Wednesday, 24 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Ali Akbar Natiq
  4. Qasr e Bani Maqatil Aur Ain Ul Tamar Ki Dilchasp Rudad

Qasr e Bani Maqatil Aur Ain Ul Tamar Ki Dilchasp Rudad

قصر بنی مقاتل اور عین التمر کی دلچسپ روداد

کل صبح مولا حسینؑ اور اُن کے علمدار اور اعوان و انصار کے در پر حاضری دینے کے بعد مَیں نے الشیخ کرم حیدری صاحب کو ساتھ لیا۔ شیخ صاحب میرے محبت کرنے والے ہیں۔ اُن سے عرض کی آپ مولا عباس کے حرم کی مستقل نوکری میں ہیں۔ ہمارے ساتھ قصرِ بنی مقاتل اور عین التمر تک چلیں تاکہ راستے میں پولیس چوکیوں میں اپنی عربی دانی اور نوکری کے وسیلے سے راستے صاف کرتے جائیں۔ میرے لیے سب سے اہم بات یہ ہے کہ مَیں اُن ریت کے ٹیلوں اور پتھر کنکر سے لمس لینا چاہتا ہوں جہاں سے خدا جانے میرے مولا کے قدم نکل گئے ہوں اور اُن میں سے کوئی کنکر یا ریت کا ذرہ شاید مجھ فقیر و گدا سے چھو جائے۔ مَیں نے دوپہر کا کھانا ترک کیا۔ حیدری صاحب نے راستے سے بہت سا پھل اور لسی کا ایک کارٹن گاڑی میں رکھوا لیا جسے تمام رستے کھاتا پیتا گیا۔

اِن دو مقامات کی اہمیت کچھ یوں ہے کہ اِن میں سے قصرِ بنی مقاتل تو وہ مقام ہے جہاں میرے مولا نے کربلا سے پہلے آخری منزل کی تھی اور نمازِ شب کے بعد یہاں سے رخصت ہوئے، تھوڑی دیر قطقطانہ میں رحلت کی اور دو محرم کو کربلا پہنچ گئے۔ قصرِ بنی مقاتل کربلا سے جنوب کی طرف ستر کلومیٹر پر واقع ہے۔ یہاں حضرت امام حسینؑ نے عذیب الہجانات کے بعد پڑاؤ ڈالا۔ اِسی جگہ پر امامؑ کو خبر ہوئی کی قریب ہی عبید اللہ بن حر جعفی اور عمرو بن قیس مشرقی نے اپنا خیمہ لگایا ہوا ہے۔ امامؑ نے انہیں اپنے ساتھ ملحق ہونے کا پیغام بھیجا مگر وہ امامؑ کی خدمت میں حاضر نہیں ہوا اور کہلا بھیجا کہ مَیں کوفہ سے اِسی خوف کے سبب بھاگا تھا کہ کہیں آپ سے میرا سامنا نہ ہو جائے۔

اِس کے بعد امام خود چل کر اُس کے خیمے تک گئے اور فرمایا، اے عبید اللہ ابنِ حُر مَیں تمھیں تمھارے نام کی آبر و قائم رکھنے کی دعوت دیتا ہوں۔ آئو میرے ساتھ کہ اِس کے بعد تمھیں کسی پچھتاوے کا خوف نہیں ہوگا۔

عبید اللہ ابنِ حُر جعفی خوفزدہ ہو کر لرزنے لگا اور جواب دیا، مَیں موت سے خوفزدہ ہوں لہذا آپ کے ساتھ ملحق نہیں ہونا چاہتا۔ البتہ میرا گھوڑا اور تلوار حاضر ہے۔

امامؑ نے فرمایا، مجھے گھوڑوں اور تلواروں کی ضرورت نہیں۔ یہ کہہ کر وآپس آ گئے کہ یہاں سے جلد اتنی دور نکل جائو کہ میرے استغاثے کی آواز تم تک نہ پہنچے کیونکہ پھر ایسے لوگوں کی نجات ممکن نہ ہوگی۔

بعد میں یہی آدمی مختار ثقفی کے ساتھ مل کر انتقامِ قتلِ حسینؑ میں جدو جہد کرنے لگا لیکن جلد ہی مختار سے ناراض ہو کر ابنِ زبیر سے مل گیا اور مختار کے قتل میں شامل ہوگیا۔ آخر دریائے فرات میں ڈوب کر خود کشی کر لی۔

