Aftab Iqbal Aur Sohail Ahmed Azizi Ka Mamla
آفتاب اقبال اور سہیل احمد عزیزی کا معاملہ
پچھلے دو دن سے سہیل احمد اور آفتاب اقبال کے درمیان نہایت تلخ و ترش گفتگو چل رہی ہے۔ جس میں جذباتی عوام حتیٰ کہ میرے دوستوں میں سے بھی کئی افراد سہیل احمد کو لیجنڈ کا خطاب دے رہے ہیں اور اُسے انسانیت کا درد رکھنے والا بتا رہے ہیں۔ اور آفتاب کو گستاخ اور متکبر ثابت کرنے کو تُلے ہوئے ہیں۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ سہیل احمد جیسوں کو اداکاری کرنا نہیں آتی۔ آپ اُنھیں جو کردار بھی دیں گے، وہ اُسے عزیزی بن کر ہی نبھائیں گے جسے زیادہ دیر تک دیکھنے کی ہمت نہیں ہو پاتی۔ جبکہ لیجنڈ معین اختر تھا کہ ہر کردار میں زبان و عمل کی صورت میں ڈھل جاتا تھا، آپ اُس کی لوز ٹاک کی تمام قسطیں دیکھ لیں، سہیل احمد بیچارا اُس کے پاسک بھی نہیں۔ حتیٰ کہ عزیزی سہیل احمد تو امان اللہ، منور ظریف، حتیٰ ننھے کے مقابلے کا نہیں ہے۔
دوئم سہیل احمد جیسے اداکار کبھی نہیں چاہتے کہ مارکیٹ میں نیا ٹیلنٹ سامنے آئے۔ وہ لوگوں کو راستہ دینے کی بجائے راستہ روکتے ہیں۔ اگر اِس صاحب نے کسی ایک شخص کی بھی مدد کی ہو، وہ سامنے آ کر بتا دے؟ جبکہ آفتاب اقبال ایک ٹرینڈ سیٹر ہے۔ اُس میں بطور انسان کئی خامیاں ہو سکتی ہیں مگر اُس کو جیسے ہی موقع ملا بیسیوں ٹیلنٹ سامنے لے آیا، اور اُنھیں باعزت پلیٹ فارم دیے۔ سینکڑوں خاندانوں کی معیشت چل پڑی۔ جبکہ سہیل احمد تو اپنے ساتھ بھی کسی کو بیٹھنے نہیں دیتا۔
سب سے بڑھ کر یہ کہ چاپلوس ہے۔ مقتدر لوگوں کے درِ دولت پر جبہ سائی کو پہنچ جاتا ہے۔ جبکہ آفتاب اقبال میں اتنی انا تو ہے کہ وقت آنے پر اُس نے نہ فوجیوں کی بات مانی نہ شریفوں کے درِِ دولت پر جبہ سائی کی۔ اور تکبر کی حالت یہ ہے کہ آفتاب اقبال کواگر کسی گلی کے بچے نے بھی فون کیا ہے تو اٹھا کر سُن لیتا ہے۔ جبکہ سہیل احمد اپنے ساتھیوں کو بھی کیڑا مکوڑا کہہ کر پکارا رہا تھا۔ رہی فقیر محمد فقیر کی بات کہ اُس پر سہیل احمد کو فخر ہے تو کیا ظفر اقبال پر آفتاب کو فخر نہیں ہونا چاہیے۔
ایک بات اور سُن لیجیے جو شخص اپنے وطن سے محبت کرتا ہے اصل میں وہی انسانیت کے درجے پر ہوتا ہے۔ رسولِ خدا مدینہ آگئے مگر اُن کے دل سے مکہ کوئی نہ نکال سکا۔ عزیزی سہیل احمد نے اپنے گائوں کا ذکر تک کبھی نہ کیا اور ظلم یہ کہ آفتاب اقبال اپنے گائوں، اپنے شہر اور اپنے وطن کا تذکرہ کرتا ہے تو یہ بھی اُسے تکلیف دیتا ہے۔
بھئی مَیں آفتاب اقبال کے بعض معاملات پر حرف گیر ہو سکتا ہوں کہ اُسے ہر شے کے بارے میں دوسروں سے زیادہ با خبر ہونے بلکہ کہلوانے کی عادت ہے مگریہ چیزیں سب انسانوں میں کم و بیش پائی جاتی ہیں کہ جب وہ کامیابیوں کی سیڑھی پر چڑھتے ہیں تو عموماً اِس طرح کا رویہ پیش کرتے ہیں لیکن ایک بات طے ہے سہیل احمد نے سوچ سمجھ کر آفتاب پر حملہ کیا ہے تاکہ عوام الناس کو نئے شوشے کی طرف لگا دیں کیونکہ اُس کے اگلے ہی دن حضرت صاحب علیم خاں کی گود میں بیٹھے ہوئے تھے۔ سوئم سہیل احمد کو خبر ہو کہ ظفر اقبال برصغیر میں ایک بڑے شاعر کی حیثیت رکھتا ہے جبکہ فقیر محمد فقیر کا پنجابی میں جو مقام ہے اُس سے بڑا مقام تو اِس وقت افضل ساحر کا ہے۔