Ai Ba Muqabla Aala Aleem, Aik Naya Bayania
اے آئی بمقابلہ اعلیٰ تعلیم، ایک نیا بیانیہ

دورِ حاضر کے تقاضے روز بروز بدل رہے ہیں اور ان تغیرات کے ساتھ ساتھ انسانی سوچ اور افکار کے زاویے بھی نئے رخ اختیار کر رہے ہیں۔ خالقِ کائنات نے انسان کو عقل، تدبّر اور اختیار کی نعمت عطا کی ہے، اسی وجہ سے اسے دیگر مخلوقات پر فوقیت حاصل ہے۔ کائنات کی بے شمار نعمتیں اسی مقصد کے لیے مسخر کی گئی ہیں کہ انسان غور و فکرکے ذریعے ان کا ادراک کرے، ان سے استفادہ کرے اور اپنی زندگی کو بہتر بنائے۔ یہی جستجو، تدبّر اور کھوج انسانیت کی اصل پہچان ہیں، جو انسان کو محض حیوانی ضروریات سے اوپر اٹھا کر علم، تہذیب اور ارتقاء کی طرف لے جاتی ہیں۔ علم اور تحقیق اسی تلاش کا تسلسل ہیں جو انسان کو ترقی کی نئی راہیں دکھاتے ہیں۔ زراعت سے صنعتی انقلاب اور صنعتی دور سے ڈیجیٹل و خلائی عہد تک کا سفر اسی مسلسل علم و جستجو کا نتیجہ ہے اور یہ سفر جاری ہے، جاری رہے گا۔
ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں
اب ٹھہرتی ہے دیکھیے جا کر نظر کہاں
وطنِ عزیز میں ایک نیا بیانیہ جنم لے رہا ہے۔ اس کی ابتدا ایک دانشور صحافی نے کی جب انہوں نے ایک نوجوان کو مشورہ دیا کہ "ایم اے تک ٹھیک ہےاس کے بعد اے آئی کے کورسز کرنا بہتر ہوگا" کیونکہ ان کے مطابق آج کے دور میں"جس کاپی پیسٹ کے ذریعے پی ایچ ڈی ہو رہی ہے اس نے تو پی ایچ ڈی کا نام ہی بدنام کر دیا ہے"۔ بعد میں ایک اور دانشور صحافی نے اس بات کی تائید اپنے ذاتی مشاہدے کی بنیاد پر کی اور کہا کہ "امریکا میں عام ملازمت کے لیے یونیورسٹی ڈگری بھی نہیں ہائی اسکول ڈپلومہ کافی ہوتا ہے۔ یہ ہائی اسکول کی ذمے داری ہے کہ نوجوانوں کو معاشرے کا کارآمد شہری بنائے"۔ پھر ایک تیسرے دانشور صحافی نے اس بیانیے کو اور زیادہ سخت مؤقف کے ساتھ آگے بڑھایا۔ ان کے مطابق پاکستان میں ایم فل اور پی ایچ ڈی کی ڈگریاں زیادہ تر سنوبری اور ایک طرح کی "ذہنی عیاشی" بن چکی ہیں جنہیں اسٹیٹس سمبل کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ہمارے ہاں تعلیمی ڈھانچہ اتنا پسماندہ ہے کہ گویا "قرونِ وسطیٰ کے غاروں میں کہیں دبکا ہوا ہو" اسی لیے یہ ڈگریاں اپنی اصل وقعت کھو چکی ہیں۔ مزید یہ کہ ڈگریاں"پیٹ نہیں بھرتیں" اور مستقبل میں صرف Skills اور AI ہی کامیابی کی ضمانت ہیں۔
بیانیہ اپنی کشش تو رکھتا ہے مگر حقیقت اس سے کہیں زیادہ وسیع ہے۔ البتہ بات کرنے سے پہلے تحقیق ضروری ہے۔ کیا واقعی آرٹیفیشل انٹیلیجنس اتنی طاقتور ہو چکی ہے کہ دنیا کو بنیادی علم کے بغیر ہی بدلنے چل پڑی ہے؟ کیا اس کا اعلیٰ تعلیمی اسناد جیسے بیچلرز، ماسٹرز اور پی ایچ ڈی کے ساتھ کوئی موازنہ بنتا ہے یا نہیں؟ جب آرٹیفیشل انٹیلیجنس کا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ یہ محض ایک ٹول ہے، خودمختار یا کامل نظام نہیں۔ اس کی کارکردگی ہمیشہ انسانی ہدایات، فراہم کردہ ڈیٹا اور سائنسی اصولوں کی درستگی پر منحصر رہتی ہے۔ اگر بنیادی علم، مصدقہ حقائق اور معیاری ڈیٹا موجود نہ ہو تو مصنوعی ذہانت کے نتائج محدود، غیر معتبر اور بعض اوقات گمراہ کن یا نقصان دہ ثابت ہو سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مصنوعی ذہانت کو تعلیمی اسناد کا متبادل نہیں کہا جا سکتا۔ درحقیقت یہ ایک معاون قوت ہے جو اعلیٰ تعلیم سے حاصل شدہ علم اور تنقیدی صلاحیتوں کو عملی دنیا میں زیادہ مؤثر اور نتیجہ خیز انداز میں ڈھالنے کا وسیلہ ہے۔ اصل دانشمندی یہی ہے کہ دونوں کو یکجا کرکے آگے بڑھا جائے۔
