Aik Fasoogar Aur Sahi, Kashif Majeed
ایک فسوں گر اور سہی، کاشف مجید

پھاٹک نمبر دو سے اوکاڑہ میں داخل ہوں تو آپ کے عقب میں ایک بڑا دروازہ ملے گا۔ اُس پر آج کل موٹے حروف میں کلمہ شہادت کے بعد بابِ ظفر اقبال لکھا ہوا ہے۔ یہ کرپا رام محلے کا دروازہ ہے جس کے اندر داخل ہوتے ہی دائیں ہاتھ چھوٹا سا ایک گھر ہے۔ یہی گھر اردو کے لیجنڈ شاعر ظفر قبال کا ہے مگر ابھی یہاں اِس کی تفصیل کی ضرورت نہیں۔ اِس کے سامنے شہر کا دو نمبر پھاٹک ہے۔ پھاٹک کا نام دو نمبر خدا نخواستہ ظفر اقبال کے سبب نہیں پڑا بلکہ اس کی اپنی وجوہات ہیں۔ اِس پھاٹک کو عبور کرکے شہر کی جانب منہ کریں تو سامنے سرور سوڈا چوک نظر آتا ہے، اِس کے آگے چرچ بازار شروع ہوتا ہے۔ مگر آپ نے آگے نہیں جانا بائیں ہاتھ مُڑ جانا ہے۔ یہاں سے تھوڑا آگے ضلعی پوسٹ آفس ہے جس سے اگلی طرف نیم کے چھائوں بھرے دو تین درخت آسمان کی بلندی پر سر کھولے نظر آتے ہیں۔ اِن درختوں کے نیچے چھریاں، چاقو، خنجر اور درانتیاں بنانے والوں کی دکانیں ہیں۔ آگ کی بھٹیاں، لوہے کو آب دینے کی سانیں اور لوہا کوٹنے کے ہتھوڑے شب و روز جلترنگ بجاتے ہیں۔
اِن کے عقب میں ایک دو منزلہ عمارت کی دوسری منزل پر کاشف مجید سے میری پہلی ملاقات ہوئی۔ جسے اب سولہ برس نکل چکے ہیں۔ غالباً اُنھوں نے اپنے گھر میں ایک چھوٹی سی شعری نشست رکھی تھی اور مجھے اُس میں بلایا تھا۔ لالہ احمد شہزاد میرے ساتھ تھا۔ محفل بہت اچھی رہی تھی جس میں کاشف نے اپنے شعر سنائے تو مجھے احساس ہوا اِس شہر میں اک اور فسوں کار کا در کھلا ہے۔ تب مجھے معلوم نہ تھا حضرت صاحب لیہ شہر کے مہاجر ہیں اور آگرے سے دلی آ بسے ہیں۔ گویا لیہ کے سامریوں نے جادوئی کبوتر اڑائے تو ایک کبوتر اُڑتا ہوا اوکاڑہ کے چوباروں کے چھجوں پر آن بیٹھا پھر وآپس نہ پلٹا۔
کاشف مجید میاں قدوقامت کے متوازن، نہ موٹاپا اور نہ پتلاپا۔ سر کے بال البتہ عزیز میاں قوال سے تھوڑے سے بڑے تھے۔ شعر پڑھنے کا انداز بھی کم و بیش ویسا ہی تھا کہ ہزار آدمی بھی سامنے پھیلا پڑا ہو تو لائوڈ سپیکر کی ضرورت نہ پڑے۔ یوں بلند آہنگی سے پڑھتے کہ در و دیوار کے چوکھٹے لرز اٹھتے۔ رنگ اور روپ میں نہ گورے ہیں نہ کالے۔ سراسر سلونے نین نقش نکالے ہوئے ہیں جو دیکھنے کو بھلے لگتے ہیں۔
