Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Ali Akbar Natiq
  4. Dar Un Nadwa Se Mutaliq Aik Ajeeb Waqia

Dar Un Nadwa Se Mutaliq Aik Ajeeb Waqia

دار الندوہ سے متعلق ایک عجیب واقعہ

مجھے خوب معلوم ہے صفا و مروہ کی دونوں پہاڑیاں کھلی ہوئی تھی۔ بلکہ اُن کے پتھر گِھس گِھس کے اتنے چمکدار ہو گئے تھے کہ سیاہ ہیروں کے ٹیلےلگتے تھے۔ یہ دونوں پہاڑیاں کعبہ کے مشرق کی طرف شمالاً جنوباً ایک دوسرے سے کافی فاصلے پر تھیں۔ ایک پہاڑی پر بہت سی خواتین سفید احرام میں یوں بیٹھی تھیں جیسے سیاہ ٹیلے پر کچھ سفید پریاں بیٹھی ہوں۔

اُس وقت زمزم کا حوض بھی سلامت تھا، اگرچہ ٹونٹیاں لگ گئی تھیں مگر کنویں کی جگہ باقی تھی۔ حرم کے صحن کے دالانوں میں جا بجا اُن جگہوں کی نشان دہی بھی کر دی گئی تھی جہاں اہلِ مکہ کے گھر تھے یا مکان تھے۔ مثلاً ایک جگہ ایک ستون پر لکھا تھا۔ "اِس جگہ علیؑ کی بہن امِ ہانی کا گھر تھا" یہاں رسولِ خدا اکثر مجلس رکھتے تھے اور موحدین اُن سے ملاقات کرتے تھے۔ جو کلمہ پڑھنا چاہتے تھے یا پڑھ چکے تھے۔ حضرت عمر نے بھی جس جگہ آ کر اسلام قبول کیا وہ بی یہی مقام تھا۔ ایک جگہ دارالندوہ کا نشان لگایا ہوا تھا۔ یہ جگہ کعبہ سے شمال کی جانب ستر میٹر کے فاصلے پر تھی۔ پہلے یہاں چھوٹی سی ہشت دری بنائی ہوئی تھی لیکن اب وہ بھی ختم کر دی گئی تھی۔ دارالندوہ کے ساتھ جُڑا ہوا ایک بہت اہم واقعہ ہے۔ اُس واقعے سے پہلے میرا خیال ہے اِس مقام کا تعارف کرا دیا جائے۔

سب کو معلوم ہے مکہ خاص قریش کا شہر تھا اور کوئی دوسرا قبیلہ یہاں نہیں بستا تھا۔ قریش کی آگے بہت سی شاخیں تھی اور ہر شاخ کو ایک چھوٹے قبیلے کا درجہ حاصل تھا اور اُنھوں نےاپنا اپنا سردار مقرر کر رکھا تھا۔ یہ سردار اُن کے مسائل لے کر قریش کے مرکزی سردار کے پاس جاتا۔ قریش کی ایک مجلسِ شوریٰ تھی جس میں ہر قبیلے کا سردار بیٹھ کر اپنے قبیلے کی نمایندگی کرتا۔ وہ سردار تمام معاملات کا حتمی فیصلہ کرتا تھا۔ یہ شوریٰ جہاں منعقد ہوا کرتی اِس عمارت کو دارالندوہ کہا جاتا تھا۔

دار الندوہ کو قصی ابنِ کلاب نے بنایا تھا۔ اُن کے بعد مرکزی سرداری ہاشم کے پاس تھی۔ پھر رسولِ خدا کے دادا عبدالمطلب کے پاس آئی اور اُن کے بعد جنابِ ابوطالبؑ کے پاس آ گئی۔ رسولِ خدا کے ظہور کے وقت قریش کے مرکزی سردار حضرت ابو طالبؑ ہی تھے۔ جبکہ قریش کی شوریٰ کے ممبران میں عمر ابن ہشام (ابوجہل)، عتبہ ابن ربیعہ، خطاب ابن نوفل، ولید ابن مغیرہ، عاص ابن وائل، ابو سفیان، متم ابن عدی، اُمیہ ابن خلف اور ودیگر ارکان شامل تھے۔