مزید برآں، کچھ حلقے یہ بھی خیال کرتے ہیں کہ AI کے استعمال سے طلبہ کی صلاحیتوں میں فرق پڑے گا، وہ تنقیدی سوچ اور تخلیقی جستجو کے بجائے محض مشین کے دیے گئے نتائج پر انحصار کرنے لگیں گے۔ ان کے نزدیک یہ خطرہ ہے کہ نئی نسل سوال کرنے اور خود مسائل حل کرنے کے بجائے صرف تیار شدہ جوابات پر قناعت کر لے گی جس سے علمی و تحقیقی معیار متاثر ہو سکتا ہے۔ یہ خدشہ اپنی جگہ وزن رکھتا ہے کہ اگر طلبہ اندھا دھند AI پر انحصار کریں تو ان کی تنقیدی اور تخلیقی صلاحیتیں متاثر ہو سکتی ہیں۔ لیکن یہ حقیقت بھی نظر انداز نہیں کی جا سکتی کہ ٹیکنالوجی خود صلاحیتیں چھینتی نہیں بلکہ ان کے استعمال کا طریقہ طے کرتا ہے۔
ماضی میں بھی یہی بحث اُس وقت چھڑی تھی جب 1960 کی دہائی میں کیلکولیٹر پہلی بار کلاس روم میں متعارف ہوا۔ اُس وقت کئی ماہرینِ تعلیم کا خیال تھا کہ اگر طلبہ نے کیلکولیٹر استعمال کرنا شروع کر دیا تو وہ ذہنی حساب کی مشق چھوڑ دیں گے اور بنیادی ریاضیاتی مہارتوں سے محروم ہو جائیں گے۔ 1986 میں واشنگٹن میں نیشنل کونسل آف ٹیچرز آف میتھمیٹکس (NCTM) کے اجلاس کے موقع پر ریاضی کے اساتذہ نے کیلکولیٹر کے استعمال کے خلاف باقاعدہ احتجاج کیا۔ ان کا مؤقف تھا کہ اگر طلبہ نے ابتدائی سطح پر اس آلے پر انحصار شروع کر دیا تو وہ ذہنی حساب کی صلاحیت کھو بیٹھیں گے اور بنیادی ریاضیاتی مہارتوں سے محروم ہو جائیں گے۔ لیکن وقت کے ساتھ وہی کیلکولیٹر ریاضی کی تعلیم کا لازمی حصہ بن گیا۔ یہ تبدیلی ایک واضح پالیسی اپنانے کے نتیجے میں آئی۔ تعلیمی اداروں، پالیسی سازوں اور ماہرینِ تعلیم نے یہ تسلیم کیا کہ ٹیکنالوجی کو روکنے کے بجائے اسے درست رہنمائی اور نصابی اصلاحات کے ذریعے اپنانا ہی مؤثر حل ہے۔
اگر اُس زمانے میں کوئی شخص یہ دعویٰ کرتا کہ صرف کیلکولیٹر سیکھ لینے سے سب کچھ ممکن ہو جائے گا تو یہ بات نہایت مضحکہ خیز محسوس ہوتی۔ البتہ کیلکولیٹر کا استعمال انسان کو محض حساب کتاب کرنے والا منشی تو بنا سکتا ہے مگر ماہرِ ریاضی دان یا نئی ایجادات کرنے والا موجد نہیں اور ایک اور مثال لیجیے، جیسے ٹائپ رائٹر کے مقابلے میں کمپیوٹر پر مبنی کمپوزنگ یا ٹیکسٹ ٹو اسپِیچ، جیسی سہولیات نے کام کی رفتار، درستگی اور افادیت میں کئی گنا اضافہ کر دیا ہے۔ لیکن اس سے کوئی شخص مصنف یا مفکر نہیں بن جاتایہ محض ایک آلہ ہے جو اظہار کو سہل بناتا ہے۔