اوکاڑہ میں اُن کی شادی ایسی خاتون سے ہوئی جو گورنمنٹ گرلز کالج اوکاڑہ میں لیکچرر تھی اور شعر و ادب کی دلدادہ تھی۔ نام اُس بی بی کا یاسمین ہے۔ اِدھر کاشف میاں اوکاڑہ ہی کے ایک قصبے گوگیرہ کے لیکچرر ٹھہر گئے۔ یعنی دونوں میاں بیوی ایک دوسرے کے اُستاد لگ گئے۔
گوگیرہ کا قصبہ اوکاڑہ شہر سے کم و بیش تیس کلومیٹر دور تھا۔ اُن دِنوں گوگیرہ کے پرنسپل ایک ذات شریف ہوتے تھے۔ اُن کا نام احمد ساقی تھا اور وہابی بہت تھے۔ بنیادی طور پر اوکاڑہ کے رہنے والے تھے اور شعر کہتے تھے۔ مجھے اُن کے شعر کہنے کی حقیقت کا علم نہیں مگر اُس کا قیاس ایک واقعے کی طرف جاتا ہے۔ ہو سکتا ہے یہ میرا خیال ہو مگر غالب امکان یہی ہے۔
واقعہ سُن لیجیے۔ کاشف مجید کے علاوہ گوگیرہ کالج میں ہی مجاہد صاحب بھی پڑھاتے تھے۔ اِس طرح یہ دونوں حضرات احمد ساقی صاحب کی حکومت میں گوگیرہ کے انٹر کلاس کے لونڈوں کو اردو پڑھاتے۔ دونوں کے پاس گاڑی نہیں تھی لہذا یہ اپنے پرنسپل یعنی احمد ساقی صاحب کی گاڑی میں جاتے اور اُسی پر اُن کے ساتھ وآپس آتے۔ اب ایک تو وہ پرنسپل، دوئم گاڑی بھی اُن کی، سوئم کالج کے علاوہ آنے جانے کی صحبت اور چہارم دونوں حضرات کی اپنے پرنسپل کی تھوڑی بہت خوشامد نے یہ چاند چڑھایا کہ اُنھیں شاعر بنا دیا۔ گویا احمد ساقی صاحب کے لیے کہا جا سکتا ہے کہ اِن چار عناصر نے بنایا اُسے سخن دان۔
کچھ اُنھی دنوں کا ذکر ہے، ہم نے اوکاڑہ میں حلقہ اربابِ ذوق کا پلیٹ فارم بنا دیا۔ لالہ احمد شہزاد کی بے نیازی کی بدولت اُس کے ہفتہ وار اجلاس نہ ہو سکے اور وہ حلقہ محض ایک نام کی حد تک رہ گیا۔ البتہ اُس کے تحت ماہانہ مشاعروں کا ڈول ڈال دیا اور شفقت رسول قمر کا گھر اُن مشاعروں کا منطقہ مقرر ہوا۔ اِن میں کاشف مجید کی بھرپور شرکت ہونے لگی بلکہ کاشف کو آگے بڑھ کر منتظم میں بھی شامل کر لیا۔ اِن دنوں کاشف سے کھل کر ملاقاتیں ہوئیں اور اُن کے مزاج خبر ہوئی۔ جلد ناراض ہو جاتے ہیں اور اُسی طرح جلد راضی ہو لیتے ہیں۔ یہ خوبی ہر صاف طبیعت کی ہوتی ہے۔
پاکستان بھر میں جتنے شاعر گروہ در گروہ مشاعرے پڑھنے کے لیے لُور لُور پھرتے ہیں۔ یہ اُن سے کوسوں دور فقط آفیسر کالونی اوکاڑہ سے کالج تک چلے جاتے ہیں اور وہیں سے گھر لوٹ آتے ہیں۔ بلکہ اکثر پوچھیے تو کہتے ہیں، میاں سُسرال کی طرف سے فلاں کام ملا ہے اُسے نپٹا رہا ہوں۔ مجھے یقین ہے اپنے کالج کے مشاعروں سے بھی اِنھیں دُور رکھا جاتا ہوگا۔ اُن کے بارے میں اگر مفصل لکھیں تو تفصیل بکھر بکھر جائے۔ مجمل خاکہ یہ ہے کہ طبیعت کے جولی ہیں۔ دل کے سُرخ گلاب ہیں۔ ہنسی مذاق میں حافظ نابینا ہیں۔ سامنے ابراہیم ذوق ہو تو یہ غالب بن جاتے ہیں۔ غالب کے پہلو میں بیٹھے ہوں تو ادب سے میر مجروح کا کردار سنبھال لیتے ہیں۔ چونکہ شعر اور اُس پر داد دینے کا مذاق برابر رکھتے ہیں اِس لیے ہنر مند کی داد اُس کے ہُنر کے موافق دیتے ہیں مگر مجال ہے احمق کو پتا چلنے دیں کہ وہ اُسے احمق سمجھ رہے ہیں۔ اُس کے ایک دو واقعات سُن لیجیے۔
ہمارے شہر میں ایک افسر ہوتے تھے۔ اُن کا نام اقبال فریدی تھا۔ وہ رہنے والے تو ساہیوال کے تھے مگر مستقل اوکاڑہ کے ہو گئے تھے۔ بہت معصوم، نادان اور بھلے آدمی تھے۔ اوکاڑہ میں اُنھیں ایک بہت بڑا سرکاری مکان ملا ہوا تھا۔ وہیں دعوتوں کے سلسلے کرتے، مشاعرے کرواتے اور اپنے شعر گا کر سناتے۔ موسیقی اور شاعری کا اُنھیں اتنا ہی پتا تھا جتنا ایک سرکاری افسر کو ہو سکتا ہے۔ اِدھر کاشف اور لالہ شہزاد کی کیفیت یہ تھی کہ دونوں اُسے قوال فریدی کے نام سے پکارتے لیکن اُسےخبر تک نہ ہونے دیتے۔ یہ دونوں جس قدر بڑھ بڑھ کر داد دیتے بیچارے اقبال فریدی صاحب اتنا ہی لہک لہک کر غزلیں پڑھتے۔ مشاعرہ ختم ہوتا تو تواضع کا سامان سب سے پہلے اور سب سے زیادہ اُنھی کے سامنے رکھتےجہاں سے داد زیادہ آ رہی ہوتی۔
کاشف مجید کے بال بہت بڑے تھے۔ ایک بار یوں ہوا کہ اقبال فریدی صاحب اپنی غزل گا کر سنا رہے تھے۔ اِدھر کاشف نے اپنے اوپر حال طاری کر لیا اور مست ہو کر ناچنے لگے۔ واہ فریدی صاحب واہ۔ بالوں کو عزیز میاں کی طرح کبھی ایک طرف جھٹکتے کبھی دوسری طرف۔ اُسی عالم میں رقص کی لَے تیز تر ہوتی گئی اور مجمع کی طرف سے داد کے ڈونگرے برستے گئے۔ اچھا خاصا مشاعرہ بھیم داس کا اکھاڑہ بن گیا۔ یہاں تک کہ مشاعرہ شعری خوانی سے اٹھ کر میاں داد خان کی قوالی ہوگئی اور اقبال فریدی صاحب مسخرہ بن کے رہ گئے لیکن بیچارےآخر تک نہ سمجھےکہ کاشف مجید داد نہیں، لعنت بھیج رہا ہے۔
دوسری جانب لالہ احمد شہزاد اُس جرم میں برابر کا شریک۔ پھر وہی ہوا تمام محفل میں اقبال فریدی صاحب نے جن دو حضرات کا شکریہ ادا کیا وہ کاشف مجید اور لالہ صاحب تھے۔ یہ تو ایک بات ہوئی مگر کہیں وضع داری اور ضرورت مندی باہم ہو جائیں تو کاشف بھائی یہ خطرہ مُول لیے لیتے ہیں کہ پائو بھر کو پنسیری کرنے چل پڑتے ہیں۔ اِس کا ایک تجربہ میرے ساتھ یوں ہوا کہ ایک دن کہنے لگے میاں ناطق ہمارے پرنسپل صاحب شعر کہتے ہیں بلکہ ہم نے کہلوانے شروع کیے ہیں اور اب اپنے کیے پر پچھتا رہے ہیں۔ میرا خیال ہے اُنھیں بھی مشاعرے کی دعوت دی جانی چاہیے۔ ہم نے کہا سو بسمہ اللہ چلے آئیں۔ اب کاشف نے آگے بڑھ کر ایک اور مطالبہ کیا اور کہا، چونکہ وہ ہمارے پرنسپل ہیں۔ اپنی گاڑی پر بھی لاد لے جاتے ہیں۔ اِس لیے اُنھیں مہمانِ اعزاز کے طور پر مدعو کر لیں۔
ہمیں اِس پر بھی اعتراض نہ ہوا۔ لیجیے احمد ساقی صاحب تشریف لانے لگے اور مشاعرے چلنے لگے۔ حتیٰ کہ کاشف کی بدولت اُنھی مشاعروں میں صدرِ مشاعرہ کی کرسی تک پہنچے اور شاعرِ مشہورِ شرق و غرب ہو گئے۔ پھر اِسی افسری کے برتے پر کاشف اور سخن ور نجمی صاحب کے مربی کہلانے لگے اور اُنھیں یہ شکایت بھی ہونے لگی کہ اُن کو مسعود صاحب پر ترجیح کیوں نہیں دی جاتی؟ کھل کر تو نہ کہتے تھے مگر سمجھتے یہی لگے تھے کہ گویا میر صاحب اُن کی پہلوٹھی کا بیٹا ہے۔
ایک دن مَیں اسلام آباد سے لوٹا تو کاشف کا فون آیا، ناطق بھائی آج شام احمد ساقی صاحب کی طرف سے مٹن کڑاہی کی دعوت ہے۔ شام کو ٹھنڈی سڑک کے بازو میں سنسان آباد پریس کلب کے موڑ پر آ جایے گا۔ وہاں کھانا کھائیں گے پھر غوثیہ چوک کے چائے والوں چائے پئیں گے۔ مَیں اوکاڑہ جائوں اور لالہ احمد شہزاد پہلو میں نہ ہو تو محسوس ہوتا ہے جیسے مَیں علی اکبر ناطق نہیں، ایک بانجھ عورت ہوں۔ مَیں نے پوچھا لالہ کہاں ہوگا، کہنے لگے۔ لالہ احمد شہزاد کو بھی کہہ دیا ہے۔
پھر اُسی شام ہم اکٹھے ہو گئے۔ آج کل تو خیر ہر جگہ آبادی کے اکھوے پھوٹ رہے ہیں اور ٹریفک کا بلیک ہول ہر سبز و سرخ نگل رہا ہے۔ تب اوکاڑہ میں ہجوم کا معاملہ یہ ہوتا تھا کہ شام پڑتے ہی شہر خالی، کوچہ خالی اور خانہ خالی ہوجاتاتھا۔ شام کو اکٹھے ہوئے تو کاشف میاں صاحبِ کڑاہی کو لیے وہیں بیٹھے تھے۔ لالہ میرے ساتھ تھا۔ کاشف کا معاملہ یہ ہے کہ کسی بھی معاملے میں رائے کم دیتے ہیں، دوسرے کی رائے سے اتفاق زیادہ کرتے ہیں۔ لہذا کڑاہی کے بعد جب احمد ساقی صاحب نے شعر سنانے کا مدعا ظاہر کیا تو کاشف مجید نے فوراً تائید کی۔ یوں ساقی صاحب غوثیہ چوک میں قہوے کی چسکیوں کے ساتھ غزلوں پر غزلیں سنانے لگے گویا کڑاہی کا مدعا ہی یہ تھا۔ ایک کے بعد ایک غزل۔
