Dolay Shah Ke Choohe
دولے شاہ کے چوہے

آپ کئی بار اپنے اردگرد عموماً سبز رنگ کے لباس میں ملبوس چھوٹے چھوٹے سر والے ابنارمل سے لوگ چلتے پھرتے دیکھتے ہونگے انھیں عام طور پر دولے شاہ کے چوہے کہا جاتا ہے۔ میں بچپن میں انھیں جب بھی دیکھتا تو میرے اندر خوف کے ساتھ ساتھ ایک تجسس سا انگڑائی لینے لگتا ہے کہ یہ ایسے کیوں ہیں۔ میں نے بالآخر تاریخ کے اوراق گھنگھالے آئیں انکے بارے تھوڑا تفصیل سے بات کرتے ہیں کہ یہ آخر کہاں سے آتے ہیں۔
تاریخی حوالہ جات اور سینہ بہ سینہ منتقل ہونے والی روایات کے مطابق "دولے شاہ کے چوہے" کی اصطلاح پنجاب کے علاقے گجرات میں واقع ایک قدیم درگاہ سے جُڑی ہوئی ہے، جسے "حضرت دولے شاہ" کا مزار کہا جاتا ہے۔ حضرت دولے شاہ ایک صوفی بزرگ تھے جن کا زمانہ مغلیہ دور (تقریباً 16ویں صدی) سے منسوب کیا جاتا ہے۔ لوگ ان سے روحانی فیض لینے آتے اور منتیں مانگتے تھے خاص طور پر اولاد کے حوالے سے۔
روایت ہے کہ جن والدین کو اولاد نہ ہوتی وہ منت مانتے کہ اگر اللہ انہیں اولاد دے دے تو وہ بچہ "دولے شاہ" کے حضور پیش کریں گے۔ یہ پیش کرنا ابتدا میں محض عقیدت کی علامت تھا۔ بچے کو کچھ عرصہ درگاہ پر رکھنا، نیاز چڑھانا اور پھر واپس لے جانا مگر وقت کے ساتھ یہ رسم ایک انوکھا اور خطرناک رُخ اختیار کر گئی۔
افسوسناک پہلو یہ ہے کہ پتہ نہیں یہ ظالمانہ رسم کب پڑی جب ان بچوں کے سروں پر کم عمری میں لوہے یا کپڑے کی ٹوپیاں چڑھا دی جاتی تھیں جس سے ان کی کھوپڑی کی نشوونما رُک جاتی اور وہ ذہنی و جسمانی طور پر پسماندہ بن جاتے۔ ان بچوں کو بعد ازاں درگاہ پر رکھا جاتا، جہاں وہ مختلف کاموں میں استعمال ہوتے اور لوگ انہیں "دولے شاہ کے چوہے" کہہ کر صدقہ و خیرات دیتے۔
جب ایسے کیسز بڑھنے لگے تو عدالتیں اور انسانی حقوق کی تنظیمیں حرکت میں آئیں۔ لہٰذا عدالتوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی کوشش سے اب اس رسم پر بڑی حد تک پابندی لگ چکی ہے اور حکومت نے ایسے بچوں کے تحفظ کے لیے اقدامات کیے ہیں۔ تاہم، ذہنی پسماندگی یا جسمانی خرابی کے شکار افراد اب بھی "دولے شاہ کے چوہے" کہلا کر معاشرتی طنز کا نشانہ بنتے ہیں، جو ہماری اجتماعی سوچ پر سوالیہ نشان ہے۔
اب یہاں سوال یہ ہے کہ "دولے شاہ کے چوہے" کی اصطلاح میں "دولے شاہ" تو سمجھ آتا ہے کہ دربار کی نسبت ہے مگر اس اصطلاح میں" چوہے" کیوں؟ چونکہ ان بچوں کے سر چھوٹے، جسم دبلا پتلا اور حرکات محدود ہو جاتی تھیں، اس لیے لوگ طنزاً یا لاعلمی میں انہیں "چوہے" کہنے لگے۔ یہ اصطلاح بعد میں ایک مقامی محاورے میں بدل گئی اور آج بھی ہم "دولے شاہ کا چوہا" کسی ایسے شخص کے لیے بولتے ہیں جسے عقل یا فہم سے عاری سمجھا جائے۔
اصل سوال یہ ہے:
یہ رسم عقیدت تھی یا ظلم؟
یہ بچوں کی قربانی تھی یا انسانیت کی ہزیمت؟
اور آج بھی ہم کہاں کھڑے ہیں؟
کیا ہم اب بھی علم، شعور اور عقل کے مخالف ہر شخص کو "چوہا" کہہ کر بری الذمہ ہو سکتے ہیں؟