Imran Khan Se Kya Ghaltiyan Hui?
عمران خان سے کیا غلطیاں ہوئیں؟

پاکستان تحریک انصاف کے بانی چیئرمین عمران خان مقبول لیڈر تو ضرور ہیں، لیکن کیا وہ اپنے نظریات پر قائم رہتے ہیں، یا بیانیہ بدلتے رہتے ہیں؟ میرے خیال میں اسکا جواب صرف ایک سطر میں دیا جا سکتا ہے اور وہ یہ ہے کہ "عمران خان یوٹرن خان ہیں"۔
2018 میں تبدیلی کے نعرے لگا کر جب عمران خان اقتدار میں آئے تو مجھ سمیت بُہت سے لوگوں کو لگا کہ واقعی ملک میں غیر معمولی تبدیلی آجائے گی، نظام بدل جائے گا۔ پروٹوکول سسٹم ختم ہو جائے گا، اور بااثر لوگ اور غریب برابر نظر آئیں گے، مگر عملی طور پر ایسا کچھ نہیں ہوا۔ البتہ ملک کو لوٹنے والوں کو زبانی بے نقاب کرنے کا سلسلہ ضرور جاری رہا۔
لوگوں نے جب عمران خان جیسے انقلابی لیڈر کی عملی زندگی پر نظر رکھنا شروع کی، تو انہیں معلوم ہوا کہ اُنکے پاس باقی سیاستدانوں کی طرح وہی محل نما وزیراعظم ہاوس، درجنوں گاڑیوں کے پروٹوکول اور ٹھاٹھ باٹھ اور وہی وزرا کی فوج ظفر موج موجود ہے۔
عمران خان کے دور حکومت میں عام آدمی کی ذلت و رسوائی اور زیرو شنوائی ویسے ہی جاری رہی جیسے باقی سیاستدانوں کے دور حکومت میں تھی۔ اسی کے ساتھ عثمان بزدار اور فرح گوگی کی کرپشن کی کہانیاں بھی عمران خان کے دور حکومت کا حصہ رہیں۔ موٹیویشنل تقریریں تو بہت سننے کو ملیں، مگر عوام کی حالت نہ بدلی اور تبدیلی کے آثار کہیں نظر نہیں آئے۔
پاکستان میں اقتدار حاصل کرنے سے پہلے عمران خان سمیت سب سیاستدانوں کے نعرے ایک جیسے ہی ہوتے ہیں۔ جیسے کہ ہم مہنگائی کم کر دیں گے، آئی ایم ایف سے قرضہ نہیں لیں گے، عوام پر بھاری ٹیکسز نہیں نافذ کریں گے اور ریاست کو ماں سمجھیں گے۔ لیکن جب یہ نام نہاد انقلابی سیاستدان اقتدار میں آتے ہیں تو ریاست کو ماں سمجھنے کے بجائے اُسکے خلاف کھڑے ہو جاتے ہیں۔
عمران خان بھی باقی سیاستدانوں کی طرح اسٹیبلشمنٹ کی بیساکھیوں کے سہارے اقتدار میں آئے اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ایک پیج پر ہونے کو فخر سمجھتے رہے، ان کے گن گاتے رہے۔ انکی ڈکٹیشن لیتے رہے۔ مگر اسکے باوجود عمران خان نے ہمیشہ سے یہی کہا کہ میں نے کبھی کسی سے ڈکٹیشن نہیں لی۔ حالانکہ حقیقت میں وہ ڈکٹیشن پر ہی چل رہے تھے۔
پھر وہی ہوا جسکا ڈر تھا۔ جب ان سے کرسی چھین لی گئی، تو انہیں یاد آیا کہ اسٹیبلشمنٹ کو سیاست سے دور رہنا چاہئے، اسٹیبلشمنٹ کو آئین میں دی گئی حدود کے اندر رہنا چاہئے۔ پھر بھول گئے کہ ریاست ماں جیسی ہوتی ہے۔ پھر بھول گئے کہ وہ کس کس سے ڈکٹیشن لیتے رہے۔
عمران خان پر تنقید کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ ان کے مخالف سیاستدان دودھ کے دھلے ہوئے ہیں۔ عمران خان کی مقبولیت کی وجہ ہی یہی تھی کہ انہوں نے مخالف سیاستدانوں کو سسلین مافیا قرار دیکر عوام سے اپنے لئے ووٹ لیا۔ جب اقتدار کے دوران ان کا طرز حکومت بھی سسلین مافیا جیسا نظرآیا اور عوام بے آسرا نظرآئے تو عمران خان کی شخصیت پر سوال اٹھنے لگے کہ وہ کونسی خامیاں آپ کے اندر بھی پیدا ہوئیں جسکی وجہ سے آپ کو حکومت سے ہاتھ دھونا پڑا۔ آپ نے اسٹیبلشمنٹ کو اتنا کیوں پاور فل بنا دیا کہ انہوں نے راتوں رات آپکی حکومت کو گھر چلتا کیا۔
اقتدار کے بعد جب پانی پلوں کے نیچے سے گزر گیا تو یاد آیا کہ آپ کے ارد گرد میر جعفر اور میر صادق تھے۔ درحقیقت ایسا لیڈر تو اپنے ملک کی باگ دوڑ سنبھالنے کے قابل ہی نہیں ہونا چاہئے، جو ساڑھے تین سال تک اپنے ارد گرد میر جعفر اور میر صادق ہی نہ پہچان سکا ہو۔
دوسری صورت میں یہ کہا جاسکتا ہے، کہ آپ کو استعمال کرنا بہت ہی آسان تھا۔ آپ وقت گزرنے کے بعد اعتراف کرنے کے عادی نظر آنے لگے، کبھی کہتے ہو کہ صوبائی اسمبلیاں توڑنا ہماری غلطی تھی، کبھی کہتے ہو اسمبلیوں سے استعفے دینا ہماری غلطی تھی۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے، جو آپ کے ووٹرز آپ کے سامنے اٹھا رہے ہیں کہ کیا صرف غلطیاں سدھارنے کےلئے آپ کو دوبارہ اقتدار میں آنے کا چانس دیا جائے؟

