Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Agha Shoaib Abbas
  4. Sindh Mein Livestock Air Fisheries Ka Jaiza

Sindh Mein Livestock Air Fisheries Ka Jaiza

سندھ میں لائیو اسٹاک اور فشریز کا جائزہ

بنیادی طور پر پاکستان ایک زرعی ملک ہے جس کی آبادی کا ستر فیصد حصہ زراعت مشتمل ہے بلکہ بقیہ حصہ جو صنعتی شعبہ پر مشتمل ہے وہ بھی زراعت سے حاصل کردہ خام مال کا محتاج ہے۔ مثلاً زراعت سے گنا ملے گا تو شوگر ملیں چلیں گیں یا کپاس سے روئی ملے گی تو ٹیکسٹائل کی صنعت چلے گی۔

دیکھا جائے تو زراعت کا شعبہ اتنا اہم ہے کہ اس سے نہ صرف ہم اپنی غذائی ضروریات پوری کرتے ہیں بلکہ مویشیوں کی غذائی ضروریات کا دارومدار بھی زراعت کے شعبہ پر ہی پر منحصر ہے۔ اس کے علاوہ زائد زرعی پیداوار دوسرے ممالک کو برآمد کرکے قیمتی زرمبادلہ بھی کمایا جاتا ہے۔ اس تناظر میں ہم دیکھتے ہیں کہ زراعت اور لائیوو اسٹاک کا بہت گہرا تعلق ہے جہاں زارعت ہوگی وہاں لائیوو اسٹاک بھی ہوگی۔

موجودہ دور میں تو مشینی کاشت ہوتی ہے ٹریکٹر وغیرہ کو استعمال میں لاکر فصل کاشت کی جاتی ہے جبکہ پرانے وقتوں میں بیل گاڑی یا گائے وغیرہ کو ہل چلانے میں بھی استعمال ہوتی تھیں دوسرے لفظوں میں مویشیوں کے بغیر زراعت نامکمل سمجھی جاتی تھی۔ دراصل زرعی معیشت کے طلب و رسد کے قانون کے مطابق کسی بھی چیز کی طلب زیادہ ہوگی تو اس کی قیمت زیادہ ہوگی اور اس کے برعکس کسی بھی اشیاء کی رسد زیادہ ہوگی تو قیمتیں بھی کم ہونگی۔

پاکستان جیسی ترقی پذید ملک میں بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ غذائی قلت کا بھی سامنا ہوسکتا ہے۔ طبّی ماہرین کا بھی کہنا ہے کہ غذائی قلت کا شکار افراد خصوصاً حاملہ خواتین کو پروٹین، وٹامنز اور معدنیات کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ چیزیں ہم صرف دودھ، گوشت اور انڈے سے ہی حاصل کرسکتے ہیں۔ لہذا پانی کی تو پہلے ہی قلت ہے اور آبادی بڑھنے کی یہی رفتار رہی تو غذائی قلت بھی پیدا ہو جائے گی یہی وجہ ہے کہ گوشت اور دودھ کی قیمتیں مہنگائی کی وجہ سے مسلسل بڑھ رہی ہیں۔ اسی طرح مرغی اور مچھلی کے گوشت کی قیمتیں بھی بڑھ رہی ہیں اور چونکہ سردیوں کا موسم ہے تو انڈوں کی قیمتیں بھی چار سو روپے فی درجن تک پہنچ گئی ہیں۔

قیمتوں کا بڑھنا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ کھانے پینے والے افراد زیادہ ہیں اور رسد کم ہے۔ اسی لیے ترقی یافتہ ممالک مویشیوں کی افزائش اور فش فارمنگ کو زیادہ سے زیادہ فروغ دیتے ہیں تاکہ طلب و رسد میں توازن قائم رہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کی قدرتی وسائل سے مالا مال ریاستیں اپنے قدرتی وسائل کو استعمال کرکے اپنی معیشت کو بہتر کرتی ہیں تاکہ عوام خوشحال ہوں۔