جنابِ عالی! مؤدبانہ عرض ہے کہ اعلیٰ تعلیم، خصوصاً پی ایچ ڈی کو یوں بیان کرنا کہ جیسے یہ پلیٹ میں رکھ کر مفت بانٹی جاتی ہے دراصل اس کے حقیقی مقصد کی نفی ہے۔ پانچ سے سات سال پر مشتمل طویل تحقیقی سفر، مسلسل تنقیدی مشق اور عالمی معیار کی علمی اشاعتیں کوئی عیاشی نہیں بلکہ ایک قربانی ہیں، جس کا بنیادی مقصد نیا علم تخلیق کرنا اور ایسے سائنسی و فکری خلا کو پُر کرنا ہے جن پر پہلے کوئی کام نہ ہوا ہو۔ یہ سفر محقق کی تنقیدی سوچ، تجزیاتی صلاحیت اور تحقیقی بصیرت کو جِلا بخشتا ہے اور ایسے نتائج سامنے لاتا ہے جو معاشرتی، معاشی اور تکنیکی مسائل کے عملی حل فراہم کرتے ہیں، پالیسیوں کو بہتر بناتے ہیں اور سماج کو ترقی کی نئی سمت دیتے ہیں۔ اس عمل سے پیدا ہونے والا علم نہ صرف آئندہ نسلوں تک منتقل ہوتا ہے بلکہ ایسا مستند علمی سرمایہ بھی فراہم کرتا ہے جو دنیا بھر کے محققین، اداروں اور پالیسی سازوں کے لیے قابلِ استفادہ ہے۔ یہی وہ پہلو ہے جو پی ایچ ڈی کو محض ذاتی کامیابی سے آگے بڑھا کر ایک عالمی علمی ورثہ بناتا ہے۔
آج دنیا کی عظیم سائنسی و تکنیکی پیش رفتیں، جیسے mRNA ویکسینز، CRISPR جین ایڈیٹنگ، نیورل نیٹ ورک ماڈلز، کوانٹم کمپیوٹنگ اور کلائمٹ ڈیٹا ماڈلنگ، درحقیقت پی ایچ ڈی سطح کی تحقیق اور طویل مدتی مطالعے کا نتیجہ ہیں۔ مصنوعی ذہانت خود اُن ہی محققین کی کاوشوں سے وجود میں آئی جنہوں نے دہائیوں تک مشین لرننگ، نیوروسائنس اور کمپیوٹیشنل تھیوری پر تحقیق کی۔ DeepMind، OpenAI، Google Brain اور Anthropic جیسے ادارے انہی PhD-trained ریسرچرز کی بنیاد ہیں جنہوں نے جدید الگورتھمز، ڈیپ لرننگ آرکیٹیکچر اور AI پالیسیوں کی تشکیل میں بنیادی کردار ادا کیا۔
اہم بات یہ ہے کہ سائنسدان اور محققین نوبل انعام کے لیے نہیں بلکہ انسانیت کی خدمت، علم کے فروغ اور مستقبل کے چیلنجز کے حل کے لیے کام کرتے ہیں۔ نوبل پرائز محض ایک اعترافِ خدمت ہے، مقصد نہیں۔ دنیا کی انقلابی ایجادات ان ہی خاموش محققین کی برسوں کی محنت اور قربانیوں کا نتیجہ ہیں جنہوں نے شہرت کے بغیر، انسانیت کی بہتری کے لیے علم کو اپنی زندگی کا محور بنایا۔ یہی جذبہ کسی قوم کو ترقی یافتہ، باوقار اور علم دوست بناتا ہے۔
یہ دلیل اکثر دی جاتی ہے کہ امریکا میں گریجویشن کے بعد ہی عملی زندگی شروع ہو جاتی ہےاس لیے وہاں اعلیٰ تعلیم غیر ضروری سمجھی جاتی ہے یہ تاثر حقیقت کا صرف ایک رخ پیش کرتا ہے۔ امریکی نیشنل سائنس فاؤنڈیشن (NSF) کی رپورٹ Survey of Earned Doctorates 2020 کے مطابق، صرف 2020 میں امریکی جامعات نے 55,283 تحقیقی ڈاکٹریٹ ڈگریاں عطا کیں جن میں اکثریت کا تعلق سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اور ریاضی (STEM) کے شعبوں سے تھا۔ ان میں سے تقریباً 62 فیصد ڈگریاں امریکی شہریوں اور مستقل رہائشیوں کو دی گئیں جو اس بات کا ثبوت ہے کہ امریکا کا تحقیقی نظام نہ صرف اپنے شہریوں بلکہ بین الاقوامی محققین کے لیے بھی پُرکشش ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اعلیٰ تعلیم محض سند نہیں بلکہ مہارت، تحقیق اور تخلیقی صلاحیتوں کا وہ امتزاج ہے جو جدید ٹیکنالوجی اور انسانی ترقی کی بنیاد بنتا ہے۔ اس کے برعکس، پاکستان میں پی ایچ ڈی کی صورتحال تشویشناک رخ اختیار کر چکی ہے۔ ایکسپریس ٹریبیون کی رپورٹ "PhD in Peril" (ستمبر 2024) کے مطابق، گزشتہ تین برسوں سے ملک میں ہر سال اوسطاً 3,000 طلبہ پی ایچ ڈی مکمل کر رہے ہیں۔ تاہم، فنڈز کی کمی، بڑھتی ہوئی فیسوں، تحقیقی منصوبوں کے تعطل اور برین ڈرین کے بڑھتے رجحان نے اعلیٰ تعلیم کی ترقی کو شدید حد تک سست کر دیا ہے۔
