Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Agha Shoaib Abbas
  4. Shah Abdul Latif Bhittai Ka Urs

Shah Abdul Latif Bhittai Ka Urs

شاہ عبداللطیف بھٹائی کا عرس

صوبہ سندھ کی سرزمین کو یہ خصوصیت حاصل ہے کہ یہ سرزمین ناصرف قدرتی وسائل سے مالامال ہے بلکہ یہاں پر ایسے ایسے صوفیائے کرام مدفون ہیں جنہوں نے سندھ کے عوام کو محبت، امن و بھائی چارے اور انسانیت کا درس دیا ہے جو آج بھی سندھ کے لوگوں کے لیے روشنی کا منار ہے۔ دراصل سندھ صوفیاء کی سرزمین کہلاتی ہے اور یہاں صدیوں سے بے شمار صوفی بزرگوں نے قیام کیا، روحانیت کا پرچار کیا اور لوگوں کے دلوں کو محبت، امن اور بھائی چارے کے پیغام سے روشن کیا۔

سندھ میں گزرنے والے صوفی بزرگوں کی صحیح تعداد کا تعین کرنا تقریباً ناممکن ہے، کیونکہ بہت سے ایسے بزرگ بھی ہیں جن کے نام تاریخ کی کتابوں میں درج نہیں ہوئےیا جو گمنامی میں رہے، لیکن جو مشہور و معروف ہیں ان میں سرفہرست شاہ عبدالطیف بھٹائی، حضرت لعل شہباز قلندر، سچل سرمت، شاہ عبدالکریم بلڑی، شیخ نوح ہالائی، مخدوم اسماعیل سومرو، خواجہ محد زمان آف لواری، مخدوم عبدالرحیم گرھوڑی اور مخدوم آدم ٹھٹوی شامل ہیں جن کے اثرات آج بھی محسوس کیے جاتے ہیں۔

ان کے علاوہ بھی سندھ میں سینکڑوں کی تعداد میں صوفیاء گزرے ہیں۔ جن کے مزارات اور درگاہیں آج بھی لوگوں کے لیے روحانی سکون کا باعث ہیں۔ سندھ میں صوفیت کا اثر صرف مزارات تک محدود نہیں، بلکہ یہ سندھی زبان، ادب، موسیقی اور ثقافت میں گہرائی تک سرایت کیے ہوئے ہے۔ سندھ میں صوفی روایات اتنی گہری ہیں کہ ایک مقبول روایت کے مطابق "مکلی ہل" پر ہی ہزارں اولیاء کرام دفن ہیں۔ سندھ میں صوفیاء کی کثرت اور ان کی اہمیت کو واضح کرتی ہے۔ ان ہی میں سے ایک شاہ عبدالطیف بھٹائی بھی ہیں جن کو عرس ہر سال 14صفر کو منایا جاتا ہے۔ آپ کا مختصر تعارف یہ ہے کہ آپ نے ابتدائی دینی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی اور بچپن سے ہی شعر و شاعری اور روحانیت کی طرف مائل تھے۔ آپ نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ سیر و سیاحت، فقیروں اور صوفیوں کی صحبت میں گزارا، جس سے ان کے کلام میں گہرائی اور وسعت آئی۔ آپ کا مزار بھٹ شاہ میں ہے۔

دراصل تصوف ایک ایسی چیز ہے جس نے اسلامی معاشروں پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ صوفیاء کرام نے ہمیشہ محبت، امن، رواداری اور بھائی چارے کا درس دیا ہے۔ برصغیر پاک و ہند میں اسلام کی اشاعت میں صوفیاء کرام کا کردار نمایاں رہا ہے، جنہوں نے اپنے حسنِ اخلاق اور روحانی فیض سے لوگوں کے دل جیتے جس کی وجہ سے ہندوستان میں لاکھوں غیر مسلم اسلام کے دائرے میں داخل ہوئے۔ آج کے دور میں بھی تصوف کی تعلیمات انتہا پسندی اور نفرت کے خاتمے کے لیے ایک اہم ذریعہ ثابت ہو سکتی ہیں، کیونکہ یہ دلوں میں محبت، عاجزی اور انسانیت کی خدمت کا جذبہ پیدا کرتی ہیں۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تصوف کی تعریف کیا ہے دیکھا جائے تو تصوف اسلام میں ایک روحانی اور باطنی راستہ ہے جو اللہ تعالیٰ سے قربت حاصل کرنے، نفس کی پاکیزگی اور اخلاقی بلندیوں تک پہنچنے پر زور دیتا ہے۔ اسے تزکیۂ نفس یعنی نفس کو پاک کرنا اور اللہ کی عبادت ایسے کرنا گویا تم اسے دیکھ رہے ہو اور اگر تم اسے نہیں دیکھ سکتے تو کم از کم یہ یقین رکھو کہ وہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔ تصوف کا بنیادی مقصد اللہ تعالیٰ کی محبت اور معرفت حاصل کرنا ہے۔ صوفیائے کرام اپنے باطن کی اصلاح پر توجہ دیتے تھے تاکہ ان کے دل میں اللہ کی محبت راسخ ہو جائے اور وہ دنیاوی خواہشات اور آلائشوں سے آزاد ہو کر صرف اپنے خالق کی رضا کے طالب بن جائیں۔ اس راہ پر چلنے والوں کو صوفیائے کرام کہا جاتا ہے۔