قصرِ بنی مقاتل عین التمر اور قطقطانہ کے درمیان واقع ہے۔ قصرِ بنی مقاتل ہی وہ منزل ہے جہاں امام حسینؑ نے تہجد کے وقت نینوا کی طرف سفر کیا تو گھوڑے کی پشت پر آپ کی آنکھ لگ گئی۔ آنکھ کھلی تو کلمہ رجعت پڑھا۔ علی اکبرؑ نے پوچھا بابا آپ نے خواب میں کیا دیکھا کہ کلمہ رجعت پڑھا؟ آپؑ نے فرمایا مَیں نے دیکھا کہ ایک شخص آواز دے رہا تھا، اِس قافلے کے آگے آگے موت چل رہی ہے۔ لہذا مَیں تمھیں اپنی اور اپنے اصحاب کی شہادت کی خبر دیتا ہوں۔ حضرت علی اکبر نے کہا فَإِنَّنَا إِذاً لَا نُبَالِی أَنُ نَمُوتَ مُحِقِّین اسی مقام پر منقول ہے۔

عین التمر

قصرِبنی مقاتل پر تھوڑی دیر قیام کے بعد ہم عین التمر کی طرف روانہ ہوئے۔ یہاں سے عین التمر 25 کلومیٹر ہے۔

اِس شہر کی خصوصیات میں سے دو خصوصیات تو یہ ہیں کہ جنگِ صفین کے محاذ پر شام جاتے ہوئے، پھر وآپس لوٹتے ہوئے اول جنابِ امیرؑ نے یہاں قیام کیا تھا۔ دوئم جنابِ زینبِ کبریٰ سلام اللہ علیہا نے شام سے وآپسی پر یہاں اُسی جگہ قیام فرمایا تھا جس جگہ مولا علی نے قیام کیا تھا۔ یہ جگہ عین التمر شہر کے باہر ہی ہے۔ شہر کے آغاز میں ہی ایک ٹیلے پر۔

ہمیں شہر میں داخل ہونے کے لیے ایک گھنٹہ پولیس چوکی پر تفتیش کے لیے روکے رکھا۔ جب اُنھیں پتا چلا کہ مَیں شاعر اور ناولسٹ ہوں تو پولیس والوں نے میرے ساتھ فوٹو بھی لیں لیکن اُس وقت تک شہر میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جب تک اُنھیں بڑے افسر کی طرف سے اجازت کا حکم نامہ نہیں ملا۔

یہ شہر ایک بڑی دیہاتی آبادی ہے جو گنے اور کھجوروں کی بہتات رکھتا ہے۔ بہت زیادہ باغات اور سرسبز ہے۔ شہر کے اندر باغات ہی باغات ہیں۔ بلکہ گھر بھی باغات کے درمیان میں ہیں۔ شہر صحرا کے کنارے پر ہے اور بہت قدیم ہے۔ میٹھے پانی کے چشموں اور چھوٹی، رنگین مچھلیوں کی نایاب نسلوں کا گھر ہے۔ یہ چشمے ہزاروں سال سے جاری ہیں اور آج بھی بہت پانی ہے۔ یہاں کی کھجور کی مختلف اقسام جیسے ام البلالز اور خستاوی ہیں۔ یہ بہت عمدہ اور مہنگی اور فخر سمجھی جاتی ہیں۔

مسلمانوں نے اِسے ابوبکرکے دور میں خالد بن ولید کے ہاتھوں 12 ہجری میں فتح کیا۔ بلکہ سچ بتائوں تو اہلِ سنت والجماعت کا مذہب اِسی شہر کے محدثین اور مفسرین کی خدمات کے سبب پھیلا ہے۔