سوال یہ ہے کہ امریکہ کو وہ کون سا جذبہ محرک کرتا ہے جو اسے دنیا بھر کے باصلاحیت دماغوں کو خوش آمدید کہنے پر آمادہ رکھتا ہے؟ کیا واقعی درمیانی تعلیم یافتہ افراد (Middle-Pass) وہاں اعلیٰ تحقیقی سرگرمیوں میں مصروف ہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ نہیں۔ امریکی نظام کی اصل طاقت یہ ہے کہ وہ دنیا بھر سے ذہانتوں کو موقع دیتا ہے مگر کامیابی انہی کے حصے میں آتی ہے جو علم، مہارت اور تحقیقی وژن رکھتے ہیں۔ میساچوسٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (MIT) اور اسٹینفورڈ یونیورسٹی نے مصنوعی ذہانت، کوانٹم کمپیوٹنگ اور حیاتیاتی سائنس میں نمایاں تحقیقی پیش رفت کی ہے۔ لارنس برکلی نیشنل لیبارٹری، لاس ایلاموس، ناسا جیٹ پروپلشن لیبارٹری (JPL) اور اوک رِج نیشنل لیبارٹری جیسے ادارے قابلِ تجدید توانائی، خلائی تحقیق اور جینیاتی سائنس کے میدان میں عالمی رہنمائی کر رہے ہیں۔ ہارورڈ اسٹیم سیل انسٹیٹیوٹ نے ری جینیریٹو میڈیسن میں انقلابی تحقیقات کیں، جبکہ آرگون اور بروکہیون نیشنل لیبارٹریز نے نینو ٹیکنالوجی اور صاف توانائی کے شعبوں میں نئی راہیں متعین کیں۔ نجی ادارے جیسے Google DeepMind، OpenAI اور Anthropic نے مصنوعی ذہانت اور مشین لرننگ میں ایسے سنگِ میل قائم کیے جنہوں نے جدید دنیا کی سائنسی سمت بدل دی۔ یہی تحقیقی مراکز آج امریکہ کو عالمی سائنسی قیادت کے مقام پر فائز رکھتے ہیں۔
یہ کہنا کہ "ہمارے پی ایچ ڈی دو انگریزی کی سطریں نہیں لکھ سکتے" دراصل علم کی قدر کو زبان سے مشروط کرنا ہےحالانکہ علم کا تعلق زبان سے نہیں بلکہ سوچ، تجزیے اور تخلیق سے ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی تحقیق آج چین میں ہو رہی ہے وہ ملک جو دنیا بھر میں تحقیق و ترقی (R&D) پر سب سے زیادہ سرمایہ خرچ کر رہا ہے مگر اپنی زبان میں لکھتا، سوچتا اور دنیا کی جدید ترین سائنسی و تکنیکی تحریروں کو ترجمہ ایپس کے ذریعے اپنی قوم کے لیے قابلِ فہم بناتا ہے۔ چین نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ علم کسی ایک زبان یا تہذیب کی جاگیر نہیں بلکہ جس کے پاس وژن اور تحقیقی استقلال ہو قیادت اسی کے حصے میں آتی ہے۔
وقت کی ضرورت ہے کہ ہم بھی زبان کو ذہانت کا پیمانہ سمجھنے کے احساسِ کمتری سے نکلیں اور یہ مان لیں کہ اصل طاقت فکر، وژن اور تخلیقی صلاحیت میں ہے۔ اگر کسی کے پاس تعلیمی اصلاحات یا معیارِ تحقیق بہتر بنانے کے مؤثر منصوبے یا خیالات موجود ہیں تو بہتر ہوگا کہ وہ باقاعدہ طور پر پلیجیرزم چیک کرنے والی مستند کمپنیوں جیسے Turnitin وغیرہ سے رابطہ کرے ممکن ہے تحقیق کے معیار اور اعلیٰ تعلیم کے نظام میں حقیقی بہتری لائی جا سکے۔ پی ایچ ڈی کا مقصد انگریزی لکھنا نہیں بلکہ نیا علم تخلیق کرنا ہے وہ علم جو انسانیت، سماج اور ٹیکنالوجی کے مستقبل کو بہتر بنائے۔
