Sindh Building Control Authority, Shehri Taraqi Mein Aham Kirdar
سندھ بلنڈنگ کنٹرول اتھارٹی، شہری ترقی میں اہم کردار
کسی بھی ملک یا صوبے میں، بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی ایک ایسا ادارہ ہوتا ہے جو کسی شہر یا علاقے میں عمارتوں کی تعمیر اور مرمت کے قوانین کو نافذ کرتا ہے۔ یہ ادارہ اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ عمارتیں محفوظ، معیاری اور قوانین کے مطابق تعمیر کی جائیں۔ ادارے کے وظائف میں عمارتوں کے نقشوں کی منظوری دینا، تعمیراتی کام کی نگرانی کرنا، عمارتوں کی حفاظت اور معیار کو یقینی بنانا اور قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف کاروائی کرنا شامل ہیں۔
پاکستان میں صوبائی حکومتیں بلڈنگ کنٹرول اتھارٹیز قائم کرتی ہیں۔ صوبہ سندھ میں "سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی" کا قیام 1979ء میں سندھ بلڈنگ کنٹرول آرڈیننس کے تحت عمل میں آیا۔ کراچی سمیت پورے صوبہ سندھ کے شہروں میں سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی عمارتوں کی تعمیر اور مرمت کے قوانین نافذ کرتی ہے۔ اخبارات پر نظر ڈالیں تو پچھلے کچھ سالوں میں ہم دیکھتے ہیں کہ کراچی شہر میں کئی ایسی عمارتیں زمین بوس ہوگئیں جوسندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے قوائد و ضوابط پر پورا نہیں اترتی تھیں۔ ظاہر ہے کہ جب عمارت زمین بوس ہوتی ہے تو اس میں انسانی جانیں بھی ضائع ہوتی ہیں۔ دیکھا جائے تو کراچی شہر میں جتنی بھی عمارتیں گری ہیں اس میں انسانی جانوں کا ضیاع بھی ہوا ہے۔
دراصل اس وقت کراچی شہر میں کئی بنیادی مسائل ہیں جن کو سندھ حکومت حل کرنے کی کوشش کررہی ہے جن میں ٹرانسپورٹ کے مسائل، ٹریفک جام اور حادثات کے مسائل، صاف پانی کی قلت، بجلی کا بحران، اسٹریٹ کرائم اور سیوریج کے مسائل شامل ہیں لیکن ان سب مسائل کی جڑ کراچی میں آبادی کا بے تحاشہ دباؤ ہے چونکہ کراچی ایک صنعتی شہر ہے اس لیے پورے پاکستان سے لوگ روزگار کی تلاش میں کراچی آتے ہیں۔ کراچی میں ہم دیکھتے ہیں کہ ندی نالوں میں مجبوراً گھر تعمیر ہوگئے ہیں جہاں وہ گندے پانی کے پاس بہت کسمپرسی میں زندگی گزاررہے ہوتے ہیں اور حکومت جب اس غیر قانونی آبادیوں کو مسمار کرتی ہے تو امن وامان کا مسئلہ بھی پیدا ہوتا ہے۔
کچھ سالوں پہلے جب گجر نالے سے مکینوں کو بے دخل کیا گیا تولوگ احتجاج کرنے نکل پڑے تھے، دوسری طرف پاکستان ریلوے کی زمین پر بھی غیر قانونی گھر بن گئے ہیں۔ سٹی ریلوے اسٹیشن سے لانڈھی ریلوے اسٹیشن تک ریلوے ٹریک کے دائیں اور بائیں پر ریلوے کی زمین پر غیرقانونی آبادیاں قائم ہیں۔ جس کی وجہ سے آج تک حکومت سندھ کا کراچی سرکولر ریلوے منصوبہ کامیاب نہیں ہوسکا۔ دیکھا جائے تو مذکورہ کچی آبادیاں سرکولر ریلوے کو چلانے میں بہت بڑی رکاوٹ ہیں۔ حکومت کو پہلے ہی ٹرانسپورٹ کی قلت کا سامنا ہے اوپر سے ان کی دوسری جگہ آبادکاری بھی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔
تیسری طرف عمودی شکل میں بھی شہر کی عمارتوں کی تعمیر ہورہی ہے بلک فلک بوس عمارتوں کی وجہ سے پانی، بجلی، گیس، سیوریج اور ٹریفک جام جیسے مسائل سر اٹھارہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے زمین کی طلب میں اضافہ ہورہا ہے اور معیشت کا قانون ہے کہ جب کسی بھی چیز کی طلب میں اضافہ ہوتا ہے تو قمتیں بڑھ جاتی ہیں۔ لوگ لالچ میں آکر زمینوں کی خرید و فروخت کرتے ہیں جس میں جعل سازی کا عنصرشامل ہے۔ پیسہ کی لالچ میں لوگ "ایس بی سی اے" کے قوائد وضوابط کی خلاف ورزی کررہے ہیں۔