شاہ عبدالطیف بھٹائی کا وحدت الوجود کا تصور اسلامی تصوف کی گہری روحانی بصیرتوں میں سے ایک ہے، جو بندے کو دنیاوی آلائشوں سے آزاد کرکے اللہ کی ذات میں فنا ہونے اور اس کی محبت و معرفت حاصل کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ دراصل وحدت الوجود تصوف کی ایک گہری اور اہم اصطلاح ہے جس کا سادہ لفظوں میں مطلب یہ ہے کہ صرف اللہ تعالیٰ کا وجود ہی حقیقی اور مکمل ہے، باقی تمام موجودات کائنات اور اس میں پائی جانے والی ہر چیز کا وجود اس حقیقی وجود کے مقابلے میں یا تو محض مجازی ہے، یا اس کا عکس ہے۔ یہ نظریہ بنیادی طور پر اس حقیقت پر زور دیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی ہر شے کا خالق ہے اور ہر شے اس کے وجود کی محتاج ہے۔

صوفیانہ نقطہ نظر سے، جب ایک بندہ اللہ کی راہ کا مسافر روحانی منازل طے کرتا ہوا معرفت کے اعلیٰ درجے پر پہنچتا ہے تو اسے کائنات میں ہر جگہ صرف اور صرف اللہ ہی کا جلوہ نظر آتا ہے۔ اس کی مثال یوں دی جاتی ہے جیسے دن کی روشنی میں سورج کی موجودگی میں ستارے نظر نہیں آتے، حالانکہ وہ موجود ہوتے ہیں۔ سورج کا وجود اتنا غالب ہوتا ہے کہ ستاروں کا وجود نظروں سے اوجھل ہو جاتا ہے۔ اسی طرح، جب ایک صوفی پر اللہ کے حقیقی اور کامل وجود کی معرفت کا غلبہ ہوتا ہے، تو اسے کائنات کی تمام اشیاء کا وجود اس حقیقی وجود کے سامنے بے حقیقت نظر آتا ہے۔

وحدت الوجود کے حوالے سے ہم دیکھتے ہیں کہ شاہ عبداللطیف بھٹائی کی شاعری کا مجموعہ "شاہ جو رسالو" کے نام سے مشہور ہے، جو سندھی ادب کا ایک شاہکار بھی سمجھا جاتا ہے۔ آپ کی شاعری کی سب سے نمایاں خصوصیات میں وحدت الوجود کا تصور، انسانی آزادی، مساوات اور وسیع تر انسانیت کا درس شامل ہیں۔ اس کے علاوہ آپ نے اپنی شاعری میں سندھ کے لوک قصوں اور رومانوی داستانوں جیسے سسی، ماروی، مومل، سوہنی، نوری کو الٰہی محبت اور صوفیانہ خیالات کے ساتھ خوبصورتی سے جوڑا ہے۔ آپ کی شاعری نہ صرف سندھی زبان کو ایک نئی زندگی بخشتی ہے بلکہ یہ ثابت کرتی ہے کہ سندھی زبان اظہارِ خیال کے لیے ایک بہت ہی اعلیٰ زبان ہے۔

