Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Ali Akbar Natiq
  4. Mukhtar Masood Ke Sath Mamla

Mukhtar Masood Ke Sath Mamla

مختار مسعود کے ساتھ معاملہ

2007 بہار کے دن تھے، مَیں اکادمی ادبیات اسلام آباد میں کام کرتا تھا۔ یعنی وہاں پر کتابوں کی شاپ کا انچارج تھا۔ تب افتخار عارف وہاں کے چیئرمین تھے۔ مختار مسعود صاحب اکادمی کے رائٹر ہاوس میں ٹھہرے تھے۔ میری روز اُن سے ملاقاتیں ہو رہی تھیں اور دلچسپ معلومات ملتی تھیں۔ مَیں مولوی آزاد اور فرحت اللہ بیگ جیسوں کی نثر کا شیدائی اگرچہ مختار مسعود کی کتابوں سے زیادہ متاثر نہیں تھا مگر اُن سے بہت سی اہم باتوں کا ہاتھ آنا میرے لیے اہم تھا۔ وہ مجھے متجسس سامع خیال کرکے اپنی سول سروس کی ہائی کمان ملازمت کے دوران گونا گوں فتوحات اور نیک کاموں کے قصے سُناتے تھے اور مَیں سنتا تھا۔ اپنی کالج لائف میں رونما ہونے والے واقعات بھی مزے لے لے کر سناتے تھے۔

ایک دفعہ کشور ناہید کی بابت بات چل نکلی۔ مجھے کہنے لگے ہمارے کالج میں ایک کشمیری بٹ لڑکا بہت خوب صورت تھا اور کشور اُس پر بہت فریفتہ تھی۔ اُس پر بہت کمندیں پھینکنے کی کوشش کرتی مگر لڑکے کی انا کی دیواریں اتنی بلند تھیں کہ کوئی کمند اُس پر نہ پھنسی۔ اُس لڑکے کو ایک سے ایک خوبصورت لڑکی میسر تھی جبکہ کشور کی شکل و صورت بالکل معمولی درجے کی تھی۔ وہ اس پر کیوں توجہ دیتا؟ اِدھر یہ سخت بے چین تھی۔ ایک روز اُسے زبردستی بازو سے پکڑ کر کھڑی ہوگئی اور کہنے لگی، دیکھو تم اپنے آپ کو سمجھتے کیا ہو؟ سنو مَیں پوری کلاس کے ساتھ سو چکی ہوں، صرف تم ایک رہ گئے ہو۔ میں تم پر عاشق تھوڑی ہوں؟ میں تو بس اپنا ٹارگٹ پورا کرنا چاہتی ہوں۔

ایک دن سعادت حسن منٹو پہ بات چل نکلی۔ مختار مسعود صاحب اُن کی کسمپرسی، شراب نوشی، لااُبالی طبیعت، بیماری اور بے چارگی کے فسانے مزے لے کر سنانے لگے۔ بتانے لگے کہ کیسے آخری دنوں میں وہ بھیک تک مانگنے کے لیے مجبور ہوگیا تھا۔ گھریلو حالات اور اُس کے بیوی بچوں کی حالت قابلِ رحم تھی۔ خود شراب کی کثرت سے جگر کی بیماری زور پکڑ رہی تھی۔ ٹی بی اُسے پہلے ہی تھی۔ جب مختار مسعود صاحب کو منٹو صاحب کے حالات کی اندوہ ناک اور کرب انگیز تصویر دلچسپ پیرائے میں دکھاتے ہوئے ایک گھنٹا ہوگیا تو مجھے وحشت ہونے لگی۔

