Thursday, 28 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Amer Farooq
  4. Bhaji

Bhaji

بھاجی

یہ پنجابی والے بھا جی نہیں۔ نہ ہی سرائیکی والی بھاجی یعنی سالن ہے۔ شمالی پنجاب میں بولے جانے والے لفظ بھاجی سے مراد خوشی اور غمی کے مواقع پر دیے جانے والے تحائف یا امداد ہے۔ جو عزیز رشتہ دار ایک دوسرے کو پیش کرتے ہیں۔

وسطی اور جنوبی پنجاب میں خوشی کی تقریب پر دیے جانے والے تحفے کو نےندر اور نیوندرا بھی کہتے ہیں۔ اردو میں شادی پر دیے جانے والے نقد تحفے کو سلامی کہتے ہیں۔

بظاہر یہ خوب صورت سی رسم اور تصور لگتا ہے۔ لیکن دکھاوے اور "ادلے کا بدلہ" ٹائپ سوچ نے اس رسم میں تحفے والی روح اور محبت کچل دی ہے۔ اکثر صورتوں میں یہ کاروباری لین دین سا عمل بن کر رہ گیا ہے۔

بھاجی کا عام تصور یہ ہے کہ میزبان نے جو کچھ آپ کے گھر ماضی میں دے رکھا ہے آپ کو اس سے زیادہ دینا ہے۔ یا کم از کم اتنا تو ضرور دینا ہے۔ اس سے کم مالیت کا تحفہ یا نقدی دینا کسرِ شان اور قطع تعلقی کا عندیہ سمجھا جاتا ہے۔

شادی کے موقع پر میزبان ایک سیانے بندے کو کاپی پینسل دے کر بھاجی کا بہی کھاتہ مرتب کرنے پر لگا دیتے ہیں۔ مہمان یکے بعد دیگرے اس بندے کے پاس آتے ہیں جو عموماً دروازے کے پاس بیٹھا ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ایک دوسرا بندہ پیسے وصول کرنے کے لیے موجود ہوتا ہے۔ مہمان پیسے پکڑا کر یقینی بناتا ہے کہ اس کا نام درج ہو جائے (کل اسی حساب سے وصولی کی توقع ہے)۔ سیانا بندہ مہمان کا نام اور سامنے پیسے لکھتا ہے۔

آج کل گھر سے ہی لفافے میں پیسے ڈال کر لے جانے کا رواج بھی ہوگیا ہے۔ ایسے لفافے تقریب کے بعد احتیاط سے کھول کر کاپی میں اندراج مکمل کیا جاتا ہے۔

اگر کوئی مہمان اس سے کم تحفہ پیش کرے جتنا میزبان نے اسے ماضی میں دے رکھا ہو تو اسے برا تو سمجھا جاتا ہے لیکن مروتاً اس موقعے پر لوگ خاموش رہتے ہیں۔ تاہم بعد میں اس فرد کو دعوت دینا یا اس کی دعوت قبول کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔

تاہم بعض جگہوں پر تو میزبان اسی جگہ ٹوک دیتے ہیں کہ ہم نے آپ کو اتنا دے رکھا ہے۔ آئندہ تعلق رکھنا ہے تو زیادہ دیں اور ختم کرنا ہے تو اتنا واپس کر جائیں جو ہم نے دیا تھا۔ اندازہ لگائیں یہ کیسا "تحفہ" ہے اور اس سے تعلق میں کیا محبت پیدا ہوگی۔

اب تھوڑی سی بات سوشلستان کی کیونکہ حقیقی زندگی کی یہ بات بھی تو اس سوشلستانی پلیٹ فارم فیس بک پر ہی ہو رہی ہے۔ تو اس کم بخت بھاجی کا مشاہدہ یہاں بھی کیا جا سکتا ہے۔ اور اس میں کچھ حیرت والی بات بھی نہیں کہ جو اصل زندگی میں بھاجیوں کی روایت زندہ رکھے ہوئے ہیں وہ یہاں بھی یہی کچھ کریں گے۔

جیسے پاکستان میں شادی پر تحفے کی بھاجی ہوتی ہے اسی طرح سوشلستان میں پوسٹ پر لائک، کمنٹ اور شیئر کی بھاجی چلتی ہے۔

اور سوچ کچھ اس طرح کی ہے۔ "ہم تو بس اپنے "خاندان" کی پوسٹس لائک کریں گے۔ ہمیں کیا ضرورت ہے بریلویوں، دیو بندیوں، لبرلوں، بنیاد پرستوں، اردو والوں، پنجابی والوں، سندھی والوں، انگریزی والوں، شہریوں، عورتوں، انصافیوں، پٹواریوں وغیرہ وغیرہ کی پوسٹس لائک کریں۔

ہم تو فلاں کی پوسٹ لائک کریں گے اس نے ہماری پوسٹ پر کمنٹ کیا تھا۔ فلاں تو جگر ہے اس کی پوسٹس شیئر کرنی ہیں۔ اس کی پوسٹ ضرور دیکھنی ہے وہ میری ہر پوسٹ دیکھتا ہے وغیرہ وغیرہ۔۔ "

کتنے چ ہیں یارررر۔۔ تحفے، گفٹ، پریزنٹ، ہدیہ، جو بھی کہیں، ان سے جڑی ایک خوب صورت فیلنگ اور خشبو کو ساہوکاری والی بدبو دے کر خود کو پیاری سی خوشی سے محروم کر لیتے ہیں۔

Check Also

Nakara System Aur Jhuggi Ki Doctor

By Mubashir Aziz