یہ کہنا کہ پاکستان کی جامعات قرونِ وسطیٰ کے نصاب پر قائم ہیں اور وہاں سیکھنے کا عمل محض رسمی نوعیت کا ہے، دراصل زمینی حقائق کے برعکس ہے۔ ہمارے اعلیٰ تعلیمی ادارےخصوصاً سرکاری جامعات، اپنے نصاب کو باقاعدگی سے بین الاقوامی معیار کے مطابق اپڈیٹ کرتی ہیں اور تحقیق و تدریس میں جدید تقاضوں کو شامل کرتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے فارغ التحصیل طلبہ آج دنیا کی نامور جامعات میں پی ایچ ڈی، پوسٹ ڈاک اور تحقیقی مناصب پر کامیابی سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔ اگر ہمارے تعلیمی اداروں کا نصاب واقعی فرسودہ ہوتا تو یہ طلبہ عالمی تحقیق میں نمایاں مقام حاصل نہ کر پاتے۔ لہٰذا یہ کہنا کہ ہماری جامعات صرف نوٹس دہرانے یا رسمی تدریس تک محدود ہیں محض ایک جذباتی تاثر ہے حقیقت یہ ہے کہ محدود وسائل کے باوجود پاکستان کی کئی جامعات عالمی معیار کی تحقیق میں فعال کردار ادا کر رہی ہیں۔
پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کا سفر سست رفتاری کے باوجود تسلسل سے آگے بڑھ رہا ہے۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن (HEC) کے قیام سے قبل 2002 تک ملک میں پی ایچ ڈی ہولڈرز کی تعداد صرف 3,298 تھی جو 2019–2020 کی رپورٹ کے مطابق بڑھ کر 20,190 تک پہنچ گئی۔ بعد ازاں 2021 سے 2025 کے دوران اوسطاً ہر سال تقریباً 3,000 نئی پی ایچ ڈیز مکمل ہوئیں جس سے مجموعی تعداد 2025 تک تقریباً 35,000 کے قریب ہو چکی ہے۔ ان میں سے لگ بھگ 70 تا 75 فیصد محققین ملکی جامعات اور تحقیقی اداروں میں تدریسی و تحقیقی فرائض انجام دے رہے ہیں۔
اسٹینفورڈ یونیورسٹی اور ایلسویئر کی رپورٹ "Worlds Top 2% Scientists" 2025کے مطابق، عالمی سطح پر نمایاں سائنس دانوں میں 943 پاکستانی محققین بھی شامل ہیں جنہیں ان کی علمی اشاعتوں، تحقیقی اثرات اور بین الاقوامی سائنسی خدمات کی بنیاد پر تسلیم کیا گیا۔ یہ ماہرین انجینئرنگ، میڈیکل سائنسز، فزکس، بایوٹیکنالوجی اور سوشل سائنسز سمیت مختلف شعبوں سے تعلق رکھتے ہیں جو اس بات کا ثبوت ہےکہ پاکستان کا علمی و تحقیقی ڈھانچہ، فنڈنگ اور انفراسٹرکچر کے مسائل کے باوجود عالمی تحقیق میں اپنا حصہ ڈال رہا ہے۔ تاہم، پائیدار ترقی کے لیے ضروری ہے کہ فنڈنگ، پالیسی سازی اور تحقیقی اداروں میں ساختی اصلاحات کو ترجیح دی جائے تاکہ یہ علمی پیش رفت حقیقی قومی ترقی میں تبدیل ہو سکے۔
یہ تاثر عام ہے کہ "پاکستان میں تحقیق یا ایجاد نہیں ہوتی" یہ بات مکمل طور پر درست نہیں۔ تحقیق اور اختراع (Research & Innovation) کے معاملے میں اصل مسئلہ تعلیمی معیار سے زیادہ ادارہ جاتی کمزوری کا ہے۔ یونیورسٹیوں کا بنیادی فریضہ تحقیق کرنا ہے جبکہ تحقیقی نتائج کی اشاعت اور اختراعات کو تحفظ دینے کے لیے مختلف ادارے کام کر رہے ہیں۔ تحقیقی نتائج کی اشاعت کے لیے دنیا بھر میں ہزاروں جرائد (Journals) موجود ہیں جو مختلف علمی و سائنسی شعبوں میں تحقیق کو پرکھنے، شائع کرنے اور عالمی سطح پر قابلِ رسائی بنانے کا کام انجام دیتے ہیں۔ محقق اپنا تحقیقی مقالہ ایک ڈیجیٹل پلیٹ فارم کے ذریعے جمع کراتا ہے جہاں ایڈیٹر ابتدائی جانچ کے بعد اسے متعلقہ ماہرین کے Peer Review کے لیے بھیجتا ہے۔ منظوری کے بعد مقالے کو عالمی ڈیٹا بیسز میں شامل کیا جاتا ہے یوں ایک تحقیق مقامی سطح سے نکل کر عالمی علمی برادری تک رسائی حاصل کرتی ہے۔