مَیں نے تمام ادب، مروت اور لحاظ بالائے طاق رکھتے ہوئے اُن سے ایک سوال کیا، مختار صاحب! جس وقت منٹو پہ ایسے حالات گزر رہے تھے تب آپ اور قدرت اللہ شہاب نہات اعلیٰ عہدوں پر بیٹھے اقتدار اور سول سروس کے مزے لے رہے تھے اور قلم کی باگیں جدھر چاہتے تھے، گھما دیتے تھے۔ پل میں کسی کو دولت مند اور پل میں فقیر کرنے کی طاقت رکھتے تھے۔ آپ دونوں کے گرد طواف کرنے والوں کا اتنا ہجوم تھا کہ اہلِ مکہ کو آپ پر رشک آتا تھا، حتیٰ کہ لوگ آپ کی تصویریں کعبہ جس کی چھتوں پر دیکھتے تھے۔ جس کی مثالیں آپ نے کئی بیسیوں مجھے دی ہیں۔ ابھی آپ نے یہ بھی کہا منٹو اپنی ذہانت میں ہمارے دور کا سب سے بڑا آدمی تھا اور معصوم بھی اتنا ہی تھا۔

آپ کو معلوم بھی تھا، منٹو بیمار ہے، لاچار ہے، ڈوبا ہوا ذلت میں ہے اور گھر بار سے تباہ حال ہے اور کچھ ہی دن پھر کیا سبب تھا کہ سب کچھ معلوم ہونے کے باوجود تم لوگوں نے اُس کی کوئی معاشی پُرسش نہیں کی، حالانکہ یہ آپ کی ذمہ داری تھی۔ بطور باشعور اور طاقتور بیوروکریٹ آپ لوگوں کا فرض تھا کہ اُس کے حالات کو درست رکھیں۔ اُس کے علاج اور بیوی بچوں پر نگران مقرر کرتے۔ آپ نے اُسے کیوں گورنمنٹ کی طرف سے معاشی طور پر فارغ البال نہ کیا؟ اور کیوں اُس کی صحت اور سلامتی کے لیے قدم نہ اُٹھایا اور کیوں اُس کی بیوی بچوں کے لیے سرکاری قلمدان سے کام نہ لیا؟

میرے اِس سوال پر مختار مسعود صاحب پہلے تو ایک دم چکرا سے گئے مگر پھر وہی سول سروس والی سابقہ رعونت سے کام لیتے ہوئے بولے، دیکھیے اول تو اُس نے ہم سے کوئی مدد طلب نہ کی تھی۔ دوئم ہمیں معلوم تھا کہ وہ سرکاری ملازمت کے قابل نہیں ہے اور فائل ورک نہیں کر سکتا۔ اِس لیے اُسے ملازمت دینا مناسب نہ تھا۔ مختار مسعود صاحب کا جواب سُن کر میرے چودہ طبق روشن ہوگئے اور حیرت سے اُنھیں دیکھنے لگا جو خود بھی ادیب تھے اور لطیف حسیات رکھنے کے مدعی تھے۔ مگر ہائے کہاں لے جایئے اُس سول سروسانہ رعونت کو کہ جس میں داخل ہوتے ہی انسانیت کی تمام برکتیں اُٹھ جاتی ہیں۔

مَیں نے پلٹ کر جو جواب دیا وہ بھی سُن لیجیے۔ مَیں نے کہا! مختار صاحب آپ چاہتے تھے کہ منٹو ایک کلرک بن کر روز آپ کو سلام کرتا، ملازموں کی فائلوں پر لایعنی نوٹ لکھ لکھ کر نحوست زدہ الماریوں کا پیٹ بھرتا۔ تب آپ اُسے سرکاری خزانے سے چندہ وصول کرنے کا حق دار سمجھتے؟ لکھ لعنت ہے ایسی سوچ پر جس نے تیسری دنیا کے معاشرے کو اِس قدر پست ذہنیت کے قابل رکھا۔ میری اِس بات پر مختار صاحب قدرے ناراض ہوئے اور کھونڈی اُٹھا کر چہل قدمی کرنے لان میں نکل گئے۔

وقت گزرتا گیا حتیٰ کہ 2012 آ گیا۔ میری ملاقات سید حیدر عباس زیدی سے ہوئی۔ یہ پاکستان کی طرف سے مختلف ملکوں کے ایمبیسڈر رہے تھے۔ یہ اور سابقہ سیکرٹری خارجہ محمد ریاض میری شاعری کے بہت مداح تھے اور اکثر شام کی محفلیں لگنے لگی تھیں کہ اچانک سید عباس حیدر زیدی صاحب کینسر کے سبب چل بسے۔ اِنھی سید صاحب نے بیوروکریسی کی فرعونیت کے مجھے کئی واقعات ایسے سنائے ہیں جن میں خود ادبا و شعرا ملوث رہے ہیں۔ اِنھی میں ایک واقعہ مختار مسعود کا وہ سناتے ہیں۔