لالہ مَیں اور کاشف گویا غزلیں سُن کا کر داد دینے والے روبوٹ بن گئے۔ کاشف بیچارہ سمجھا تھا یہ صاحب ایک دو غزلیں سنا کر دم لے گا مگر یہاں تو دیوان کے دیوان لپیٹے جا رہے تھے۔ اب یہ ہوا کہ جیسے جیسے غزلوں کی تعداد بڑھتی گئی کاشف کی داد بڑھتی گئی اور ساقی صاحب اِس داد کو واقعی داد سمجھ کر مزید حوصلہ پکڑتے گئے۔ اُنھیں کیا معلوم تھا یہ داد نہیں میرے ماتحت کام کرنے والے کی کراہیں ہیں۔ اِدھر میرا حال یہ تھا کہ پہلے تو داد میں زوروشور تھا پھر مدھم ہوگیا اور آہستہ آہستہ صرف منہ تکنے تک رہ گیا۔ خیر جیسے تیسے یہ منزل سر ہوئی۔ اب طے ہوا کہ آئندہ جب بیٹھیں گے مٹن کڑاہی کے بغیر بیٹھیں گے کیوں کہ اُس کی قیمت کلیسٹرول سے بھی زیادہ جان لیوا ہے۔
وقت نکلتا چلا گیا۔ اِس بات کی خبر ساقی صاحب کو بھی ہوگئی اور وہ اپنے جی میں ہمیں نادر شاہ سمجھ کر ناراض ہو بیٹھے۔ لہذا ایک وقت آیا کاشف سے ہماری راہیں جدا ہوگئیں۔ وجہ یہی حضرت ساقی صاحب بنے۔ ہم نے اُن کی غزلیں سننے سے حذر کیا۔ اِدھر کاشف اور سخن ور نجمی کی مجبوری کا معاملہ سنجیدہ تھا۔ وہ بغیر ساقی کے ہماری دوستی نبھاتے تو نوکری کے پَر جل جاتے۔ اُس کے بعد کاشف صاحب بھی ہم سے ناراض رہنے لگے۔
معاملہ یہ تھا کہ مجھے جملہ پھینک کر بندہ ضائع کرنے کی عادت ہوگئی تھی۔ آئے دن کوئی بات منہ سے نکل جاتی۔ واللہ میرے دل میں میل نہیں تھا۔ بس یونہی شرارتی بچوں کی طرح کسی کے کنکر کھینچ مارا اورکسی پر بارش کے چھینٹے اڑا دیے۔ ہوا یہ کہ ایک دن ہم نے اوکاڑہ میں ظفر اقبال کے ساتھ ایک نشست کا اہتمام کیا جس میں کاشف اور اُن کے منکر نکیر یعنی سخن ور نجمی صاحب اور ساقی صاحب کو بھی مدعو کیا۔ پروفیسر احمد ساقی صاحب کو ہم سے بڑی شکایتیں ہو چکی تھیں۔ ایک تو وہ خود نہ آئے اور ستم یہ کہ اپنے ستم رسیدہ ماتحتوں کو بھی روک دیا۔ اِدھر ہمارے قلم کے چاقو نے نام لیے بغیر کم و بیش تمام پروفیسروں کی دستاریں چاک کر دیں۔ اِس بات کو کاشف بھائی دل پر لے گئے اور سخت شاکی ہوئے۔ ہم نے لاکھ کہا، یہ سب کیا دھرا مسعود احمد صاحب کا ہے اُنھی کو پوچھیے مگر وہ ناراض ہمی سے رہے۔ بالآخر وقت کی رفتار نے اُنھیں سمجھا دیا اور ہم سے شیر و شکر ہو گئے۔
کاشف صاحب خدا جانتا ہے آپ کے شعر کو بھی پسند کرتا ہوں اور آپ کو بھی۔ ایک زمانے سے پوچھ لیجیے سب کہیں گے ناطق کوئی بات دل میں نہیں رکھتا۔ طبیعت کا صاف ہے اور دل کا شیشہ ہے۔ مجھ سے ہرگز ناراض نہ رہا کیجیے۔ آپ مجھ سے بڑے ہیں۔ کم سے کم اپنے سٹوڈنٹس والی شفقت رکھ لیا کیجیے۔