اگر کوئی جرنل مقالہ مسترد کرے تو عموماً پبلشر "Journal Transfer Option"کے ذریعے اسے متعلقہ دوسرے جرنل میں منتقل کرنے کی سہولت دیتا ہے تاکہ محقق دوبارہ پورا عمل شروع کیے بغیر ترمیم شدہ مقالہ جمع کر سکے۔ اس نظام کی خوبصورتی یہی ہے کہ یہ ڈیجیٹل، شفاف اور میرٹ پر مبنی ہے اس میں کسی دفتر کے چکر، سفارش یا ایجنٹ کی فیس کی ضرورت نہیں پڑتی۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستانی محققین نے اسی عالمی نظام کے تحت 1996 سے 2024 کے درمیان 3,71,531 سے زائد تحقیقی مقالے بین الاقوامی جرائد میں شائع کیے۔ مزید یہ کہ سن 2022 کے بعد سے یہ تعداد بڑھ کر تقریباً 40,000 تحقیقی مقالے سالانہ تک پہنچ چکی ہے۔ اس وقت پاکستان دنیا کے 236ممالک میں تحقیقی اشاعتوں کے لحاظ سے 26ویں نمبر پر ہےجو اس کی علمی کاوشوں اور سائنسی استعداد کی بڑھتی ہوئی عالمی شناخت کا ثبوت ہے۔ (ماخذ: Scimagojr.com)
دوسری طرف، اختراعات کو قانونی تحفظ فراہم کرنے کے لیے دنیا بھر میں مخصوص سرکاری ادارے کام کرتے ہیں جیسے امریکہ میں USPTO، چین میں CNIPA اور یورپ میں EPO. پاکستان میں یہ ذمہ داری آئی پی او پاکستان (IPO Pakistan) کے ذمے ہے جو پیٹنٹس کے تحفظ کا سرکاری ادارہ ہے۔ تاہم، اس کا نظام کمزور اور غیر ڈیجیٹل ہے جہاں ایگزامنرز کی تعداد محدود ہے اور ان کی تربیت جدید سائنسی و تکنیکی تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں۔ زیادہ تر ممتحن قانون یا بنیادی سائنسز کے پس منظر سے تعلق رکھتے ہیں جس کے باعث وہ انجینئرنگ، میڈیکل یا ٹیکنالوجی سے متعلق اختراعات کا درست تجزیہ نہیں کر پاتے۔ نتیجتاً، پیٹنٹ درخواستیں اکثر مبہم اعتراضات، غیر ضروری ریویژن اور طویل تاخیر کا شکار رہتی ہیں جو اختراع کے فروغ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔
گزشتہ دو دہائیوں میں پاکستانی جامعات اور اداروں نے ہزاروں پیٹنٹ درخواستیں جمع کروائیں، مگر ان میں سے محض چند سو ہی منظور ہو سکیں۔ اکثر محققین کو معمولی لسانی یا تکنیکی اعتراضات پر بار بار غیر ضروری ریویژن کے چکر میں ڈال دیا جاتا ہے ان کی درخواستیں برسوں زیرِ التوا رہتی ہیں اور اختراعی توانائیاں فائل ورک میں ضائع ہو جاتی ہیں۔ اس نظام میں اب بھی زیادہ تر کارروائیاں غیر ڈیجیٹل ہیں درخواستیں ڈاک کے ذریعے جمع کرائی جاتی ہیں جوابات ہفتوں یا مہینوں بعد موصول ہوتے ہیں اور محققین کو صرف ایک سادہ وضاحت کے لیے بھی دفتر کے چکر کاٹنے پڑتے ہیں۔ یہ عمل جدید تحقیقی رفتار سے مطابقت نہیں رکھتا۔ اگر پاکستان واقعی علم پر مبنی معیشت کی طرف بڑھنا چاہتا ہے تو IPO پاکستان کی ساختی اصلاح ہونا چاہیے۔ اسے مکمل ڈیجیٹلائز کیا جائے، بین الاقوامی معیار کے پیٹنٹ ڈرافٹنگ اور ایویلیوایشن کورسز متعارف کروائے جائیں اور جامعات و IPO کے درمیان براہِ راست رابطہ نظام (University–IPO Interface) قائم کیا جائے۔ تبھی یہ تاثر مٹایا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں تحقیق نہیں ہوتی کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ تحقیق تو ہو رہی ہےمگر نظام اسے پہچان نہیں دے رہا۔
