Adab Ka Perfume
ادب کا پرفیوم

احباب شارجہ بک فیسٹول اور پاکستان میں ہونے والے ادبی فیسٹولز میں ایک بنیادی فرق نظر آیا کہ شارجہ میں ادیب اور شاعر ہی بلائے گئے ہیں۔ اِس میں کسی زبان کو امتیاز نہیں، کالے گورے میں تفریق نہیں۔ افریقہ، یورپ، ہند و سندھ میں تقسیم نہیں کی گئی۔ ادیبوں کو فقط انگریزی اور عربی بولنے کا پابند نہیں بنایا۔ جسے جو زبان آتی ہے، اُسی میں بات کرے۔ سُننے والوں کو اُن کی اپنی زبانوں میں سُنائی دے گی۔ نہ یورپ کا تھرڈ کلاس ادیب بلا کر اپنے ملک کے فرسٹ کلاس ادیب کو نظر انداز کیا۔
پاکستانی فیسٹولز کی طرح ادب کے نام پر حکومتی صحافی اور ناچنے گانے والوں کو اکٹھا نہیں کیا گیا۔ نہ ممی ڈیڈی قسم کی مخلوق نظر آئی جو ٹچ مچ ٹچ مچ بولتی تھی۔ نہ یہاں کوئی بلیک ہولیا تھا نہ سفید ہولیا۔ فقط وہی تھا جس نے کچھ ادب پر کتاب لکھی ہے فکشن پر یا ہسٹری پر۔
کل میرا سیشن تھا جس میں ایک افریقی، ایک کویتی اور ایک مَیں تھا۔ ہم تینوں فکشن کے لوگ تھے جن کے ساتھ مسلسل ڈیڑھ گھنٹا باتیں ہوئیں۔ حیرت یہ تھی کہ سوال کرنے والی بی بی نے تینوں کا کچھ نہ کچھ کام پڑھ رکھا تھا۔ لہذا اُس کے سوالات بھی اِدھر اُدھر کی باتیں نہ تھیں۔
جب سیشن ختم ہوا تو تین لوگ آگے بڑھ کر میرے قریب آئے، جن میں ایک بی بی تھی، بولے سب سے اچھے جوابات آپ ہی کے تھے۔ لوگ یہاں ایک جیسی باتیں کرتے ہیں۔ ایک بی بی جو عربی بولتی تھی اور انگریزی بھی بولتی تھی، بولی مَیں جتنے سیشن میں گئی ہوں، آپ کی گفتگو بالکل الگ اور نئی تھی۔ پھر اُس نے وہیں کھڑے کھڑے ایمازون سے میری انگریزی ترجمہ کتابیں آرڈر کر دیں۔ ایک افریقی نے کہا، ناطق صاحب آپ کی زبان نہیں دل بول رہا تھا۔
یہاں سرمد خان بہت کام کر رہا ہے، ایسے لوگ غنیمت ہوتے ہیں۔
دوستو مذاق ایک طرف لیکن سچ یہ ہے کہ مولا روز بروز عزت میں اضافہ کیے جا رہا ہے۔ بس دعا مانگو، مَیں کبھی کوئی کھچ نہ مار دوں۔ کیونکہ بہت کم انسان اپنی اوقات میں رہ پاتے ہیں۔ ہمارے چیف ہی کو لیجیے۔
سیشن کے اختتام پر کویتی ادیب نے بہت تپاک سے میرا ماتھا چوما اور کہا، آج سے ہم دوست ہو گئے۔ جب چاہیں آپ کو کویت میں دعوت دوں گا اور جنوری میں آپ کے پاس پاکستان آئوں گا۔ اُس نے ایک بہت مہنگا پرفیوم بھی دیا اور زبردستی جیب میں پانچ سو ڈالر ڈال دیے اور بولا، یہ چھوٹا سا تحفہ سمجھ لیجیے۔ آپ نے جس انداز سے ہم سب کو گرویدہ بنایا ہے اُس کی کوئی قیمت نہیں۔ مَیں نے بھی نہ نہ کرتے ہوئے پیسے جیب میں ڈال لیے اور پرفیوم رکھ لیا۔
احباب باتیں زیادہ کیا کرنی۔ فیسٹول کا اہتمام بہت اچھا ہے۔ پیسے کافی خرچ کیے گئے ہیں اور ادیبوں کو عزت بھی دے رہے ہیں۔
ہاں ایک بات کا یہاں پتا چلا ہے جو ہمارے حکمران یہاں پر اپنی عوام سے غداری کرکے گئے ہیں۔ وہ وہیں آن کر لکھوں گا۔ بخدا دل رو رہا ہے۔
سُنا ہے اُدھر فوتگیاں ہو رہی ہیں۔ چلو کچھ تو اچھا ہو رہا ہے۔ لیکن علی بابا تاج کی موت نے توڑ دیا ہے۔ کیا بھلا آدمی تھا، میرے مولائی بھائی کو خدا آلِ محمد کے سائے میں رکھے۔