خوش قسمتی سے صوبہ سندھ قدرتی وسائل سے مالا مال صوبہ ہے جہاں سمندر بھی ہے، زراعت بھی ہے اور معدنی وسائل بھی پائے جاتے ہیں۔ سمندر سے نہ صرف تجارت ہوتی ہے بلکہ سمندری حیات ہماری غذائی ضروریات بھی پوری ہوتی ہیں، سندھ کی زراعت ہمیں کپاس، گندم، گنا وغیرہ فراہم کرتی ہے اور تھرپارکر کا کوئلہ ہمیں سستی بجلی فراہم کرتا ہے۔ اس لحاظ سے ہم دیکھتے ہیں کہ صو بہ سندھ قدرتی وسائل سے مالا مال صوبہ ہے۔

سندھ حکومت کا لائیوو اسٹاک اور فشریز کا شعبہ نہ صرف مویشیوں کی افزائش کو فروغ دے کر صوبے کی عوام کی غذائی ضروریات پوری کرنے کی کوشش کررہا ہے بلکہ اس سے دوسرے معاشی فوائد بھی حاصل کررہا ہے۔ سندھ حکومت کی طرف سے اس صنعت کو فروغ دینے کے لیے مختلف اسکیمیں، سبسڈیز اور ٹیکس کی مراعات فراہم کی جارہی ہیں۔ جس سے لاکھوں لوگوں کو روزگار فراہم ہورہا ہے۔

دیکھا جائے تو مویشیوں کی افزائش نسل صرف ایک صنعت نہیں ہے بلکہ اس سے جڑی کئی صنعتیں وابستہ ہیں۔ مویشوں سے نہ صرف دودھ، گوشت اور چمڑے کی صنعت سے وابستہ افراد کو بڑی تعداد میں روزگار ملتا ہے بلکہ کھر والے جانوروں سے گوشت، سینگ، کھر، چمڑا، ہڈیاں، چھچڑے اور یہاں تک کہ خون بھی استعمال میں لایا جاتا ہے بلکہ اس سے بڑھ کہ یہ کہ مویشیوں کا فضلہ بھی کھاد کے طور پر استعمال میں لایا جاتا ہے۔

کہا جاتا ہے مویشیوں کے فضلے سے اچھی فصل بھی اگتی ہے۔ اسی طرح خراب مچھلی اور جھینگے کو مرغیوں کی فیڈ کے طور پر استعمال میں لایا جاتا ہے۔ مویشیوں کے علاوہ سندھ کی سمندری حیات جس میں مچھلی، جھینگا اور کیکڑا شامل ہے۔ یہ تینوں چیزیں ناصرف مقامی طلب کو پورا کرتی ہیں لیکن سندھ میں صرف جھینگے کی صنعت ایک اہم اقتصادی شعبہ ہے جو نہ صرف مقامی مارکیٹ کو فائدہ پہنچاتی ہے بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی اس کی بہت مانگ ہے۔ اسی لئے سندھ حکومت پبلک پرائیوٹ پارٹنرشب کے ذریعے مقامی اور بین الاقوامی طلب کو پورا کرنے کی کوشش کررہی ہے۔

اس وقت دیکھا جائے تو پاکستان کو زرمبادلہ کی سخت ضرورت ہے لہذا جھینگے اور مچھلی کو برآمد کرکے ہم اپنا زرمبادلہ کے ذخیرہ میں اضافہ کرسکتے ہیں واضح رہے کہ صوبہ سندھ کا جھینگا ہر سال بڑے پیمانے پر خلیجی ممالک، یورپ، جاپان اور امریکا کو برآمد کیا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سندھ کا جھینگا دنیا بھر میں معیار اور ذائقہ کے اعتبار سے مشہور ہے اور اس کی مانگ میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔

پچھلے دنوں صوبہ سندھ میں لائیوو اسٹاک اور فشریز کی افزائش کو بڑھانے اور ان کو ایکسپورٹ کرنے کے حوالے سے صوبائی وزیر برائے لائیو اسٹاک اینڈ فشریز محمد علی ملکانی کی زیر صدارت فش ایکسپورٹر کا اہم اجلاس منعقد ہوا۔ جس میں سندھ کی جھینگے اور مچھلی کی برآمدات کے فروغ اور موجودہ چیلنج کا جائزہ لیا گیا۔ باالخصوص فش ایکسپرٹرز کی جانب سے جھینگے اور مچھلی کی برآمدات میں درپیش مسائل پر فوری حل کرنے کا جائزہ لیا گیا۔

