1.  Home/
  2. Blog/
  3. Akhtar Hussain/
  4. Pakistan Ki Siasi Jamatein Zawal Ka Shikar Kyun?

Pakistan Ki Siasi Jamatein Zawal Ka Shikar Kyun?

پاکستان کی سیاسی جماعتیں زوال کا شکار کیوں؟

انسان نے خاندان اور قبیلے سے ریاست کا سفر اپنی بقاء کو یقینی بنانے کیلئے کیا۔ معاشرے کی بقاء میں سب سے بڑا کردار افراد کے مثالی کردار اور آفاقی نظریہ کا ھوتا ھے۔ جب بھی کوئی شئے اپنی وجہ تخلیق کھو بیھٹے تو اس کا وجود خودبخود تحلیل ھوجاتا ھے۔ قومیں اور معاشرے جب تک اپنے why (وجہ تخلیق) سے جڑے رھتے ھیں زمانہ انھیں اپنا رھنما بنا لیتا ھے بشرطیکہ ان کا why اللہ پاک کے آفاقی اصولوں کو مدنظر رکھ کر بنایا گیا ھو۔ ریاست مدینہ پوری دنیا کیلئے فلاحی ریاست کے طور پر بطور مثال تسلیم کی جاتی ھے۔ پورپین اسکالر مائیکل ھارٹ کو ماننا پڑا کہ اگر کوئی دنیا میں روحانیت، معاشرت،معیشت اور سیاست کے میدان میں عظمت کے جھنڈے گاڑ چکا ھے تو وہ ھمارے پیارے آقا حضرت محمد ﷺ کی بابرکت ذات مبارکہ ھے۔ مکہ شریف سے شروع ھونے والا عظیم انقلاب پوری دنیا میں غالب آکر رھا۔ یہ مثالی کامیابیاں اس وجہ سے ملیں کہ عظیم لیڈرشپ نے عظیم Vision کی بنیاد پر انسانیت کو عظمت کی معراج پر فیض فرمایا۔

اس کے مقابلے میں یونان سے لےکر روم تک، پرشیئن امپائر سے لےکر موجودہ یورپی تہذیب تک آفاقی اصولوں کی خلاف ورزی کی وجہ سے اجڑ چکی ھیں۔ ڈاکٹر علامہ محمد اقبال رحہ کا فرمان آج سچ ثابت ھوچکا ھے، آج پورپی تہذیب اپنے ھی خنجر سے خودکشی کر چکی ھے۔ یورپ میں خاندانی نظام ٹوٹ چکے ھیں۔ ان کی معیشت چند سود خور خاندانوں کے ہتھے چڑھ چکی ھے، حکمرانوں کی ناانصافی پر مبنی جنگی پالیسیوں نے یورپ کے باشندوں کو عالمی برادری میں مشکوک اور غیر محفوظ بنا دیا ھے۔ آج معاشی میدانوں میں چین، ترکی اور ملائشیا کا ڈنکا بج رھا ھے۔ تاریخ گواہ کہ امن و خوشحالی کی روح اللہ پاک کے آفاقی اصول ھوتے ھیں، جو اپنا لیتا ھے وہ عروج پاتا ھے otherwise عبرت ناک انجام مقدر بنتے ھیں۔

وطن عزیز پاکستان ایک عظیم خواب Vision اور قائد اعظم محمد علی جناح رحہ کی باکردار لیڈرشپ کی وجہ سے معرض وجود میں آیا۔ اس کے بننے میں دھائیوں پر محیط سیاسی جد وجہد شامل تھی۔ مسلمانوں نے مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے وطن عزیز کا حصول ممکن بنایا۔ مسلم لیگ سیاسی پارٹی کی حیثیت سے مسلمانوں کی سفیر تھی۔ قائد اعظم محمد علی جناح رحہ کی جہاں فانی سے رحلت کے بعد وطن عزیز پر انگریزوں کی supervision میں بنی Unionist پارٹی کی باقیات کا قبضہ ہوگیا جنہوں نے ذاتی مفاد کیلئے ایسے زہریلے بیج بوئے جس کی فصل پوری قوم کو ناانصافی، غربت، انتہاپسندی، فرقہ واریت اور دھشت گردی اور بلین ڈالر قرضوں کی صورت میں کاٹنا پڑی۔ انہی وڈیروں، جاگیرداروں، گدی نشینوں اور سرداروں کی اقتدار کیلئے آپس میں سرد جنگوں کی وجہ سے بیوروکریسی کے نمائندے سکندر مرزا نے مارشل لاء لگایا جس کو بعد میں خود بھی فارغ ھونا پڑا۔ بدقسمتی سے وطن عزیز میں قائد اور لیاقت علی خان کی رحلت کے بعد حقیقی معنوں میں سیاسی کلچر اپنی جڑیں نہ بنا سکا کیونکہ سیاسی منظر نامے پر سیاسی نمائندوں کے نام پر یونینسٹ پارٹی کے وڈیرے وارد ھوچکے تھے جنہوں نے سیاسی پارٹیوں کے نام پر پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنیاں بنالیں جن کا مقصد why خود کو بااختیار بنانا تھا۔