رسولِ خدا کے اعلانِ نبوت کے بعد حضرت ابو طالبؑ اور شوریٰ کا معاملہ بگڑ گیا۔ یہ شوریٰ رسولِ خدا کے خلاف جو بھی فیصلہ کرتی، جنابِ ابوطالبؑ اُسے ویٹو کر دیتے اور اعلانیہ اپنے بھیجتے اور خدا کے رسول کی حفاظت کرنے لگے۔ جبکہ قریش کے چھوٹے سردار مخالفت پر ڈٹے رہے۔

یوں جنابِ ابو طالبؑ اور قریش کے درمیان ایک سرد جنگ شروع ہوگئی جو آہستہ آہستہ شدید دشمنی میں بدل گئی۔

البتہ عاص بن وائل اور عتبہ بن ربیہہ کا رویہ کچھ نرم تھا۔ عتبہ ابن ربیعہ نے قریش کو مشورہ دیا اور کہامحمد ﷺ کو باقی عربوں پر چھوڑ دینا چاہیے۔ ہمیں نہ اِن کی حمایت کرنی چاہیے نہ مخالفت۔ اگر باقی عرب اِسے رد کردیں گے تو قریش کا کام بھی ہو جائے گا اور مکہ کے حالات جیسے چل رہے ہیں ویسے ہی لوٹ آئیں گے۔ اگرعرب نبی کریم ﷺ کی بات تسلیم کر لیتے ہیں تو محمد ﷺ کی عزت قریش کی عزت تصور کی جائے گی۔

لیکن شوریٰ میں شامل کئی لوگوں نے عتبہ کی بات کو ٹھکرا دیا۔ اِن میں پیش پیش حضرت عمر بن خطاب کے ماموں یعنی بنی مخذوم کا سردار عمر ابن ہشام المعروف ابو جہل، بنو امیہ کا سردار ابوسفیان، ولید ابن مغیرہ اور اُمیہ ابن خلف وغیرہ تھے۔ یہ کھل کر مخالفت کر رہے تھے اور کسی بھی طرح نبی کریم ﷺ کا نعوذباللہ خاتمہ چاہتے تھے۔ مگر بنی ہاشم کی طاقت اور ابو طالبؑ کی قدرت سے خوفزدہ تھے۔ جس کے ساتھ ایک درج ذیل واقعہ جڑا ہوا ہے۔

ابوطالبؑ اور اہلِ مکہ کا ایک واقعہ

اعلانِ نبوت کے بعد دسویں سال کا واقعہ ہے۔ رسولِ خدا اکثر مکہ کے ارد گرد کی چھوٹی بستیوں میں نکل جاتے تھےکہ اُنھیں اسلام کی طرف دعوت دیں۔ بعض اوقات آپ کو پلٹنے میں دیر ہو جاتی۔ حضرت ابوطالبؑ ہمیشہ آپ کے ساتھ اپنے بیٹے علیؑ اور اپنے دو طاقتور حبشی غلام محافظت کے طور پر مقرر کر دیتے۔ وہ غلام تلوار اور نیزے کے ماہر اور نہایت جنگ آزما تھے۔ اُنھیں ہدایت تھی جب آپ کو خطرے میں دیکھیں تو علیؑ اور ایک غلام حفاظت کے لیے وہاں ٹھہر جائیں جبکہ دوسرا جلد وآپس آ کر ہمیں خبر دے۔ مکہ کے دس میل کے ارد گرد کا علاقہ حرم کہلاتا تھا۔