مَیں نے جیسے پہلے عرض کیا تھا کہ کاشف کا اصل شہر لیہ ہے۔ یہاں کے ایک اور فرزند فخرِ دہر ہیں۔ احمد اعجاز ہمارے دوست جنرلسٹ اور فکشن رائٹر ہیں۔ گاہے ماہے دانش کی کتابیں بھی لکھتے ہیں اور دونوں ایک دوسرے سے اچھے واقف ہیں۔ کاشف مجید کی دوسری خوبی یہ ہے کہ اِنھیں اوکاڑہ پسند ہے اور سدا کے لیے وہیں کے پابند ہو چکے ہیں۔ طبیعت میں مٹھاس اور ٹھنڈک ہے۔ غزل البتہ جب کہتے ہیں تو آگ بڑھکا دیتے ہیں۔
اِدھر ہم ذرا ایک دو فقرے لکھ دیں تو مسعود صاحب منہ بنا بیٹھتے ہیں اور بات بات پر گائوں کے شرارتی بچوں کی طرح بارش کے پانی میں کھڑے راہ چلتوں پر چھینٹے اڑاتے ہیں۔ اُنھیں تو یہ کہنے کا بہانا چاہیے کہ ناطق ایک شیطانی صفت کا پرتو ہے۔ بھئی کاشف میاں مولا علی کی قسم کھاتا ہوں آپ کے متعلق میرے دل میں صرف محبت ہے، کوئی کج روی نہیں۔ آپ ہم سے محبت کرتے ہیں تو ہم بھی آپ کو مدنی بھائی سمجھتے ہیں۔ آپ شعر اچھا کہتے ہیں تو واللہ میرے اچھے جملے کی داد بھی دے دیا کریں۔ بجائے اِس کے کہ ناراض ہوں ہنس کر مزہ لیا کریں۔ اب خود ہی بتایے وہ بھی کوئی بندہ ہے جو جملے کا جواب بندوق سے دے۔ یقین جانیے اِدھر اسلام آباد میں میرے ایسے ایسے خبیث دوست ہیں کہ مجھے چاروں طرف سے شمر کی طرح نیزے مارتے ہیں حالانکہ وہ سید ہیں۔ مگر مَیں سہہ جاتا ہوں اور ایک آپ ہیں کہ ہماری بات نہیں سہہ سکتے۔ اے میرے ملکی و غیر ملکی دوستو، یاد رکھیے گا اوکاڑا پر مجھے جن چند دوستو پر اچھی شعر گوئی کا گمان ہے اُن میں مسعود احمد کے علاوہ کاشف مجید ضرور شامل ہے۔
کاشف کا پہلا شعری مجموعہ "دعا کی طرف لوٹتے ہیں" 2001 میں منظرِ عام پر آیا تھا۔ جہاں تک مَیں سمجھا ہوں کاشف مجید کی شاعری میں جلترنگ کا ساز نہیں نقارے کا دمدمہ ہے جس میں ضرب کی آواز جنگ کے طبل کی بجائے قلندر کا نعرہ مستانہ لگتا ہے۔ وہ لفظ سے ساقی گری کی نہیں، جام و سبو کو توڑنے کا کام لیتے ہیں اور اُسے روایت کی طرف پلٹنے نہیں دیتے۔ اپنے ہُنر کو شاعرانہ اداکاری اور وفاکو دنیا داری کا فریب کہنے سے نہیں چوکتے۔
اکثر نقاد جب کسی شاعر کے فن کا محاسبہ کرنے بیٹھتے ہیں تو اُس کی لفظی کاریگری کو یکسر نظر انداز کرکے فقط اُسے پیغمبرِ اخلاقیات کا لقب دے دیتے ہیں۔ اگرچہ اِس کی ابتدا اقبال کے مدرسین نقادوں سے ہوئی ہے لیکن رفتہ رفتہ یہی کلیہ اُن مدرسین نے دوسرے شاعروں پر بھی لاگو کرنا شروع کر دیا۔ یہ لوگ شاعر کی شاعرانہ تجلیوں، رمز و کنایہ، رعایت کاری اور تمثیلوں کو حقیقت اور مجاز کے لایعنی نہ کھونٹوں سے باندھ دیتے ہیں، حالانکہ صرف اِنھیں اُس کے لفظ کی ہنر مندانہ نشست و برخواست کو دیکھ کر فیصلہ کرنا چاہیے۔