"ڈگریاں پیٹ نہیں بھرتیں" یہ بات پاکستان کے تناظر میں درست ہے مگر دنیا بھر کے لیے اسے کلی اصول سمجھنا صحیح نہیں۔ چین کی مثال سامنے ہے، جہاں یونیورسٹیوں کے ساتھ ساتھ تحقیق کے باقاعدہ ادارے قائم کیے گئے ہیں جن میں اساتذہ اور محققین کو فنڈنگ، سہولیات، جدید لیبارٹریاں اور اپنی صلاحیتیں آزمانے کے ساتھ عالمی معیار کی تحقیق کے مواقع میسر آتے ہیں۔ چینی تحقیق صرف مقالوں تک محدود نہیں رہتی بلکہ صنعت کے ساتھ جوڑ دی جاتی ہے۔ محققین اپنی ٹیموں کے ساتھ کمپنیوں کے تعاون سے "میڈ اِن چائنا" مصنوعات کو بازار تک پہنچاتے ہیں۔ اس طرح وہ نہ صرف اپنا روزگار کماتے ہیں بلکہ ہزاروں لوگوں کے لیے روزگار پیدا کرتے ہیں اور اُن کی مصنوعات دنیا بھر میں فروخت ہو کر ملک و قوم کا وقار بلند کرتی ہیں۔ یہ سب کچھ منظم طریقۂ کار، پالیسی سازی اور R&D پر مبنی ڈھانچے کی دستیابی کی وجہ سے ممکن ہوا ہے۔ اس کے برعکس، پاکستان میں منظم نظام اور تحقیق تک مؤثر رسائی کی کمی کے باعث بہت سے اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد اپنی ڈگریاں مکمل کرنے کے باوجود بیرونِ ملک جانے پر مجبور ہیں تاکہ وہ اپنے مستقبل کے خواب کو حقیقت میں بدل سکیں۔
پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈیولپمنٹ اکنامکس (PIDE) کی رپورٹ "Situation of Brain Drain in Pakistan (2023)"کے مطابق، سال 2022 میں تقریباً 8,32,339 پاکستانی روزگار کے حصول کے لیے بیرونِ ملک گئے، جن میں 92 ہزار سے زائد گریجویٹس اور ساڑھے تین لاکھ سے زیادہ تربیت یافتہ کارکنان شامل تھے یعنی وہی طبقہ جو ملک کی تحقیق، صنعت اور ترقی میں کلیدی کردار ادا کر سکتا تھا۔ یہ اعداد و شواہد واضح کرتے ہیں کہ مسئلہ صرف ڈگری حاصل کرنے کا نہیں بلکہ ڈگری کے بعد کے مرحلے کا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ تحقیق کو صنعت سے جوڑا جائے، فنڈنگ اور تحقیق کے بہتر مواقع فراہم کیے جائیں اور فیصلے علم، تحقیق اور میرٹ کی بنیاد پر کیے جائیں۔ اسی طرح تعلیم یافتہ لوگ ملک کی ترقی میں حقیقی کردار ادا کر سکتے ہیں، بجائے اس کے کہ بہتر مستقبل کی تلاش میں وطن چھوڑنے پر مجبور ہوں۔
دنیا بھر خصوصاً چین، امریکہ اور یورپی ممالک میں مصنوعی ذہانت کو تعلیم، صحت، معیشت، انجینئرنگ، زراعت اور پالیسی سازی جیسے مختلف شعبوں میں عالمی علمی و تحقیقی ڈیٹا بیسز سے جوڑ کر استعمال کیا جا رہا ہے تاکہ ماہرین کو درست، بروقت اورمستند ڈیٹا پر مبنی معلومات حاصل ہوں۔ اس سے تحقیق، تجزیہ اور فیصلہ سازی کے عمل کو زیادہ مؤثر، شفاف اور عالمی معیار کے مطابق بنایا جا رہا ہے۔ مثال کے طور پر جدید اسپتال اور تحقیقی ادارے AI کو عالمی میڈیکل ڈیٹا بیسز جیسے PubMed، WHO Health Data اور ClinicalTrials.gov سے جوڑ کر استعمال کر رہے ہیں تاکہ علاج اور تحقیق کے فیصلے سائنسی شواہد کی بنیاد پر کیے جا سکیں۔ یہ نظام لاکھوں مریضوں کے کیسز، لیبارٹری نتائج، ایمیجنگ رپورٹس (CT، MRI، X-ray) اور جینیاتی ڈیٹا کا تجزیہ کرکے ڈاکٹرز اور ماہرین کو فوری اور درست معلومات فراہم کرتا ہے۔ متعدد اسپتالوں میں AI پر مبنی روبوٹک سرجری سسٹمز بھی کامیابی سے استعمال ہو رہے ہیں جو پیچیدہ آپریشنز میں انسانی غلطیوں کے امکانات کو نمایاں طور پر کم کر دیتے ہیں۔ یوں مصنوعی ذہانت محض ایک ٹیکنالوجی نہیں بلکہ ایک"طبی ذہانت"کی صورت اختیار کر چکی ہے جو انسانی تجربے، سائنسی تحقیق اور عالمی علم کو یکجا کرکے صحت کے نظام کو زیادہ تیز، درست اور قابلِ اعتماد بنا رہی ہے۔