پہلے آپ وہ واقعہ سُن لیں۔ وہ کہتے ہیں، پاکستان کے بین الاقوامی شہرت کے مصور اور خطاط صادقین مرحوم کو گورنمنٹ نے ایف ایٹ اسلام آباد میں ایک سٹوڈیو دے رکھا تھا۔ جہاں وہ اپنا کام کرتے تھے۔ یہ غالباً 1980 کا زمانہ تھا۔ مَیں اُن کا ایک قسم کا برخوردار تھا اور کم و بیش روز اُن کی خدمت میں حاضر ہوتا تھا۔ ایک دن مَیں جیسے ہی کمرے میں داخل ہوا، سامنے مختار مسعود صاحب بیٹھے نہایت غضبناک آواز میں صادقین کے ساتھ مصوری پر بحث کر رہے تھے اور اُنھیں پچھاڑنے کے چکر میں تھے۔ آواز اتنی بلند تھی کہ دروازہ کھلنے پر سارے محلےکو سنائی دینے لگی تھی۔ مَیں دونوں کے بحث کے دوران برخوردارانہ انداز میں ایک طرف ہو کر خموش بیٹھ گیا۔

صادقین صاحب مصوری کے متعلق ناقدانہ اور مصالحانہ گفتگو کرنے کی کوشش کر رہے تھے جبکہ مختار مسعود صاحب جارحانہ رویے پر اُترے ہوئے تھے اور صاف پتا چل رہا تھا کہ اُن کے اندر افسری کا جِن منہ سے حسد اور کینے کی آگ پھینک کر رہا ہے۔ اِسی حالت میں مختار مسعود نے صادقین کو مخاطب کرکے کہا، ابے تُو چیز کیا ہے؟ کبھی ایران کے مصوروں کو دیکھ اور اُن کے کام پر نظر کر، تجھے اپنی اوقات کا پتا چلے۔ اُن کے سامنے تیری حیثیت محض ایک مکڑی کی ہے۔ تُجھے پاکستان کی گونمنٹ نے عزت اور پیسہ دے دیا۔ رہنے کو ایک ٹھکانہ دیا۔ پاکستان کی وجہ سے تیرا نام ہوا ہے اور تُو اپنے آپ کو پیغمبِر مصوری خیال کرنے لگا ہے۔ وں میں مر جائے گا۔ اُدھر امروہہ میں ہوتا تو کسی نے تجھے دمڑی کے عوض نہیں خریدنا تھا۔ وہاں کسی ندی کے کنارے بیٹھا مینڈک کی طرح ٹرٹرا رہا ہوتا۔

صادقین نے جب مختار مسعود کی یہ تضحیک آمیز بات سُنی تو ایک دم سُکڑ کے رہ گئے اور اِس طرح دیوار کے ساتھ لگ گئے جیسے اتنی ذلت کے بعد وہ زندہ نہیں رہنا چاہتے اور دیوار میں جذب ہونا چاہتے ہیں۔ ایک تو اُن کا وجود پہلے ہی بہت کم تھا اوپر سے مختار مسعود اِن جملوں نے صادقین کو بالکل دبا سا دیا۔ وہ اکٹھے سے ہو کر تھوڑی دیر بالکل چُپ سے بیٹھ گئے جیسے سب کچھ ختم ہوگیا ہو۔ آخر چند لمحوں بعد نہایت کربناک انداز میں بولے، اے خدا کی مخلوق پر زحمت مسلط کرنے والے انسان۔ مَیں امروہہ میں ہوتا تو بھلے مصور کی بجائے گندی نالی کا کیڑا ہی ہوتا، پھر بھی بی اے کرکے سول سروس کا امتحان تو پاس کر ہی لیتا۔

