Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Ali Azam
  4. Shayari Mein Sanfi Adam Tawazun

Shayari Mein Sanfi Adam Tawazun

شاعری میں صنفی عدم توازن

"لٹریچر (Literature)" انگریزی زبان کا لفظ ہے۔ اردو زبان میں اسے "ادب" کہتے ہیں۔ ادب کو کسی بھی علمی میدان میں تحقیق کے دوران آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے۔ جب کسی تحقیقی مقالے (Research Article) کا مطالعہ کیا جاتا ہے تو عموماً یہ دیکھا جاتا ہے کہ محقق نے مختلف پیرامیٹرز کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا نتائج اخذ کیے ہیں۔ مختلف محققین کی پہلے سے کی ہوئی تحقیقات کا حوالہ دیتے ہوئے ادبی خلا (Literature Gap) نکالا جاتا ہے تاکہ یہ سمجھا جا سکے کہ ابھی تک کون سے پیرامیٹرز کا جائزہ نہیں لیا گیا۔ اس طرح مختلف محققین کے تجربات اور نتائج کے مجموعے کو لٹریچر ریویو (Literature Review) کہتے ہیں۔

ادب کا مطالعہ انسان کے فکر و خیال کو بلند مقام عطا کرتا ہے اور انسان کو عظیم بنانے کا ذریعہ بنتا ہے۔ یہ انسانی تجربات، خیالات اور جذبات کی عکاسی کرتا ہے، معاشرتی مسائل کو اجاگر کرتا ہے، تخلیقی صلاحیتوں کو نکھارتا ہے اور نئی تحقیق کی راہ میں بطور خام مال استعمال ہوتا ہے جو نئی افکار کے لیے راستے فراہم کرتا ہے۔ اس کے ذریعے ماضی کے تجربات سے سیکھا جاتا ہے، موجودہ مسائل کو سمجھا جاتا ہے اور مستقبل کی بہتر منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔

یہ ہماری تہذیب، روایات اور ثقافت کا عکس پیش کرتا ہے اور ہمیں اپنی شناخت اور ورثے کو پہچاننے میں معاون ہوتا ہے۔ محققین لٹریچر ریویو کی مدد سے یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے موضوع پر کیا کام ہو چکا ہے اور کہاں تحقیق کی گنجائش موجود ہے۔ لٹریچر ریویو ایک تحقیقی منصوبے کے لیے مضبوط بنیاد فراہم کرتا ہے اور محققین کو پہلے سے کی گئی تحقیقات کے پس منظر اور سیاق و سباق سے روشناس کراتا ہے۔ لٹریچر کی بلندی کا اندازہ میرے انتہائی شفیق استاد محمد انور بھٹی اختر آبادی صاحب کی زبانی:

ادب اک حسن خامہ ہے
ادبیوں کا عمامہ ہے

اسی سے شان حسرت ہے
یہی سعدی کا جامہ ہے

کہیں اقبال جسکو ہم
تھی چشم دل جسکی نم

کرے شکوے جو اللہ سے
ادب کا ہی کرشمہ ہے

(محمدانور بھٹی اختر آبادی)

تشریح: یہ اشعار ادب کی اہمیت اور قدر و قیمت کو اجاگر کرتے ہیں۔ ادب ایک خوبصورت اور نایاب مواد ہے جو ادیبوں کو شہرت، عزت اور مقام عطا کرتا ہے۔ یہ ان کے لیے ایک تاج کی مانند ہے، جو ان کی تخلیقی صلاحیتوں اور فن کو نمایاں کرتا ہے۔ ادب ہی حسرت موہانی کی عظمت اور وقار کی بنیاد ہے۔ اسی ادب نےشیخ سعدیؒ جیسے عظیم شاعر کو ان کا مقام اور پہچان عطا کی۔ یہ ان کی تخلیقی پوشاک ہے جو انہیں دوسروں سے منفرد بناتی ہے۔ علامہ اقبالؒ کی شاعری میں ایسی گہرائی اور دلکشی ہے کہ دل کی آنکھیں نم ہوجاتی ہیں۔ اقبالؒ کا خدا سے شکوہ ادب کی وہ طاقت ہے جو انسان کو اپنے خیالات کے بے باک اظہار کی صلاحیت عطا کرتی ہے۔

