Mian Logo
میاں لوگو

پچھلے چھ دن سے اوکاڑہ کے مضافات میں رہا۔ اپنے گائوں میں گیا اور اُلٹا پھرا تو لاہور کی راہ سے اسلام آباد پہنچا۔ گائوں میں اول تو والدین سے ملنا تھا، دوئم کونڈوں کی نیاز تھی اور سوئم ایک ضروری مزید کام تھا۔ کام یہ تھا کہ سید امتیاز علی تاج صاحب (مصنف انار کلی) کے نواسے مہران طاہر اور اُن کے بھانجے عیسیٰ نے میرا گائوں دیکھنا تھا۔ اُنھیں گائوں دیکھنے کی ضرورت اِس لیے پیش آئی کہ میرے افسانے پڑھنے کے بعد اول مصنف کی بودوباش اور رہن سہن دیکھنے کی تڑپ جاگی، دوئم وہ میرے افسانوں پر فلم بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ لینڈ سکیپ دیکھنا چاہتے تھے لہذا چلے آئے اور مَیں نے اُنھیں دس پندرہ کلومیٹر پیدل چلا کر دم لیا۔ گائوں دیکھ کر بہت شاد باد ہوئے۔ خیر اُن کے ساتھ اچھا وقت نکلا۔
کل مَیں لاہور پہنچا اور دہلی سے آئی شاہدہ بانو سے ملاقات کی۔ اصل میں جو وقت ہماری ملاقات کا طے ہوا تھا، اُسی پر اُنھیں گورنر ہائوس میں کھانے کی دعوت تھی۔ کہنے لگی ناطق مَیں گورنر ہاوس نہیں جائوں گی، آپ سے ملنا ضروری ہے بلکہ پاکستان آنے کا اصل مقصد بھی یہی تھا۔ لہذا ہزاروں گورنر آپ کی جوتی پر نثار۔ وہ ہماری شاعری اور نثر پڑھ چکی ہیں اور بہت زیادہ مطالعہ رکھتی ہیں۔ پیشے کے اعتبار سے صحافی ہیں مگر کل اُن سے ملاقات ہوئی تو جی شاد ہوا کہ ابھی زمانے میں حرف و لفظ کے چاہنے والے باقی ہیں۔
آخر ہم نے اُنھیں کھانے کی دعوت دی اور کہا آپ نے گورنر کی دعوت ٹھکرا دی۔ اب ہماری دعوت پر چلیے۔ کہنے لگیں دیکھیے مٹن اور چکن اور مچھلی یا جس شے میں بھی ذرا سی مسلمانیت نظر آئے گی مَیں وہ نہیں کھائوں گی۔ اِس بات پر ادریس بابر اور اطہر رسول کے کان کھٹکے، بولے بی بی بات یہ ہے کہ آپ یہ بات ہوٹل پر بیٹھ کر کیجیے جب ناطق دو کلو مچھلی کا آرڈر دے لے۔ تب آپ کہیں کہ مَیں تو دال کھائوں گی۔ آپ اسلامی خوراک سے توبہ کیے بیٹھی ہیں تو ہمارا کیا قصور ہے؟
ہم نے کہا اٹھیے بھائی چلیے۔ لیجیے وہی ہوا۔ ہم نے تو مچھلی کھائی اور وہیں شاہدہ بانو نے دال منگوالی، دال کھائے جاتی تھیں اور کہتی جاتی تھیں بھئی یہ دال بھی چکھو، کیسی اچھی بگھاری ہے۔ ہم تینوں اُن کے اِس جملے کی سادگی پر ہنسے جاتے تھے۔
اُس کے بعد کہنے لگی مجھے رمضان جانی سے ملنا ہے۔ اگر اُن کا فون آ گیا تو اور قدرت خدا کی دیکھیے وہیں اُس دلارے جانی بچے کا فون آ گیا۔ تب ہم اُن کو رمضان جانی کے گھر لے چلے۔ البتہ ادریس کو پہلے چنبہ ہائوس اُتارا، آخر رمضان جانی کا معاملہ تھا۔ وہاں پہنچے تو خبر ہوئی کہ وہ تو اطہر کے فلیٹ کے پچھواڑے میں ہی گزر بسر رکھتا ہے۔ اُس سے مل کر بہت اچھا لگا۔ وہی عاجزی اور تشکر اُس کی ذات میں نظر آیا جو تمام مغنیوں کے ہاں اصل سے ذرا سا زیادہ ہوتا ہے۔
مجھے ہرگز نہیں جانتا تھا مگر کہے جاتا تھا جی آپ بہت بڑے ہیں، بہت بڑے ہیں۔ مَیں نے کہا میاں جانی ہم بڑے تو اتنے ہی ہیں جتنا ہمارا کام ہے، بس آپ کی شہرت سے ذرا چھوٹے ہیں۔ خدا جیتا رکھے۔ موسیقی کے دریا میں اُترے ہو تو ایک جملہ سُن لیو۔ ہر فن ایک سمندر ہے، ہمیں اتنی خبر ضرور ہونی چاہیے کہ اِس سمندر سے کتنے چلو اٹھا سکے ہیں۔ اگر خدا نخواستہ پورا سمندر اٹھانے کا دعویٰ کریں گے تو سمندر بپھر جاتا ہے۔
جانی نے چائے پلائی اور مزے کی تھی۔ دیسی چائے تھی۔