Bachon Ke Bhari School Bags
بچوں کے بھاری سکول بیگز
بچوں کے بھاری سکول بیگز کے نقصان دہ اثرات ان کے posture پر ظاہر ہو رہے ہیں۔ اس پہلو پر ماہرین صحت بات کرنا شروع ہو گئے ہیں جن کے کلینکس میں کمر اور شانوں میں درد کی شکایت کے ساتھ والدین نو عمر بچوں کو لا رہے ہیں۔
بد قسمتی سے ایسے کوئی شواہد نہیں کہ پرائیویٹ ایجوکیشن کی کمرشل نوعیت اور مختلف سکولز کے مابین کاروباری مسابقت کے ماحول میں سکولز کی انتظامیہ سلیبس کی طوالت اور کتابوں، کاپیوں کے حجم کے بچوں کی ذہنی، نفسیاتی اور جسمانی صحت پر اثرات کے بارے میں سوچ بچار کرتی ہوگی یا اسے کوئی فکر ہوگی۔
سکول نما مالیاتی کارپوریشنز میں رنگ برنگی سرگرمیاں کروانے کی ریس لگی ہوئی ہے تاکہ کاروباری حریف کی نسبت زیادہ سے زیادہ "کلائنٹس" کو اپنی طرف راغب کیا جا سکے۔
اس کے علاوہ والدین کے فیڈ بیک سے امپروومنٹس کے لیے پیرنٹس ٹیچرز ایسوسی ایشنز اگر چند اداروں میں وجود رکھتی بھی ہیں تو ان کا سکوپ واضح نہیں اور فیصلہ سازی میں بالعموم ان کا کوئی کردار نہیں۔ یوں وہ زیادہ موثر بھی نہیں۔ پی ٹی ایز کے غیر مؤثر ہونے کی وجہ والدین میں صلاحیت کی کمی (capacity gap) بھی ہے۔
والدین یہ سمجھنے سے قاصر نظر آتے ہیں کہ بچے کی بہتری کے لیے فیصلوں کا کلی اختیار سکولز کو نہیں دیا جا سکتا بلکہ والدین کو سکولز کے فعال پارٹنرز کا کردار ادا کرنا چاہیے۔ لیکن وہ سکول کم مالیاتی کارپوریشنز کے کاسمیٹک اقدامات پر ہی خوش رہتے ہیں اور رزلٹ کارڈز پر گریڈز دیکھ دیکھ کر نہال ہوتے رہتے ہیں۔ یہ الگ بات کہ غیر معمولی گریڈز بچوں میں تجسس، جستجو، جذباتی پختگی، اعتماد وغیرہ جیسے نتائج کا سبب نہیں بنتے۔
عمر کے مطابق بچوں کو کیا سیکھنے کی ضرورت ہے اور اس کے لیے کیا وسائل درکار ہیں، ان کا ادراک کیے بغیر کتابوں، کاپیوں کے نامعقول بوجھ تلے بچے آئن سٹائن تو نہیں بنیں گے البتہ ایک پوری نسل کے کُبڑا ہونے کا سیریئس خدشہ بہرحال لاحق ہے۔