Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Ansa Shehzadi
  4. Rehmat Se Zehmat Tak, Doobta Shehar Aur Soi Hui Qayadat

Rehmat Se Zehmat Tak, Doobta Shehar Aur Soi Hui Qayadat

رحمت سے زحمت تک، ڈوبتا شہر اور سوئی قیادت

میں یہ کس کے نام لکھوں، جو الم گزر رہے ہیں؟
میرے شہر جل رہے ہیں، میرے لوگ مر رہے ہیں

موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات جس تیزی سے ہمارے سامنے رونما ہو رہے ہیں، اسی تیزی سے ہمارے سیاستدانوں کی کارکردگی بھی بے نقاب ہو رہی ہے۔ کراچی، جسے روشنیوں کا شہر کہا جاتا ہے، آج وہ شدید طوفانی بارشوں اور سیلابی ریلوں کی زد میں ہے۔ وہ بارشیں جو کبھی رحمت سمجھی جاتی تھیں، اب پاکستان کے لیے زحمت بن چکی ہیں۔

ہم نے اسکول میں پڑھا تھا کہ ایک دن زمین گرمی کی حدت سے تپ اٹھے گی، گلیشیئرز پگھلنا شروع ہو جائیں گے اور آسمان بلبلا اٹھے گا۔ افسوس کہ جو کچھ ہمیں نو سال پہلے صرف کتابوں میں پڑھایا گیا تھا، آج ہم اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ رہے ہیں اور ہم سب ایک خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔

پچھلے دنوں خیبرپختونخوا میں جو تباہی ہوئی تھی، اب وہی حالات کراچی تک جا پہنچے ہیں۔ لیکن ہمارے سیاستدان یا تو منہ سادھے بیٹھے ہیں یا پھر پوائنٹ اسکورنگ میں مصروف ہیں۔ رائیٹرز کی ایک رپورٹ کے مطابق اب تک 300 سے زائد افراد اپنی جان کی بازی ہار چکے ہیں، درجنوں گھر تباہ ہو گئے ہیں اور سینکڑوں کی تعداد میں لوگ بے گھر ہو کر عارضی پناہ گاہوں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ مگر ان سب کا کوئی پرسانِ حال نہیں۔

کراچی، جو کبھی پاکستان کا دارالحکومت تھا، آج گندگی، بدانتظامی اور افراتفری کا منظر پیش کر رہا ہے۔ خیبرپختونخوا میں تباہ کاریاں ہوئیں تو وہاں ہیوی مشینری اور بروقت اقدامات کی ضرورت تھی، مگر ہمارے رہنما ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں مصروف تھے۔ پاکستان میں لوگوں کو یا تو حالات بروقت سمجھ نہیں آتے، یا پھر ہم اپنا بڑا نقصان کرنے کے بعد حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں۔ اگر یہی روش جاری رہی تو وہ وقت دور نہیں جب ہمارا پیارا ملک مکمل تباہی کے دہانے پر ہوگا۔

پاکستان نے حال ہی میں اپنا 78واں یومِ آزادی جوش و خروش سے منایا۔ لاکھوں روپے میوزیکل ایونٹس اور آتش بازی پر لگا دیے گئے، مگر وہی وسائل اگر متاثرین کی مدد کے لیے استعمال ہوتے تو شاید کئی زندگیاں بچ جاتیں۔ سوال یہ ہے کہ آزادی صرف تقریبات کا نام ہے یا اپنے بھائی بہنوں کے ساتھ کھڑے ہونے کا بھی؟

یہ وقت ہے کہ ہم اپنی ترجیحات بدلیں۔ ہمیں درخت لگانے ہوں گے، نکاسیِ آب کے نظام کو درست کرنا ہوگا، پالیسی سطح پر موسمیاتی تبدیلیوں کو سنجیدہ لینا ہوگا اور عوامی آگاہی کی مہم چلانی ہوگی۔ سب سے بڑھ کر ہمیں اپنے سیاستدانوں کو یہ باور کرانا ہوگا کہ پوائنٹ اسکورنگ نہیں، بلکہ عملی اقدامات ہی قوموں کو زندہ رکھتے ہیں۔

میری سب سے گزارش ہے کہ اس مشکل گھڑی میں ہم سب اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ کھڑے ہوں۔ یاد رکھیں، تباہی سے بچنے کے لیے قوموں کو صرف لیڈرشپ کی نہیں بلکہ اجتماعی شعور اور عملی اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر ہم نے آج اپنی ذمہ داری نہ سمجھی تو کل بہت دیر ہو جائے گی۔

Check Also

Mian Muhammad Baksh (19)

By Muhammad Sarfaraz