Sindh Coastal Highway, Aik Game Changer Mansooba
سندھ کوسٹل ہائی وے، ایک گیم چینجر منصوبہ
جدید معاشیات میں ایک اصطلاح استعمال کی جاتی ہے "تختی ڈھانچہ" جس کو انگلش میں انفرااسٹرکچر کہا جاتا ہے۔ جس کے ایک وسیع معنیٰ ہیں لیکن عموماً یہ کشادہ سڑکیں، بہترین ریلوے کا نظام اور بہترین یوٹیلٹی (پانی، بجلی اور گیس) کی سہولیات کی فراہمی کے زمرے میں آتا ہے۔ اس لحاظ سے ہم دیکھتے ہیں کہ "ا نفرااسٹرکچر" کی تعمیر اور ترقی کے بہت سے فوائد ہیں جو کسی بھی ملک یا علاقے کی معاشی، سماجی اور ماحولیاتی حالت کو بہتر بنانے میں مدد دیتے ہیں۔ جس سے معیشت کی ترقی ہوتی ہے نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کاروباری سرگرمیوں میں آسانیاں پیدا ہوجاتی ہیں نیزسرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی بھی ہوتی ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ جہاں بھی ذرائع نقل و حمل کی سہولیات ہونگی وہیں تجارتی سرگرمیاں بھی ہونگی۔ ماضی میں سندھ کی قدیم تہذیب کا جب مطالعہ کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ آبادیاں دریائے سندھ کے قریب ہی آباد ہوتی تھی تاکہ آسانی سے تجارت ہوسکے اسی طرح دیبل کی قدیم بندرگاہ بھی تجارتی مقاصد کے لیے استعمال ہوتی تھیں لیکن جب دریائے سندھ نے راستہ تبدیل کیا تو وہ ویران ہوگئی۔
زمانہ قدیم میں پانی کے تجارتی جہاز سمندر سے بذریعہ دریائے سندھ ملتان تک جاتے تھے اور یہی چیز ہم جدید زمانے میں بھی دیکھتے ہیں کہ سندھ کے تمام بڑے بڑے شہر دریائے سندھ کے قریب آباد ہیں اور یہی دریائے سندھ جب سندھ کے ساحلی علاقوں میں گرتا ہے تو وہ بھی سندھ کا سب سے بڑاساحلی شہر کراچی تجارتی مرکز ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو کراچی میں سرمایہ کار کو وہ تمام سہولیات میسر ہوتی ہیں جو اس کو درکار ہوتی ہیں۔ سرمایہ کار کو اپنی صنعت میں خام مال لانے اور اس کو (Value Added) کرکے دوبارہ مقامی اور بین الاقوامی مارکیٹ میں پہنچانے کے لیے بندرگاہ، ریلوے اور ہوائی جہاز کی سہولیات کراچی میں میسر ہوتی ہیں۔
یہ بات عام طور پر مشاہدہ میں بھی آئی ہے کہ جس علاقے میں اچھی سڑک بن جاتی ہے اس علاقے کی زمین کی قیمتیں بھی بڑھ جاتی ہے۔ اس کے برعکس پانی، بجلی، گیس، اسکول، کالج یا اسپتال قریب نہ ہو تو زمین کی قیمتیں اتنی تیزی سے نہیں بڑھتی۔ دیکھاجائے تو معاشی سرگرمیاں بہترین "انفرااسٹرکچر" سے بڑھ جاتی ہیں۔ اس وقت پورے پاکستان باالخصوص صوبہ سندھ کا اولین مسئلہ معاشی ہے۔ لوگ مہنگائی، غربت اور بیروزگاری کے ہاتھوں سخت پریشان ہیں اوپر سے بجلی پانی گیس کے بل بہت زیادہ آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سندھ حکومت تمام شعبوں خصوصاً ٹرنسپورٹ اور سڑکوں کی مرمت وغیرہ پر زیادہ زور دے رہی ہے۔
معاشی ترقی کا اصول ہی یہی ہے کہ پبلک اخراجات ہوں جس سے براہ راست غریب عوام کو روزگار ملتا ہے جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ معاشرہ میں خوشحالی آتی ہے اور عوام مطمعین رہتے ہیں۔ اس پس منظر میں ہم دیکھتے ہیں کہ کراچی سمیت پورے سندھ میں ترقیاتی کاموں کا سلسلہ جاری ہے۔ کراچی میں جا بجا انڈر پاس، پل اور سڑکیں بن رہی ہیں جس سے ٹریفک کی روانی بہتر ہو رہی ہے اور عوام کو ٹریفک جام سے نجات مل رہی ہے۔ انہی ترقیاتی کاموں کی ایک کڑی سندھ کوسٹل ہائی وے کی تعمیر بھی ہے۔
