Tuesday, 16 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Ali Akbar Natiq/
  4. Shehar e Namrood

Shehar e Namrood

شہر ِنمرود

دوستو چلیےآج آپ کو نمرود کے اُس شہر لیے چلتے ہیں، جس کی آبادی اُس وقت 10 لاکھ تھی۔ نمرود کا اصلی نام بخت نُصر تھا۔ مَیں آپ سے پہلے کہا چکا ہوں ایک کنارے پر بال تھا تو دوسرے کنارے پر نمرود کا شہر تھا۔ اور یہ شہر بابل سے کوئی دو ہزار سال پرانا ہے۔ ابھی تک اِس کے کھنڈرات کم از کم تین مربع میل تک پھیلے ہوئے ہیں اور اُس سے آگے چھوٹی چھوٹی بستیاں ہین اور نخلستان ہیں۔ ان بستیوں کا ذریعہ معاش آج بھی زراعت ہے جنھیں پانی سے سیراب وہی نہریں کرتی ہیں جو فرات سے کاتی گئی ہیں۔ یہ بستیاں آج بھی بہت پرانی لگتی ہیں اور بہت زیادہ خموش اور ٹھہری ہوئی معلوم ہوتی ہیں۔ مگر آپ اُس وقت محسوس کر سکیں گے جب معمول کے راستوں سے ہٹ کر پیدل اِن بستیوں میں نکلو گے۔

نمردو کے شہر میں آج صرف دو چیزیں بچی ہیں۔ ایک وہ معبد کا کھنڈر جس کے صحن میں لکڑیاں جمع کر کے آگ جلائی تھی اور اُس میں ابراہیمؑ کو پھینکا گیا تھا اور دوسرا وہ مقام جہاں سے ابراہیمؑ کو مجنیق پر بٹھا کراِس آگ میں پھینکا گیا تھا۔ یہ وہی معبد تھا جس کے بت ابراہیمؑ نے توڑے تھے۔ مجھے حیرت ہے اتنے بڑے بڑے بت ابراہیمؑ نے ایک کلہاڑے سے کیسے توڑ دیے۔ اب یہ کہ ابراہیمؑ وہاں سے کیسے نکلے، یہ تو مَیں نہیں جانتا مگر اُس آگ نے معبد کی اینٹوں کو مکمل طور پر جلا کر رکھ دیا ہے۔ آگ سے پگھل پگھل کر وہ اینٹیں کوئلہ کے طرح گویا جلے ہوئے بڑے بڑے پتھر بن گئے ہیں۔ دو اونچے اونچے برج ابھی بھی موجود ہیں جن کی اینٹیں جلنے سے بچ گئی ہیں۔

مجھے معبد کے کھنڈر میں نالیوں کی شکل کے جگہ جگہ سوراخ نظر آئے۔ یہ سوراخ پوری عمارت میں ایک مناسب فاصلے پر موجود ہیں، خدا جانے یہ سوراخ ہوا کے لیے رکھے گئے ہیں یا روشنی کے لئے۔ سوراخ گویا نو اینچ قطر کے بِل ہیں۔ یہ بہت بڑا معبد تھا جس کے ارد گرد ہزاروں ہی چھوٹے چھوٹے معبدوں کے کمرے تھے جن کی دیواریں ٹوٹ پھوٹ کر اب صرف کھنڈر بن گئی ہیں۔ اِن معبدوں میں حسین لڑکیاں اُن کے دیوتاوں کو خوش کرنے، اُنھیں رقص کر کے دکھانے کے لیے موجود رہتی تھی۔ اور جو معبدوں کے متولی تھے اُن کے مل کر دیوتاوں کی راتیں رنگیں کرتی تھیں۔

مَیں اِس معبد کے صحن میں کافی دیر بیٹھا رہا۔ اینٹوں کی لمبائی چوڑائی ایک فٹ ہے اور موٹی ساڑھے تین اینچ ہیں۔ یہ بھورے رنگ کی انٹیں نہایت پکی ہوئی ہیں۔ اور خوبصورت ہیں۔ عراق کی آگ میں پکنے کے بعد یا بھورے رنگ کی ہو جاتی ہے یا ہلکی زرد، سُرخ بالکل نہیں ہوتی جیسی کہ ہمارے ہاں کی اینٹ ہوتی ہے۔

معاملہ در اصل یہ ہے کہ ابراہیمؑ اِس شہر کا نہیں تھا اور نہ وہ پندرہ سال کا بچہ تھا جیسا کہ ہماری اسلامیات میں بتایاگیا ہے۔ اور نہ اُس کا باپ آذر تھا۔ ابراہیمؑ یہاں سے تین سو میل دور ایک شہر اُر میں پیدا ہوا۔ یہ شہر عراق کے شمال کی طرف ایک بستی تھی۔ یہیں پر ابراہیمؑ جوان ہوا۔ ابراہیمؑ کے والد کا نام تارح تھا۔ دونوں باپ بیٹا اپنے گاوں سے چلتے ہوئے اِس شہر میں آئے اور باقاعدہ تبلیغ کے لیے آئے تھے۔ وہ یہاں ایک مکان میں رہنے لگے اور اُن کو شہر میں مکان دلوانے میں آذر نے ذمہ داری لی۔ یہ آذر ابراہیمؑ کے والد تارح کا دوست بن گیا۔ چونکہ آذر نمرود کے شہر میں ایک معزز حیثیت پر تھا۔ اور اکثر بادشاہ کے دربار میں بلایا جاتا تھا اور تارح اور ابراہیمؑ کا ضامن تھا، ضامن کو اُس دور میں عبرانی زبان میں ابً کہا جاتا تھا۔