اِس دائرے میں آپ ﷺ کی جان کو خطرہ کم تھا کہ یہاں خون بہانے سے قریش عموماً گریز کرتے تھے لیکن اِس سے آگے حِل شروع ہو جاتا تھا جہاں کچھ بھی ممکن تھا۔ ایک بار جنابِ ابو طالبؑ کا ایک غلام بیمار ہوگیا۔ آپ صلعم اُسے آرام کی خاطر ساتھ نہ لے گئے اور تبلیغِ توحید کے واسطے مکہ کی دُور وادیوں میں نکل گئے یہاں تک کہ حِل کی چھوٹی بستیوں میں چلے گئے۔ چونکہ دُور تک چلے گئے تھے اِس لیے وآپسی میں دیر ہوگئی۔ اِدھر جنابِ ابوطالبؑ کو اندیشہ ہوا کہ قریش نے میرے بھتیجے کو گزند تو نہیں پہنچا دی۔ آپؑ نے رسولِ خدا کی تلاش میں کئی لوگوں کو بھیجا مگر وہ ناکام وآپس آگئے۔ جنابِ ابوطالبؑ کا گمان پختہ ہوگیا کہ آپ کو شہید کر دیا گیا ہے اور اُس کے ذمہ دار قریش ہیں۔

جنابِ ابوطالبؑ نے مقاطعہ بنی ہاشم کے بعد قریش سے حالات بہت زیادہ کشیدہ ہونے کے سبب دارالندوہ میں جانا چھوڑ دیا تھا۔ جبکہ دیگر قریش شام کے بعدیہاں متواتربیٹھ کر صلاح مشورے کرتے تھے اور شاعروں اور داستان گوئوں سے داستانیں سنتے تھے اور رسولِ خداا اور خاندانِ ابوطالبؑ کے خلاف پراپیگنڈہ کرتے تھے۔ رسولِ خدا کے بارے میں متوشش ہو کر جنابِ ابوطالبؑ نے بنی ہاشم کے تمام جوانوں کو اکٹھا کیا اور اُنھیں کہا، سب اپنی عبائوں میں ننگی تلواریں چھپا لو اور میرے ساتھ دارالندوہ چلو۔ جب میں تمھیں حکم دوں فوراً تلواریں نکال کر اُن تمام قریشی سرداروں کے سر قلم کر دینا۔ خدا کی قسم میرے بھتیجے کےخون کا ایک قطرہ پوری کائنات کے خونبہا سے زیادہ قیمت رکھتا ہے۔ اگر میرا بھتیجا نہیں رہا تو یہاں کوئی زندہ نہیں بچے گا، چاہے ہم بھی نہ رہیں اور نہ یہ کعبہ رہے اور نہ یہ مکہ کی وادی رہے۔

اُن کا حکم پا کربنی ہاشم کے بائیس جوانوں نے اپنی تلواریں لیں اور ابوطالبؑ کے پیچھے ہو لیے۔ محلہ بنی ہاشم سے دارالندوہ کچھ ہی فاصلے پر تھا اور اِسی جگہ تھا جہاں مَیں آج کھڑا ہوا ہوں اور یہ جس جگہ یہ چھوٹی سی لائبریری ہے یہ اُس کی مرکزی جگہ تھی۔ لوگ یوں بھی کہتے ہیں کہ یہاں رسولِ خدا پیدا ہوئے تھے۔

خیر آپ جیسے ہی اُن ہاشمی جوانوں کو لے کر دارالندوہ پہنچے آپ کا غلام بھاگتا ہوا آیا اور پکار کر کہا، یا شیخِ بطحا محمد رسول اللہ گھر لوٹ آئے ہیں۔ آج وہ دُور کبسہ کی بستی تک چلے گئے تھے اور وہاں سے ابھی لوٹے ہیں۔ آپ ایک دم رُک گئےاور اُس غلام سے کہا، ٹھیک ہے تم جائو اور محمد رسول اللہ سے کہو، میرے آنے تک گھر ہی میں رہے۔