آپ کے کلام میں حرص و ہوس سے پاک عشق کا تصور نمایاں ہے اور آپ نے عورت کے کردار کو بھی بہت اہمیت دی ہے، اسے ہمت، حوصلے، رومانیت اور مشکلات کا سامنا کرنے کی علامت کے طور پر پیش کیا ہے۔ "شاہ جو رسالو" سندھی قوم کی شناخت، ان کے روحانی ورثے اور ان کی ثقافتی اقدار کا مظہر ہے۔ یہ ایک ایسا کلام ہے جو نہ صرف ادبی چاشنی رکھتا ہے بلکہ روحانی رہنمائی، اخلاقی تعلیمات اور سماجی شعور بھی فراہم کرتا ہے۔ یہ آج بھی سندھ میں گھر گھر پڑھا جاتا ہے، گایا جاتا ہے اور اس سے روحانی فیض حاصل کیا جاتا ہے۔ شاہ جو رسالو میں"سسی پنوں" ایک بہت ہی مشہور داستان ہے، جو شاہ عبداللطیف بھٹائی نے اپنی شاعری میں بیان کی ہے۔ یہ سات سندھی لوک داستانوں (جنہیں"سورميون" کہا جاتا ہے) میں سے ایک ہے اور اسے عشق حقیقی اور روحانی تلاش کے استعارے کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔

رسالے کا بنیادی موضوع اللہ کی محبت، اس کی وحدانیت اور انسان کا اپنے خالق سے تعلق ہے۔ یہ تصوف کے گہرے فلسفے، جیسے وحدت الوجود کو عام فہم زبان میں بیان کرتا ہے۔ شاہ عبدالطیف بھٹائی نے اپنی شاعری میں عشق حقیقی کو عشق مجازی کے پردے میں بیان کیا ہے، جہاں محبوب کی تلاش میں عاشق کی روحانی منزلوں کو دکھایا گیا ہے۔ شاہ عبدا لطیف بھٹائی نے سندھ کی مشہور لوک داستانوں اور رومانی کہانیوں کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا ہے۔ ان کہانیوں کے کرداروں کو روحانی استعاروں کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پرسسی پنوں، عمر ماروی، مومل رانو، لیلا چنیسر، نوری جام تماچی اور سہنی میہوال جیسی داستانوں کے ذریعے انہوں نے عشق، قربانی، وفا، جدائی، صبر اور روحانی سفر کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کیا۔

شاہ عبدالطیف بھٹائی نے اپنی شاعری میں سماجی ناانصافیوں، ظلم اور جبر کے خلاف آواز اٹھائی۔ انہوں نے امن، بھائی چارے، رواداری اور انسانیت کی خدمت کا درس دیا۔ رسالے میں سندھی معاشرت، رسم و رواج اور لوگوں کی زندگی کے مختلف پہلوؤں کی عکاسی بھی ملتی ہے۔ سندھی ثقافت اور فطرت کی عکاسی رسالے میں سندھ کے صحراؤں، دریاؤں، جھیلوں، پہاڑوں اور دیہی زندگی کے خوبصورت مناظر کو بیان کیا گیا ہے۔ یہ سندھی موسیقی، لوک گیتوں اور مقامی آلات موسیقی (خاص طور پر تنبور) کے ساتھ گایا جاتا ہے۔ شاہ لطیف کی شاعری میں سندھی زبان کی خوبصورتی، سادگی اور روانی نمایاں ہے۔ شاہ جو رسالو کو مختلف "سروں" (موسیقی کے راگوں) میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ہر سر ایک خاص موضوع یا کہانی سے متعلق ہے اور اسے مخصوص طرز میں گایا جاتا ہے۔ یہ راگ سندھی کلاسیکی موسیقی کا ایک اہم حصہ ہیں۔

ہر سال یہاں"عرس لطیف" کا انعقاد ہوتا ہے جس میں لاکھوں زائرین شرکت کرتے ہیں۔ مزار کے احاطے میں ایک مسجد بھی ہے اور اس کی تعمیر میں ہند اسلامی طرزِ تعمیر نمایاں ہے۔ یہاں روزانہ شام کو شاہ بھٹائی کی زندگی میں شروع ہونے والی محفل سماع کا سلسلہ آج بھی جاری ہے، جہاں ان کے مریدان کی شاعری کو مخصوص انداز میں گاتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ شاہ عبدالطیف بھٹائی نے امن، محبت اور بھائی چارے کی جو تعلیمات دی ہیں ان کو پورے پاکستان بلکہ پوری دنیا میں اجاگر کیا جائے۔

Check Also

Muhammad Yaqoob Quraishi (3)

By Babar Ali