مَیں کہوں گا کاشف مجید اپنے شعر میں لفظ کے برجستہ اور با معنی استعمال کا نمایندہ ہے۔ اُس کے ہاں مصرعہ بھرتی کے لفظوں کا ملبہ نہیں ہوتا بلکہ حُسنِ رعایت اور استعارہ کے ہمہ جہت پھیلائو کے سبب مرتب عمارت کا نقش ہوتا ہے۔ کاشف مجید زوال پذیر معاشرے کا رسالہ لکھنے نہیں بیٹھتا، وہ صرف دنیا کے اجتماعی کردار کو اپنی ذات کا کردار بنا کر پیش کر دیتا ہے۔ کاشف کی فکر دراصل شعر کی فکر ہے نہ کہ اخلاقیات کی فکر۔
میرا خیال ہے ایک اچھا شعر بھٹکے ہوئے کردار کا اجالا ہوتا ہے کسی مولوی کی عبادت نہیں اور یہ اُجالا کاشف مجید نے بہت عمدگی سے اپنی سطر سطر میں پھیلایا ہے۔ اُس نے آگ، تنہائی، اداکاری اور محبت کے چار عناصر کے جوہر کو شعر کے استعارے میں لغت کے معنی کی بجائے ضرورت کے معنی کی طرف منتقل کیا ہے۔ وہ خدا کی بے نیازی کے شکوہ کا قائل نہیں بلکہ اُس کی بے نیازی کا شراکت دار ہونے کا متقاضی ہے۔ اچھا یہ تمام چیزیں تو اُس کے خیالات کا پرتو ہو کر شعر کے سانچے میں ڈھلتی ہی ہیں لیکن اِن سب سے آگے کی چیز اُس کے شعر کی بلند آہنگی ہے جسے مَیں نے نعرہ مستانہ کا نام دیا ہے۔
چند باتیں مَیں نے کاشف مجید کے شعر پر مضمون کی صورت نہیں بلکہ سرِ راہے اِس لیے کی ہیں تاکہ بتا دوں جس فنکار کی بات ہو رہی ہے وہ دراصل اوکاڑہ کے ایک محلے کا شاعر نہیں دنیائے شعر کا فنکار ہے۔ جس کی شعر گوئی کی مشقت نے اُسے استعارے کے باریک تار پر آسانی سے چلنا سکھا دیا ہے۔ آیے اُن کی شاعری کے جلوے بھی دیکھ لیجیے۔
کب اپنے ہونے کا اظہار کرنے آتی ہے
یہ آگ مجھ کو نمودار کرنے آتی ہے
ہوائے کوچۂ دنیا مَیں جانتا ہوں تجھے
تو جب بھی آتی ہے بیمار کرنے آتی ہے
جو دل سے ہوتی ہوئی آ رہی ہے میری طرف
یہ لہر مجھ کو خبردار کرنے آتی ہے
***
شروع کارِ محبت تُو کر کہیں سے بھی
کہ میرا کام چلے گا تری نہیں سے بھی
یہاں کسی نے بھی مجھ کو گلے لگایا نہیں
مکان سے بھی گلہ ہے مجھے مکیں سے بھی
اب اِن کو تیسرا رستہ کوئی دیا جائے
یہ لوگ تنگ ہیں دنیا سے اور دیں سے بھی
نوٹ: (یہ خاکہ مکمل نہیں ہے) مکمل کتاب میں آئے گا۔