حالیہ سندھ کوسٹل ہائی وے کی جلد تکمیل کے حوالے سے کراچی میں وفاقی وزیر احسن اقبال نے وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ سے ایک اہم ملاقات کی، جس میں صوبائی وزیر پی اینڈ ڈی ناصر حسین شاہ بھی موجود تھے۔ حکومت سندھ کے ترجمان کے مطابق سندھ کوسٹل ہائی وے منصوبہ وفاقی حکومت اور سندھ حکومت کے اشتراک سے مکمل ہوگا اس حوالے سے وفاقی حکومت نے کچھ فنڈز بھی جاری کردیے ہیں۔ واضح رہے کہ کوسٹل ہائی وے کراچی سے کیٹی بندر تک کا ہے۔ اس سے پہلے مکران کوسٹل ہائی وے 25 سال پہلے بنائی گئی تھی لیکن اسے اکنامک کوریڈور کا درجہ نہ مل سکا۔ اس موقع پر وزیراعلیٰ سندھ نے یقین دلایا کہ سندھ حکومت کی زیر تعمیر کوسٹل ہائی وے 5 ماہ میں مکمل ہوجائے گی نیز سندھ کوسٹل ہائی وے ایک اکنامک کوریڈور بھی بن جائے گا۔
دراصل سندھ کوسٹل ہائی وے ایک ایسا منصوبہ ہے جو کراچی کو سندھ کے ساحلی شہروں سے جوڑتا ہے۔ یہ N5 سے شروع ہوتا ہے اور دھابیجی اور گھارو کے درمیان سے ہوتا ہوا کیٹی بندر کے قریب ختم ہوتا ہے۔ دراصل سندھ کوسٹل ہائی وے پراجیکٹ کی منصوبہ بندی پہلی بار 2010ء میں کی گئی تھی جس کا مقصد کاشتکاری میں مدد کرنا، زوال پزیر ماہی گیری کی صنعت کو بحال کرنا اور ساحلی دیہاتوں میں پینے کے صاف پانی کی فراہمی کو یقینی بنانا تھا۔ ہائی وے کو کاشتکاری میں مدد کرنے، ڈیلٹا کے علاقے میں ماہی گیری کی صنعت میں نئی زندگی لانے اور ساحلی دیہات میں رہنے والے لوگوں تک پینے کے صاف پانی کی منتقلی کو آسان بنانے کے لیے بنایا گیا تھا۔ اس منصوبے کو اکثر شدید سیلاب کی وجہ سے تاخیر کا سامنا کرنا پڑا، جس نے اسے چند سالوں تک روک دیا۔ بالآخر، منصوبے کا فیز-I مکمل ہوگیا ہے، لیکن فیز II کئی سالوں تک شروع نہ ہو سکا۔ کوسٹل ہائی وے پروجیکٹ کا فیز II بوہارا سے کیٹی بندر تک جاتا ہے اور بحیرہ عرب تک پہنچتا ہے۔ یہ ساحلی شاہراہ ہنگامی صورت حال کے دوران فوری طور پر محفوظ مقامات تک پہنچنے میں مدد دے گی۔ نیز اس سے علاقے میں سیاحت کو بھی نمایاں طور پر فروغ حا صل ہوگاکیونکہ دیبل کی قدیم بندرگاہ اور ٹھٹھہ کے تاریخی مقامات کو دیکھنے کے لیے سیاحوں کو آسانی ہوگی۔
سندھ حکومت کی کوشش ہے کہ سندھ کے تمام پروجیکٹس کی مکمل فنڈنگ بروقت کی جائے گی تاکہ منصوبے جلد از جلد مکمل کیے جاسکیں۔ کیونکہ جب منصوبے زیرتعمیر ہوتے ہیں تو عوام کو نقل و حمل میں بہت پریشانیاں ہوتی ہیں۔ کراچی میں ریڈ لائن منصوبہ اس کی ایک مثال ہے لیکن جب یہ عظیم منصوبہ مکمل ہوجائے گا تو عوام کو بہترین سفری سہولیات بھی میسر ہونگی۔
اسی لیے چاہے "سی پیک" منصوبہ ہو یا کوسٹل ہائے وے اس قسم کے منصوبوں سے نہ صرف نئی نوکریاں پیدا ہوتی ہیں بلکہ معاشی ترقی میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ یہ سب عوامل بالواسطہ طور پر عام شہریوں کی زندگی پر مثبت اثر ڈالتے ہیں کیونکہ روزگار کے مواقع بڑھتے ہیں اور معیشت میں استحکام پیدا ہوتا ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت اپنے قائدین کی بصیرت اور خصوصاً جناب بلاول بھٹو زرداری کے ویژن کے مطابق کام کررہی ہے وہ ویژن ہے ترقی کا اورخوشحالی کا، یہی وجہ ہے کہ عوام ان ہی لوگوں کو منتخب کرتی ہے جن کے پاس عوامی مسائل حل کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ لہذا سندھ حکومت بڑے بڑے دعوی نہیں کرتی کہ وہ یہاں دودھ کی نہریں بہادے گی یا سندھ کو پیرس بنا دے گی تاہم سندھ حکومت کی کوشش ہے کہ حتیٰ الامکان طور پر ترقی کا سفر جاری وساری رہے۔
سندھ حکومت کے منصوبے صرف کاغذات یا اعلانات کی حد تک محدود نہیں بلکہ سارے ترقیاتی منصوبے حقیقت ہیں جو عوام کو مکمل ہوتے ہوئے نظر بھی آرہے ہیں۔ ایک منصوبہ ختم ہوتا ہے تو دوسرا منصوبہ شروع ہوجاتا ہے۔ اسی لئے سندھ کوسٹل ہائے وے کو گیم چینجر منصوبہ کہا جاسکتا ہے کیونکہ جس دن یہ مکمل ہوجائے گااس دن ساحلی علاقوں کی ترقی کیلئے ایک نئے دور کا آغاز ہوگا جس میں سیاحت بھی ہوگی اور معاشی ترقی بھی ہوگی۔