اِدھر جب سردارانِ قریش نے جنابِ ابوطالبؑ کو بنی ہاشم کے جوانوں کے ساتھ اپنے سر پر کھڑے دیکھا تو حیران ہوئے کہ معاملہ کیا ہے؟ اب جنابِ ابوطالبؑ نے اُنھیں مخاطب کرکے کہا، اے اہلِ مکہ تمھیں پتا ہے آج کیا ہونے والا تھا؟ عتبہ بن ربیعہ نے کہا یا شیخِ بطحا بتایے؟ آپ نے بنی ہاشم کے جوانوں سے کہا، اپنی عبائوں کو اٹھا کر اِنھیں اپنی ننگی تلواریں دکھائو۔ سب جوانوں نے اپنی عبائوں کے کونے پلٹ دیے۔ تب قریش نے دیکھا اُن کے سامنے ننگی تلواریں چمک رہی تھیں۔ وہ ہونق ہو کر ابوطالبؑ کا منہ دیکھنے لگے۔

اُن کو حیران و ششدر دیکھ کر آپ نے فرمایا، اے اہلِ مکہ آج کچھ دیر پہلے تک میرا بھتیجا محمد رسول اللہ گھر نہیں آیا تھا۔ مَیں نے گمان کیا تم نے اُسے قتل کروا دیا۔ پھر مَیں نے ایک فیصلہ کیا کہ آج تم سب کے سر قلم کردوں اور مَیں تم سے ایک ایسی جنگ لڑوں جس میں ہر طرف خون بہہ جائے۔ تمھیں اور اِس مکہ کے باشندوں کو برباد کردوں۔ اُس کے بعد چاہے ہم بنی ہاشم میں سے بھی ایک فرد زندہ نہ بچے مگر تمھارے تمام قبیلے ختم ہو جائیں۔ کیونکہ میرے بھتیجے سے محترم کسی کا خون نہیں ہے نہ کسی کی حرمت میرے بھتیجے محمد رسول اللہ کی حرمت سے زیادہ ہے۔

پھر اِس سے پہلے کہ یہ واقعہ ہو جاتا، ابھی مجھے محمد رسول اللہ کے گھر لوٹ کر آنے کی خبر ملی ہے۔ اب یاد رکھو اگر کسی نے میرے بھتیجے کا ایک قطرہ خون بہایا تو یہ مکہ خون سے بھر جائے گا۔ کعبہ کی دیواریں سُرخی میں ڈوب جائیں گی۔ اِس کے چاروں طرف کے رستے اور شام اور یمن کی جانب جاتے ہوئے کجاوہ دار اونٹوں کی بجائے تمھاری لاشوں کو کتے کھینچتے پھریں گے۔ یہ کہہ کر جنابِ ابوطالبؑ نے اپنے جوانوں سے کہا، چلو اب گھر چلیں۔

جنابِ ابو طالبؑ تو یہ کلمات کہہ کر گھر چلے آئےجبکہ وہاں بیٹھے تمام سردارانِ قریش کانپ کر رہ گئے۔ اُن کی زبانیں تالوئوں سے چِپک گئیں اور حلق میں کانٹے پڑ گئے۔ کسی کے لب تک نہیں ہل سکے۔ چنانچہ اِس واقعے کے بعد پھر کبھی کسی کی جرات نہیں ہوئی کہ جنابِ رسالت مآب کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھے۔ ہاں جب ابوطالبؑ فوت ہوئے تو اللہ نے کہا اے میرے حبیب اب تو ہجرت کر جا کہ یہ جگہ اب محفوظ نہیں رہی۔

اے دوستو یہ تھے علیؑ کے باپ جنابِ ابوطالبؑ اور آج مَیں اُن کے گھر، اُن کے احاطے اور اُن کے اُس دار الندوہ کے پا س مودت کے قدموں سے چل رہا تھا اور دل کے ہونٹوں سے بوسے لے رہا تھا۔

نوٹ: سفر نامہ سے اقتباس

Check Also

Muhammad Yaqoob Quraishi (3)

By Babar Ali