مسائل تو ہر شعبہ میں ہوتے ہیں اور ان کو حل کرنے کی کوشش بھی کی جاتی ہے اس وقت صوبائی محکمہ کو برآمدی پراسیس میں حائل رکاوٹیں، جدید ٹیکنالوجی کی کمی اور کوالٹی کے مسائل سب سے بڑے چیلنجز ہیں اس کے علاوہ سمندری آلودگی، موسماتی تبدیلیوں کے اثرات بھی سمندری حیات کی صنعت کو متاثر کرتے ہیں۔

صوبائی وزیر کا کہنا تھا کہ ان مسائل کا حل بین الاقوامی معیار کے مطابق فارمنگ اور پراسیسنگ یونٹس کا قیام، ایکسپورٹرز کی تربیت اور وفاقی سطح پر پالیسی اقدامات کے ذریعے ممکن ہے۔ سندھ حکومت کے دائرہ اختیار میں جو مسائل آتے ہیں وہ ان مسائل حل کو کرنے کے لیے ہرممکن اقدامات کررہی ہے۔ صوبائی وزیر کا مذکورہ بیان کی بڑی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ جھینگے کی صنعت لاکھوں افراد کو روزگار فراہم کرتی ہے خصوصاً ساحلی علاقوں میں ماہی گیری اور سمندری مصنوعات کی تجارت میں بھی فائدہ مند ہے۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ سندھ حکومت کا محکمہ لائیوو اسٹاک اور فشریز کا شعبہ صرف غذائی اجزاء کی فراہمی تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ پاکستان کی معاشی ترقی، روزگار کی فراہمی اورر زرعی معیشت میں بھی اہم کردار ادا کرتا ہے اس شعبے کی ترقی سے نہ صرف کسانوں اور ماہی گیروں کو فائدہ ہوتا ہے بلکہ پوری معیشت پر بھی مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ صوبہ سندھ کی سمندری حیات جس میں سرفہرست جھینگا ہے۔ چونکہ جھینگے کی برآمدات میں سندھ کا حصہ نمایاں ہے اور عالمی منڈی میں سندھ کے جھینگے کو منفرد مقام حاصل ہے۔ اس لیے جھینگے کی سیڈنگ اور فارمنگ کے مواقع بڑھانے پر زور دیا جائے۔

اس حوالے سے سندھ حکومت نے نجی شعبے کے ساتھ پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ میں کامیابیاں حاصل کی ہیں جھینگے اور مچھلی کی برآمدات کوالٹی کو بہترکرنے کے لیے محکمہ لائیواسٹاک اینڈ فشریز نجی شعبے کے ساتھ مل کر کام کررہی ہے تاکہ بین الاقوامی معیارات پر پورا اترا جاسکے۔ دوسری طرف لائیوو اسٹاک اینڈ فشریز کے شعبے کو سائنس اور ٹیکنالوجی کے ذریعے جدید انداز میں استوار کیا جارہا ہے اور فش فارمنگ میں جھینگے کی فارمنگ کے لیے جدید تکنیکوں کا استعمال بڑھایا جارہا ہے۔ جس سے پیداوار میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔

اس تناظر میں ہم دیکھتے ہیں کہ سندھ حکومت کا محکمہ لائیوو اسٹاک اور فشریز بہترین کام کررہا ہے کیونکہ جب غذائی قلت ہوتی ہے یا دوسرے معنوں میں گوشت، دودھ اور انڈے مہنگے ہوتے ہیں تو حکومت پر شدید تنقید ہوتی ہے اس لیے پاکستان پیپلز پارٹی جیسی عوامی حکومت کا خاصہ ہے کہ وہ پہلے ہی سے اس طرح کی منصوبہ مندی کرتی ہیں کہ مستقبل میں آنے والی پریشانیوں سے بچا جاسکے۔

Check Also

J Dot Ka Nara

By Qamar Naqeeb Khan