اِس لیے قرآن نے اِس کے لیے آذر کے لیے ابراہیمؑ کے واسطے سے ابً کا لفظ کہا ہے، جسے غلطی سے لوگوں نے آذر کو ابراہیمؑ کا باپ سجھ لیا۔ ابراہیمؑ نے جب یہاں تبلیغ کا سلسلہ شروع کیا تو سب سے پہلے آذر ہی اُن کے خلاف ہوا۔ چونکہ یہاں اُن کی اپنی حیثیت خطرے سے دوچار ہو گئی تھی۔ یہ آذر اُسی بڑے معبد کے نگرانوں میں سے بھی تھا جس میں بذاتِ خود بادشاہ آ کر بھی عبادت کرتا تھا۔ اور ابراہیمؑ نے اِسی بڑے معبد پر ہاتھ ڈالا تھا۔ یہ جو روایت مشہور ہے کہ شہر کے سب لوگ میلے پر چلے گئے تھے اور ابراہیمؑ نے پیچھے سے بتوں کو توڑ ڈالا۔ یہ بالکل غلط روایت ہے۔ اول تو اتنے بڑے شہر کے تمام افراد کا میلے پر چلے جانا اور شہر خالی کر دینا ممکن نہیں۔ پھر اگر وہ میلے پر گئے بھی چلے تھے تو معبد کے نگران تو وہیں موجود تھے۔

در اصل ایسا کچھ معاملہ نہیں تھا، ابراہیمؑ اِنھی بتوں کے خلاف شب و روز باتیں کیا کرتے تھے جو شہر کے لوگوں اور خاص کر بادشاہ کو اچھی نہیں لگیں البتہ یہ ضرور ہے کہ بتوں کے بڑے بڑے سر موجود ہیں۔ پھر ایک دن اِنھی بتوں کی توہین کے معاملے میں ابراہیمؑ کو جلا دینے کی سزا تجویز ہوئی۔ جس مین آذر ہی نے برھ چڑھ کر حصہ لیا لیکن خدا نے ابراہیمؑ اور اُس کے والد تارح کو بچا لیا اور وہ دونوں باپ بیٹا وہاں سے چل کر پہلے کوفہ آ گئے جو یہاں سے پچاس کلو میٹر ہے اور جہاں آج مسجد سحلہ ہے اُس کے پاس رہنے لگے۔ کوفہ کی مسجد سحلہ میں آج بھی ابراہیمؑ کا جائے مقام موجود ہے۔ یہ مسجد سحلہ در اصل ادریس علیہ السلام کا گھر تھا۔ آج کل قبیلہ بنی تمیم اِسی مسجد کے آس پاس بستا ہے۔ پھرابراہیمؑ یہاں سے شام کی طرف نکل گئے۔

جہاں معبد موجود ہے اِس بلند ٹیلے پر ہوائیں بہت تیز اور ٹھنڈی چلتی ہیں۔ اور زیادہ دیر بندے سے وہاں ٹھہرا نہیں جاتا۔ اِسی نمرود کے شہر کو جاتے ہوئے راستے میں ایک مقام پر بکر بن علی کا روضہ ہے۔ یہ حضرت علی کے ایک بیٹے تھے جو کربلا میں شہید ہوئے اور اُن کے سسرال والوں نے اُن کی نعش کو یہاں لا کر دفن کر دیا۔

نمرود کے شہر کو جاتے ہوئے کئی مقام ایسے آئے جنھیں مَیں تھری ڈی میں اگر لاسکا سکتا تو آپ دیدہ حیرت سے دیکھتے۔ عراقیوں کے ساتھ سب سے بڑا جو ظلم ہوا ہے وہ یہ کہ اِن کے آثار قدیمہ کی ہر شے برطانیہ چوری کر کر لے گیا ہے۔ یہ تب کی بات ہے جب اُس نے عراق کے اندر اپنی فوجیں داخل کیں اور ہٹلر سے لڑ رہا تھا۔ اُس نے باقیات کو محفوظ کرنے کے بہانے باقیات کو چوری کیا۔ یہاں کی کھجوریں بہت لمبی اور میٹھی ہیں۔ اُن سے یہ لوگ شکر بناتے ہیں۔ نہروں کا پانی اتنا صاف ہے کہ وہ سبز نظر آتا ہے۔ یہاں کی نوے فیصد آبادی شیعہ ہے۔ جو دس فیصد سُنی ہیں وہ بھی زیادہ سُنی نہیں بلکہ ملے جلے سے ہیں اور متعصب نہیں ہیں۔

Check Also

Iran Ka Israel Par Hamla Aur Islami Block

By Najeeb ur Rehman