اس وقت کراچی شہر میں ہزاروں کی تعداد میں ایسے مکانات ہیں جو پورشن کے مکانات میں تبدیل ہوگئے ہیں۔ جس کے پاس 120گز کا پلاٹ تھا اس نے اسی 120گز کے پلاٹ پر آٹھ منزلہ پورشن کے فلیٹ تعمیر کر لیے ہیں اور یہی حال 250 گز، 400 گز اور 600 گز کے پلاٹوں کا بھی ہے۔ دیکھا جائے تو حکومت نے ایک فیملی کے حساب نے منصوبہ بندی کی ہوتی ہے اور اسی حساب سے پانی، بجلی، گیس اور سیوریج کی لائینز ڈالی جاتی ہیں لہذا جب ایک فیملی کی جگہ پر آٹھ فیملیز رہیں گی تو مسائل تو پیدا ہونگے۔ اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے "ایس بی سی اے" نے صوبے میں تمام غیرقانونی پورشن کے مکانات کی تعمیر پر پابندی لگادی ہے اور ادارہ کی طرف سے ایک نوٹیفیکیشن جاری کیا گیا کہ جو بھی خلاف ورزی کرے گا اس کے خلاف سخت ایکشن لیا جائے گاجس میں کنٹرکٹر، بروکر اور خریدنے والے کو بھی بک کیا جائے گا۔
اس حوالے سے محکمہ نے کراچی کے کئی علاقوں میں غیرقانونی پورشن کو مسمار بھی کیا ہے۔ ادارہ کا "ڈیمالیشن" اسکواڈ روزانہ کی بنیاد پر انہدامی مہم میں شہر کے مختلف ڈسٹرکٹ میں اضافی منزلوں کو منہدم اور سربمہرکرتا رہتا ہے اور اس حوالے سے ادارہ کی جانب سب کے لئے "زیروٹالرنس"رویہ اپنانے کے احکامات دیے ہیں۔ اسی طرح "ایس بی سی اے" کی ٹیکنیکل ٹیم نے اولڈ کراچی میں ایک سروے کیا ہے جس میں 550 ایسی عمارتوں کی نشاندہی کی گئی ہے جو بہت ہے مخدوش حالت میں ہیں۔ ان مخدوش عمارتوں کے مالکان کو ادارہ نے نوٹس جاری کیے ہیں کہ ان عمارتوں کو فوری طور پر خالی کیا جائے ورنہ کسی بھی وقت یہ عمارتیں زمین بوس ہوجائیں گی۔
چونکہ کراچی سمیت پورے سندھ میں جائداد کی خرید و فروخت میں شفافیت نہیں تھی اس حوالے سے سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی نے عوامی مفاد میں ایک اور انقلابی اقدام اٹھایا ہے چونکہ جائداد کے کاروبار میں منافع بہت ہے زمین کی قیمتیں تیزی سے بڑھتی ہیں۔ شاید کسی اور کاروبار میں قیمتیں اتنی تیزی سے نہیں بڑھتی جتنی اسٹیٹ کے کاروبار میں بڑھتی ہیں جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ عوام لالچ میں آکر زمین خرید لیتے ہیں جو بعد میں پتہ چلتا ہے کہ وہ جعلی اسکیم ہے یا جعلی سوسائٹی تھی۔
اس جعل سازی کو ختم کرنے کے لیے اور عوام کا پیسہ بچانے کے لیے ادارہ نے آن لائن نظام متعارف کرایا ہے کیونکہ دیکھا یہ گیا ہے کہ مکان یا سوسائٹی "ایس بی سی اے" سے منظور شدہ نہیں ہوتی وہ جعلی پروجیکٹ ہوتے ہیں جو عوام کا پیسہ لے کر بھاگ جاتے ہیں۔ اب حکومت سندھ نے یہ کام آن لائن کردیا ہے آپ آن لائن مکان یا پلاٹ کی معلومات کرسکتے ہیں کہ رہائشی اسکیم جعلی ہے یا حکومت سندھ سے منظور شدہ ہے۔ اس کے علاوہ ادارہ نے آن لائن شکایات کا نظام "اسمارٹ کمپلینٹ ریڈریسل میکانزم" بھی متعارف کرایا ہے۔ جس میں شہری غیر قانونی تعمیرات اور دیگر خلاف ورزیوں سے متعلق شکایات آن لائن درج کرواسکتے ہیں۔
آن لائن شکایات کے نظام سے شہریوں کو گھر بیٹھے شکایات درج کرانے کی سہولت مل گئی ہے۔ شہری کسی بھی غیرقانونی تعمیرات کی ویڈیو یا تصاویر بناکر ادارے کو بھیج سکتے ہیں۔ اس سے ایک فائدہ یہ ہوتا ہے کہ ایک تو شکایت پر فوری کاروائی ہوتی ہے دوسرے اس سے غیر قانونی تعمیرات کی روک تھام میں بڑی مدد ملتی ہے کیونکہ اسے ڈر ہوتا ہے کہ کوئی بھی اس کی غیرقانونی عمارت کی ویڈیو یا تصویر بناکر ادارہ کو بھیج سکتا ہے جس سے اس کی سرمایہ کاری ضائع ہوجائے گی جس کے ڈرکی وجہ سے وہ غیر قانونی تعمیرات سے باز رہتا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے چونکہ عوام کی جان و مال کی حفاظت کی بنیادی ذمہ داری حکومت کی ہے اس لیے کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے قوائد و ضوابط جو اصل میں عوام کے مفاد میں ہی ہیں ان پر سختی سے عمل درآمد کرایا جائے۔ خصوصاً غیرقانونی تعمیرات کو روکنا اور عمارتوں کے معیار کو یقینی بنانا ادارہ کی اہم ذمہ داری ہے اس لیے یہ ادارہ عوام کی حفاظت کو یقینی بنانے میں اہم کردار اداکررہا ہے اور اپنی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے بھی بھرپور کوششیں کررہا ہے اور اپنے مقاصد جو آرڈیننس میں درج ہیں ان کو حاصل کرنے کی کوشش کررہا ہے۔