اتنا کہہ کر خموشی سے اپنا مُوقلم اٹھایا اور دوسرے کمرے میں چلے گئے۔ اِدھر مختار مسعود کے سامنے اُسے گندی نالی کے کیڑے کا طنز کرکے صاف نکل جانے پر وہ تلملا کر رہ گیا اور مَیں ڈرا سہما یہ سب منظر دیکھتا رہ گیا اور چپ، جیسے دیوار سے تصویر لگا دے کوئی۔ پھر تھوڑی دیر بعد اُٹھ کر چلے گئے۔

یہ دونوں واقعات اور مختار مسعود کی کتابیں پڑھنے کے بعد (وہ کتابیں جنھیں زمانہ صحیفے قرار دیتا ہے اور میری نظر میں نثر کی معمولی درجے کی کتب ہیں) میرے ذہن میں مختار مسعود کے متعلق کوئی نرم گوشہ نہیں رہا تھا۔ اِس میں شاید میرے دیہاتی اور خاندانی پس منظر کا بھی دخل ہو جن کے لیے پاکستان کی زمین پر جو عذاب اُتارے ہیں اُن میں مقتدرہ کے ساتھ بیوروکریسی کے ایسے ہی ذہن شامل تھے۔

اب آتے ہیں ایک تیسرے واقعے کی طرف جس کا پس منظر منارِ پاکستان کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ مجھے یہ منار ہمیشہ غیر جمالیاتی لگا ہے اور میں زندگی میں صرف ایک بار اِس کے قریب گیا ہوں۔ میرے علم میں تھا مختار مسعود اِس کو بنانے والوں کی نہ صرف کمیٹی میں شامل تھا بلکہ اُن کا سربراہ تھا۔ کم و بیش پچاس ملکوں کے دورے کرکے، جس میں ملک کا بہت زیادہ سرمایہ برباد کیا، یہ نمونہ نکالا۔ اِس بات کا قلق اور غصہ ہمیشہ مجھے تھا۔

یہ سب کچھ اور درج بالا واقعات میرے ذہن میں تھے۔ لہذا ایک دن کیا ہوا کہ مَیں لاہور میں تھا۔ میرے ساتھ جاوید ملک اور ارسلان راٹھور بھی تھے۔ ہم شادمان میں سیفما کے آفس کی طرف جا رہے تھے کہ وہاں قریب ہی مختار مسعود صاحب کھڑے نظر آئے۔ ہاتھ میں چھڑی پکڑے اپنے گھر کے دروازے کے باہر ایستادہ تھے۔ ہم تینوں اُن کی طرف مُڑے اور سلام دعا کی۔ جاوید ملک صاحب اور ارسلان اُن سے گفتگو کرنے لگے، تب منارِ پاکستان پر بات شروع ہوگئی اور وہ اپنے اِس کارنامے کو فخر سے بتانے لگے۔ یہیں پر میرا پارہ چڑھ گیا۔ مَیں نے کہا سر میرا ایک سوال جس میں سراسر جسارت ہے، آپ سے کرنا چاہتا ہوں؟

یہ بتایے آپ نے جب کوئی آرکیٹیکچر نہیں پڑھا تھا، عمارت سازی پر آپ کا کوئی تجربہ نہیں تھا، پھر اِس کام میں ہاتھ ڈالنے کی ضرورت کیا تھی جس میں آپ نے سرکاری خرچے پر بیسیوں ملکوں کا سیر سپاٹا بھی کیا؟ معذرت کے ساتھ عرض کروں تو آپ جس منار پر فخر کر رہے ہیں یہ اِس قدر بیہودہ کیا اور بدصورت ہے کہ کوئی بھی صاحبِ ہوش اِس کی داد نہیں دے سکتا۔ یہ کہہ کر وہاں سے چل پڑا اور وہ خموش کھڑے منہ دیکھتے رہے۔

مجھے نہیں معلوم میری اِس بات کا مختار مسعود صاحب نے کیا اثر لیا لیکن جب اِن کے نامناسب فیصلوں سے قوم کو نقصان ہو رہا ہوتا ہے تو یہ کون سا اُس کی پروا کرتے ہیں۔

Check Also

Muhammad Yaqoob Quraishi (3)

By Babar Ali