اب کچھ ایسے شعبے بھی اُبھر آئے ہیں جن میں بنیادی تعلیم کی بھی ضرورت نہیں رہی صرف "اے آئی" ہی کافی سمجھی جاتی ہے۔ ان میں سوشل میڈیا پر جھوٹی خبریں گھڑنا، فرضی کہانیاں لکھنا، یوٹیوبنگ اور جعلی ویڈیوز بنانا شامل ہیں۔ روزانہ ایسی درجنوں ویڈیوز بنتی ہیں جن کا حقیقت سے تعلق ہوتا ہے نہ کسی محنت یا تحقیق کی جھلک۔ بس چمک دمک، سنسنی اور مشہوری کے لیے مواد تیار کر لیا جاتا ہے چاہے وہ سچ کے بالکل برعکس ہی کیوں نہ ہو۔ یہ لوگ تب تک کامیاب ہیں جب تک ناظرین اپنا قیمتی وقت ان کے لیے ضائع کرنے پر آمادہ ہیں۔ جیسے ہی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی پالیسیاں بدلیں گی فیک مواد، جھوٹی خبریں اور بے بنیاد ویڈیوز پھیلانے والوں کا وجود خود بخود مٹ جائے گا کیونکہ ان کی کامیابی کا انحصار صرف اس غیر سنجیدہ توجہ پر ہے جو ناظرین انہیں دیتے ہیں۔
اب آتے ہیں اس بات کی طرف کہ مشورہ کس سے لیا جانا چاہیے۔ ایک عرصہ پہلے مجھے ایک ممتاز پاکستانی سائنسدان کا انٹرویو سننے کا موقع ملاجو پاکستان کے ایٹمی توانائی پروگرام میں نمایاں خدمات سرانجام دے چکے ہیں۔ ان کی گراں قدر خدمات کے اعتراف میں انہیں ستارۂ امتیاز سے بھی نوازا گیا۔ انٹرویو میں وہ بتاتے ہیں کہ ان کے والد ہمیشہ چاہتے تھے کہ وہ زندگی میں کوئی بڑا کام کریں۔ میٹرک کے امتحان میں کامیابی کے بعد ان کے والد نے چاہا کہ مستقبل کے تعلیمی راستے کے لیے کسی قابلِ اعتماد شخص سے مشورہ کیا جائے چنانچہ وہ انہیں اپنے ایک دوست کے پاس لے گئے۔ اس دوست نے انہیں پٹواری بننے کا مشورہ دیا۔ یہ بات ان کے والد صاحب کو ناگوار گزری۔ شاید ان کے مطابق مشورہ دینے والے کو چاہیے کہ وہ بلند خیال ہو اور بڑے مقاصد کا خواب دکھائے بالکل ویسا ہی جیسے اقبال نے کہا:
نگہ بلند سخن دل نواز جاں پرسوز
یہی ہے رخت سفر میر کارواں کے لیے
چند روز قبل چین کے شہر چنگدو میں ایک پاکستانی ریسٹورنٹ جانے کا اتفاق ہوا جہاں ایک نہایت دل گرفتہ منظر دیکھنے کو ملا۔ پاکستان سے آئے تقریباً 75–70سالہ ضعیف والدین اپنے بیٹے کے علاج کے لیے وہاں مقیم تھے۔ گفتگو کے دوران معلوم ہوا کہ ان کا بیٹا ایک پیچیدہ بیماری میں مبتلا ہے جس کا علاج پاکستان میں ممکن نہیں۔ وہ اس سے قبل تین سے چار مرتبہ بھارت جا کر علاج کروا چکے تھےمگر موجودہ سیاسی حالات کے باعث ویزا نہ مل سکا اس لیے اب چین آئے ہیں۔ بیمار بیٹے کے پاس بیٹھے اُن بزرگ والدین کو دیکھ کر دل بھر آیا۔ ذہن میں ایک ہی سوال گونجا آخر کیوں ہمارے ملک میں ایسی سہولتیں یا قابل ڈاکٹر موجود نہیں کہ لوگ اپنا علاج اپنے ہی وطن میں کروا سکیں؟ ابھی یہ خیال مکمل بھی نہ ہوا تھا کہ دل نے جواب دیا "ہمارے دانشور نئی نسل کو اعلیٰ تعلیم نہیں، صرف اے آئی سکھانے پر زور دے رہے ہیں"۔