اردو ادب میں نسائی حسن (Feminine beauty) کا ذکر شاعری کا ایک اہم حصہ رہا ہے۔ یہ حسن نہ صرف ظاہری خوبصورتی کو بیان کرتا ہے بلکہ عورت کی نازکی، لطافت اور روحانی پہلوؤں کو بھی اجاگر کرتا ہے۔ مرد شعراء نے نسائی خوبصورتی کو چاند کی چمک، سورج کی روشنی، ستاروں کی جھلملاہٹ، پھولوں کی خوشبو اور سمندر کی گہرائی سے تشبیہ دی ہے۔ یہ تشبیہیں ادب میں عورت کی حیثیت، خوبصورتی اور عظمت کو بیان کرتی ہیں۔ جیسا کہ:

نازکی اس کے لب کی کیا کہیے
پنکھٹری اک گلاب کی سی ہے

(میر تقی میر)

اب میں سمجھا تیرے رخسار پہ تل کا مطلب
دولتِ حسن پہ دربان بٹھا رکھا ہے

(قمرمرادآبادی)

اس کے چہرے کی چمک کے سامنے سادہ لگا
آسماں پہ چاند پورا تھا مگر آدھا لگا

(افتخار نسیم)

جلتا ہے اب تلک تری زلفوں کے رشک سے
ہر چند ہوگیا ہے چمن کا چراغ گل

(آبرو شاہ مبارک)

لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ خواتین شعراء کی طرف ہمیشہ کنجوسی کا مظاہرہ کیا گیا ہے۔ اگر ماضی کے مسودات اور مقالات پر نظر ڈالی جائے تو ادبی خلا سے پتہ چلتا ہے کہ حسنِ مرداں (Mens beauty) کا پرچار بھی بہت ضروری ہے۔ مثال کے طور پر، مرد کی خوبصورت مونچھیں، سنہری ڈاڑھی اور ساحل کے اُفق پر درختوں کی مانند چند بالوں کا تذکرہ بھی کیا جانا چاہیے۔ اس طرح کی تشبیہیں مردوں کی وجاہت اور خوبصورتی کو بیان کرتی ہیں۔ یہ بات اس لیے بھی ضروری ہے کہ ادب میں حسنِ نسواں اور حسنِ مرداں کا برابر تذکرہ ہوتا رہے تاکہ معاشرتی اور ادبی توازن برقرار رہے، جو معاشرتی انصاف اور جمالیاتی توازن کو بھی فروغ دے۔

اسی اثناء میں نظم "کجھ نہ پچھ! (Do Not Ask!)" پیش خدمت ہےجو ایک عورت کی اپنے خاوند کے لیے اظہار محبت کو بیان کرتی ہے۔ امید ہے کہ گزشتہ ادبی خلا کو پورا کرنے کی طرف ایک قدم ثابت ہوگئی۔ عنوان "کجھ نہ پچھ! " اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ محبت کو سوالات سے نہیں ماپا جا سکتا، یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو دل سے محسوس کی جاتی ہے۔ توقع ہے کہ یہ نظم پنجابی ادب میں مَردوں کے لیے محبت کے جذبات کو بہتر طور پر بیان کرنے کا باعث بنے گی۔

کجھ نہ پُچھ!

چَن ماہی دی مُچھ
کجھ نہ پچھ کجھ نہ پُچھ

کجھ نہ پچھ کجھ نہ پُچھ
میرے دل دے نال او جڑیا

ویلڈنگ دا جیویں ٹُچ
کجھ نہ پُچھ کجھ نہ پُچھ

او چانن میری اکھیاں دا
میرے ساواں دا سکھ

کجھ نہ پُچھ کجھ نہ پُچھ
محفل دے وچ رونق لاوے

کی مجال کوئی جاوے اُوٹھ
کجھ نہ پُچھ کجھ نہ پُچھ

گل کرے، سبحان اللہ!
میلے نوں لوے لُٹ

کجھ نہ پُچھ کجھ نہ پُچھ
سارے گھر نوں پاور دیوے

ساکٹ دے نال سوچ
کجھ نہ پُچھ کجھ نہ پُچھ

ذُلف خیالی، چال مثالی
میں دوروں لواں بُجھ

کجھ نہ پُچھ کجھ نہ پُچھ

(علی اعظم)

Check Also

J Dot Ka Nara

By Qamar Naqeeb Khan