Karbala Ki Chand Baatein
کربلا کی چند باتیں

مَیں کل کربلا پہنچ گیا تھا۔ ڈرائیور سے لاکھ منتیں کیں مجھے فرات کے رستے سے کربلا پہنچائے۔ دراصل یہی رستہ تھا جہاں سے آزادانِ حرمِ امام حسینؑ کا قافلہ کربلا سے کوفہ پہنچایا گیا تھا۔ یہ قافلہ چار دن میں کوفہ پہنچا تھا۔ ایک رات کوفہ کے شمالی دروازے پر گزاری تھی اور اگلے دن ابنِ زیاد سے سامنا ہوا تھا۔ اِسے طریقِ علما بھی کہا جاتا ہے۔ یعنی شیعوں کے بڑے علما نے اِسی رستے کو مشی کے لیے اپنایا تھا۔ مَیں دو بار اِس رستے سے کوفہ سے کربلا پہنچا ہوں۔ لیکن یہاں ڈرائیور ایسا ضدی تھا کہ اُس نے میری ایک بھی نہیں سُنی اور سیدھا عام رستے سے لے کر پہنچا۔ جو مشی کا رستہ ہے۔ خیر ابھی کئی دن یہاں موجود ہوں، مَیں خود پیدل نکلوں گا۔
کربلا میں پہنچ کر مَیں فوراً امام کی زیارت کو حاضر ہوا اور ایسی بے خودی غالب آئی کہ دھاڑیں مار کر رونے لگا۔ عجیب عالم ہے کہ خود پر جتنا بھی قابو پائیں، جیسے ہی ضریح کے پاس پہنچتا ہوں دل حجاب پر غالب آ جاتا ہے۔ میں اُن کیفیتوں کو قلم کی روشنائی میں کیسے نبھاوں جو دل میں پے بہ پے نازل ہوتی ہیں۔ مولا کے روضہ سے لپٹا کھڑا تھا کہ میری نظر دائیں جانب کے اُن ناصرین اور معین و مدد گار شہدا کی ضریح پر پڑی جو میرے تنہا ترین اور غریب حسینؑ کے گِرد اپنی زندگی کی دیوار گرنے تک حصار بنے رہے۔ مَیں نے روتے ہوئے اُنھیں شاباش دی اور کہا، اے حق کے طرفدار نقیبو، تم پر میرا سلام ہو، تم نے اپنے قول و فعل سے پوری انسانیت کی لاج رکھ لی۔ اپنی تلواروں اور نیزوں کی انیوں کو باطل کے شوریدہ پانی سے زنگ آلود نہیں ہونے دیا اور ظالم کے ہر فریب اور ہربہروپ کے سامنے اپنے آقا حسینؑ کی اطاعت کی ڈھال رکھ دی جس نے تمھیں ذلیل و رسوا ہونے سے بچا لیا۔ تم زندگی اور شرف کے مقام تک پہنچ گئے۔ آج تمھیں دنیا کے آزاد اور غیرت مند لوگ سلام کرنے تم تک پہنچتے ہیں۔ میرا بھی سلام قبول کرو۔ اے میرے حسینؑ کا میمنہ و میسرہ اور ہراول دستے کے قدآور بہادرو۔
آقا حسینؑ کے روضہ کا طواف بخدا کعبہ کے طواف کا اجازت نامہ ہے۔ کسی حاجی کے پاس اگر یہ اجازہ نہیں تو سمجھیے کعبہ ایسے حاجیوں سے منہ پھیر کر اُنھیں پھٹکار دیتا ہے۔
دیر تک گریہ کنائی کے بعد مَیں نے حریت پسند وفاداروں کے سردار غازی عباسِ علمدار کے روضے کا رُخ کیا۔
ایسا بھائی جسے رسول کے بیٹے کی اطاعت کی تفہیم ہو اور اُسے نبھانے کی تمیز بھی ہو، اُسے عباس کہتے ہیں۔ ایک غیرت مند انسان جب وفا کا معنی دریافت کرنا چاہے تو وہ لغت کی کتابوں سے رجوع کرنے کی بجائے عباس کی ضریح کا رُخ کرتا ہے اور اُس عرفانِِ معنی تک پہنچتا ہے جہاں کوئی پردہ نہیں۔
اِن غمکدہ کے مکینوں سے ملاقات اور اِن کی دہلیز پر سجدہ گزاری کے بعد مَیں نے اُن مقامات کا رُخ کیا جہاں علی اصغر کو تیرِ سہ پھل لگا، پھر مقامِ شہادت علی اکبرؑ، پھر مولا حسینؑ اور عمر ابنِ سعد لعین کی ملاقات کے مقام پر گیا۔ یہ جگہیں کربلا کے شہر میں آ گئی ہیں لیکن اِن کے نشانات موجود ہیں۔ خیامِ حسینی کی جگہ کو کھلی طرز پر بنا رہے ہیں۔ خیام امام کے روضہ سے کچھ ہی فاصلے پر تھے۔ آپ یوں سمجھیں کہ خیام روضہ امام کی جنوب مغرب سمت میں ہیں اور ٹِیلا زینبیہ مغرب کی طرف ہے۔
اِن تمام زیارات میں مجھے رات کے ساڑھے سات بج گئے۔
یہاں حضرت عباس کے حرم میں ہمارے کرم حیدری صاحب بھی رہتے ہیں۔ وہ مجھے حرمِ عباس کے اندر اپنے دفتر میں لے گئے۔ جہاں ایک تیموری لڑکے اور لڑکی کا نکاح پڑھایا جا رہا تھا۔ دونوں امریکہ سے یہاں نکاح پڑھانے آئے تھے۔
کرم علی حیدری صاحب نے مجھے حرمِ عباس میں بہنے والا پانی بھی دیا جسے مَیں نے پی لیا۔ یہ مولانا سندھ کے ہیں۔ اِن کے بیٹے علی رضا حیدری میرے چاہنے والے اور میری کتابوں کے قاری ہیں۔ شاعر بھی ہیں۔
آج کا دن پورا کربلا میں گزرے گا۔ یہاں سے قصرِ بنی مقاتل اور عین التمر جانے کا بھی ارادہ ہے، دعا کیجیے بیچ میں کوئی رکاوٹ نہ آئے۔