پاکستان بننے کے بعد پہلی جینوئن سیاسی پارٹی 30نومبر 1967 میں پیپلز پارٹی کے نام سے ذوالفقار علی بھٹو نے بنائی جس کا نعرہ عوامی شعور اور روزگار تھا۔ بھٹو صاحب کرشماتی شخصیت کے مالک ھونےکی وجہ سے جلد ھی عالمی کھلاڑیوں کے ریڈار میں آگئے۔ پیپلز پارٹی کو کاؤنٹر کرنے کیلئے ایم کیو ایم اور ن لیگ (حادثاتی پارٹیاں) وجود میں آئیں۔

واضح رھے کہ کوئی ڈکٹیٹر کسی سیاسی پارٹی کو ختم نہیں کرسگتا بلکہ سیاسی پارٹیاں ھمیشہ اپنے Vision پر کمپرومائز کی وجہ سے اجڑتی ھیں۔ یہی کچھ پاکستان کی پولیٹیکل پارٹیز کے ساتھ ھوا۔ ایک دوسرے کے خلاف استعمال ھونے کی روایت نے ایک طرف جہاں سیاسی کلچر کو کمزور کیا وھاں نان ڈیموکریٹک فورسز طاقتور ھوئیں۔

میرے خیال میں پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ طاقتور ترین خاندان ھیں جنہیں جدید دنیا electables کے نام سے جانتی ھے جن کا مقصد من پسند انتظامی افسران کی اپنے اپنے حلقوں میں پوسٹنگ کروا کر اپنی ھی عوام کو خوف کے ذریعے کنٹرول کرنا ھوتا ھے۔ ان موقع پرستوں کی بنیادیں مغلوں سے شروع ھوتی ھیں جو mughals kings کے کمزور ھونے پر انگریزوں سے مل گئے۔ گاندھی کے لینڈ ریفارمز کے نعرے نے انھیں قائد اعظم سے ملنے پر مجبور کیا۔ انہوں نے ہر آنے والے طاقتور کے ہاتھ کو چوما اور جانے والے کا سر بھی سلامت نہ رھنے دیا۔ یہ وہ موقع پرست ھیں جو ہر پارٹی میں شامل ھوکر اسے ھائی جیک کرلیتے ھیں۔ شعوری غربت کی وجہ سے عوام ہجوم کی صورت میں ان کے ھاتھوں میں کھیل رھے ھیں۔ ہر ڈکٹیٹر کو بھی ان کی ضرورت تھی اور پارٹیوں کے سربراھاں کو بھی ان سے سمجھوتے کرنے پڑے۔ سیاسی پارٹیوں کے سربراھاں نے جو بویا وھی کاٹا۔ اگر عام آدمی کا دل گڈگورننس سے جیتا جاتا تو پولیٹیکل لیڈرشپ کو ان جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے ھاتھ بلیک میل نہ ھونا پڑتا جس کی بہترین مثال طیب اردگان اور مہاتیر محمد ھیں۔

خود کو تبدیلی کا سفیر سمجھنے والے عمران خان نے بھی اقتدار کیلئے انہی electables کو ساتھ ملایا جنہوں نے محض دو سال میں ھی PTI لیڈرشپ کی 23 سالہ جدوجہد کو zero کردیا ھے۔

سبق یہ ھے کہ پاکستان جمہوری جدوجہد کے ذریعے وجود میں آیا۔ وطن عزیز میں امن و خوشحالی کا گلشن اس وقت تک آباد ھو ھی نہیں سگتا جب تک حقیقی معنوں میں اسلامی جمہوری اقدار کو نظام حکومت اور معاشرتی کلچر کا حصہ نہیں بنا دیا جاتا۔ اس کی ابتدا سیاسی پارٹیوں کے سربران کو خود کو آفاقی اصولوں کی روشنی میں حقیقی معنوں میں جمہوری بنا کر عوام کو لیڈرشپ کا حق دینے سے کرنی ھو گی ورنہ electables کے ذریعے آپ شاید اقتدار تو پالیں گے لیکن آپ کا انجام بھی ماضی کے حکمرانوں سے مختلف نہ ھوگا۔

ھمارے پیارے آقا حضرت محمد مصطفٰی ﷺنے ایک کیس کا فیصلہ کرتے ھوئے فرمایا تھا:تم سے پہلے کئی قومیں اس لئے تباہ و برباد ہوگئیں کہ جب ان کا طاقتور شخص جرم کرتا تو اسے چھوڑ دیا جاتا تھا جبکہ کمزور سے جرم سرزد ھونے پر پورا قانون لاگو ھوتا۔

Check Also

Adalti Islahat Aur Mojooda Adliya

By Raheel Moavia