معاملہ یہ ہوا کہ جب یہ شہر فتح ہوا تو اِس کا مالِ غنیمت سمیٹنے اور یہاں کے کلیسائوں اور یہودی عبادت گاہوں کے آپریشن کے دوران خالد بن ولید کے ہاتھ کچھ نوجوان لڑکے لگے جنھیں یہودیوں کے کنیسا سے گرفتار کیا گیا تھا۔ یہ لڑکے ایک عبادت گاہ میں بند تھے اور اِن کی خفیہ تربیت کی جا رہی تھی۔ تمام لڑکے یہودی تھے جنھیں قرآن، زبور، تورات اور انجیل حفظ کرائی گئی تھیں اور اُن کو فارسی اور عربی کی تعلیم بھی پوری دی ہوئی تھی۔ تاکہ پوری تیاری کے ساتھ اِسلام کے صحیح میں غلط داخل کرکے اِسے خلط ملط کر دیا جائے۔

یہ تعجب کی بات نہیں کہ دشمن آپ کے خلاف سازش کرتا ہی ہے مگر تعجب اُس وقت ہوا کہ خالد نے اِنھیں گرفتار کرکے مدینہ بھیج دیا اور اہلِ مدینہ نے اِنھیں واقعی اپنا فقیہہ، محدث اور مفسر مان لیا اور حیرت پر حیرت یہ ہوئی کہ اِنھیں اہلِ بیتِ رسول کے مقابلے پر لا کر کھڑا کر دیا۔ گویا مسلمان خود ہی یہودیوں کی سازش میں شریک ہو گئے۔ جس کی وجہ سے ایسے ایسے دشمنِ علی نکلے کہ آج تک کامیابی سے جاری ہیں۔

اِن شخصیات میں سے درج ذیل کے نام یہ ہیں۔

حمران ابنِ ابان، حسن البصری، ابنِ اسحاق کے دادا یسار، محمد ابن سیرین کے دادا یسار۔ یہ لوگ آگے چل کر امام زہری اور امام شعبی کے اُستاد بھی بنے۔ جس کے بعد ان دونوں نے دین میں وہ گند بھرا کہ الامان۔ الغرض جس کو پھرولو، اندر سے کِھدو نکلے گا۔

حمران ابنِ ابان تو اتنا آگے نکل گیا کہ حضرت عثمان نے اسے اپنا حاجب بنا لیا۔ یہاں تک کہ اس کے پاس عثمان کی مہر تھی۔ گویا یہی وہ محدثین اور مفسرین تھے جن سے حضرت عثمان، معاویہ، مروان ابن الحکم، عبد الملک ابن مروان، ولید اور الحجاج ابن یوسف الثقفی نے بہت کام لیا۔ حمران نے مروانیوں کی حمایت میں سن 41 ہجری میں بصرہ پر حملہ کیا اور ان کے دور حکومت میں ان کے نام پر ایک سکہ بھی چلایا گیا۔

عین التمر میں چرچ آف العقیصر بھی ہے۔ یہ عراق کے قدیم ترین گرجا گھروں میں سے ایک ہے اور اس کی باقیات آج بھی نظر آتی ہیں۔ عین التمر میں شمعون کے قدیم محل کے کھنڈرات بھی موجود ہیں جس کا نام ایک عیسائی راہب شمعون الخمی کے نام پر رکھا گیا ہے۔

خیر دوستو جب ہم عین التمر میں مولا علیؑ اور بی بی زینب سلام اللہ علیہا کی قیام گاہ پر سرِ نیاز جھکا کر شہر میں داخل ہوئے تو حیرت میں گم ہو گئے۔ اِس قدر باغات اور کھجوریں اور پانی کہیں نہیں دیکھا تھا۔ یہ بالکل ایک بڑے دیہات کی طرح ہے۔ کوئی مکان دو منزلہ نہیں، کوئی پلازہ نہیں، بلکہ خریدو فروخت کی دکانیں بھی کم ہیں۔ انتہائی خموشی اور سکون طاری ہے۔ کوئی آواز سنائی نہیں دیتی۔

میرا ارادہ تو یہ تھا کہ مَیں شہر کی گلیوں میں پیدل نکل جائوں اور دو چار گھنٹے یہاں چہل قدمی کروں مگر میرے دونوں ساتھی جلدی میں تھے لہذا مجھے بھی اُن کا ساتھ دینا پڑا اور ہم شام کے قریب لوٹ پڑے۔

Check Also

Chief Justice Lahore High Court Ke Remarks Par Andesha Haye Door Daraz

By Nusrat Javed