتہ خود بناؤں گی۔ صارم کو اب دنیا کی ہر خوشی دوں گی۔ صارم کو اب کبھی اداس نہ ہونے دوں گی۔ تارے گنتے رات بیت گئی افشاں چپکے سے اٹھی ناشتہ تیار کیا بہت خوش تھی شاور لیا، صارم کا پسندیدہ پنک سوٹ پہنا لان میں بیٹھ کر اس کے جاگنے کا انتظار کرنے لگی۔

کافی ٹائم گزر گیا صارم نہ اٹھا افشاں کمرے میں گئی پیار سے آوازیں دینے لگی جان جی اٹھ جائیں میں نے آج آپ کے لیے ناشتہ تیار کیا ہے۔ صارم کروٹ لیئے سوتا رہا افشاں سمجھ گئی کہ مذاق سے جان بوجھ کر نہیں اٹھ رہا۔ افشاں نے محبت سے صارم کو چھوا دیکھا صارم کا جسم ٹھنڈا پڑ چکا ہے۔ افشاں نے آگے بڑھ کر دیکھا صارم کے بستر پہ خون پڑا تھا ناک اور منہ سےابھی بھی خون رس رہا تھا۔

افشاں چیخنے لگی، زور زور سے آوازیں دینے لگی صارم میری جان یہ کیا ہوا آپ کو؟ صارم اٹھو نا پلیز۔ محلے والے اکھٹے ہو گئے ہسپتال لے گئے۔ ڈاکٹر نے چیک کیا دیکھا صارم کو افشاں کی الفت کی پیاس ہمیشہ کی نیند سُلا چکی تھی۔ کوئی آخر کب تک پیاسا رہ سکتا ہے اور پیاس بھی محبت کی؟ ڈاکٹر نے بتایا میں نے کہا تھا اسے اپنا خیال رکھو اپنا علاج کرواؤ۔ کسی کو ساتھ لیکر آؤ لیکن شاید یہ تو جیسے جینا ہی نہیں چاہتا تھا۔

افشاں نے تڑپتے ہوئے پوچھا کیا ہوا تھا صارم کو؟ ڈاکٹر نے سرد آہ بھری کہنے لگا صارم کو پچھلے ڈیڑھ سال سے بلڈ کینسر تھا۔ شاید اس کا خیال رکھنے والا کوئی نہیں تھا مجھے اکثر کہتا تھا ڈاکٹر صاحب میں کس کے لیئے جیوں؟ مر بھی جاؤں تو مجھے کونسا کوئی رونے والا ہے؟ کوئی ہے ہی نہیں جسے اپنا کہہ سکوں۔ میرے گھر میرا انتظار کرنے والا کوئی نہیں ہے۔

کوئی نہیں ہے جو مجھے محبت سے پوچھے دن کیسا گزرا؟ کوئی نہیں ہے جو مجھے کہے آپ تھک گئے ہیں چلو سر دبا دوں۔ رات کو کمرے میں اکیلا درد سے تڑپتا ہوں لیکن کوئی نہیں ہے جو میرا درد سمجھے۔ افشاں کی تو دنیا اجڑ چکی تھی۔ اس میں مزید کچھ سننے کی سکت نہیں تھی زمیں پہ گر گئی دھاڑیں مار مار کے رونے لگی صارم یہ کیا کر دیا تم نے؟ صارم مجھے معاف کر دو صارم۔ میں پاگل ہو گئی تھی صارم پلیز نہ جاؤ مجھے چھوڑ کر میں مر جاؤں گی تمہارے بنا۔

صارم کی لاش سامنے پڑی تھی جو زندگی میں شاید افشاں کی محبت کے دو بول سننے کو ترستا رہا۔ افشاں صارم کے چہرے کو ہاتھوں میں لیئے چیخ چیخ کر رو رہی تھی لیکن شاید کہ اب محبت کا وقت ختم ہو چکا تھا۔ صارم ہمیشہ کے لیئے آزاد کر گیا تھا افشاں کو اور خود آزاد ہو گیا تھا اپنے غموں سے۔ بندہ ناچیز تو بس اتنا کہتا ہے خدا کا واسطہ کسی کے جذبات سے مت کھیلو، کسی کو اتنا نہ ستاؤ کے وہ مر ہی جائے۔

اپنے ہمسفر کو سینے سے لگا لو ایک دوسرے کو گالی دینے کی بجائے ایک دوسرے سے محبت کر لو۔ اناء میں محبت کے لمحوں کو نہ جلا دینا۔ چھوٹی سی زندگی ہے نہ جانے کب بچھڑ جائیں اور موت آ گھیرے۔ محبت بانٹتے رہو کسی کے مرنے کے بعد پچھتانے سے اچھا ہے اس کو زندگی ہی میں سینے سے لگا لیں۔

About Aown Muhammad Shah

Aown Muhammad Shah is a columnist, Aown's content and columns are based on current affairs and social issues. He is working as Managing Director Shaheen Public School Multan.

Aown teeets on @ImAownShah.

Check Also

Adalti Islahat Aur Mojooda Adliya

By Raheel Moavia