Zameen Kha Gayi, Aasman Kaise Kaise
زمین کھا گئی، آسماں کیسے کیسے

وقت کا بے رحم پہیہ خاموشی سے چلتا رہتا ہے۔ لمحوں کی یہ گردش صدیوں کو نگل جاتی ہے اور تاریخ کی بے شمار کہانیاں دھندلے صفحات میں دفن ہو جاتی ہیں۔ کچھ ایسی ہستیاں، جنہوں نے اپنے کردار، فکر، علم اور فن سے زمانے پر انمٹ نقوش چھوڑے، آج محض یادوں کا حصہ ہیں۔ انہی گمشدہ جگمگاتے ستاروں کو یاد کرنے کے لیے زبانِ حال بے ساختہ پکار اٹھتی ہے: "زمین کھا گئی، آسماں کیسے کیسے! "
یہ جملہ محض تعجب کا اظہار نہیں بلکہ ایک عمیق ادبی اور فکری کیفیت کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ غم، حسرت، حیرت اور تاریخ کی تلخ حقیقت کا مرکب ہے، کہ وہ عظیم لوگ، جو قوموں کی رہنمائی کرتے تھے، آج صفحۂ ہستی سے ایسے غائب ہو چکے ہیں جیسے وہ کبھی تھے ہی نہیں۔
ہماری سرزمین نے بڑے بڑے مفکر، شاعر، ادیب اور دانشور پیدا کیے۔ علامہ اقبال جیسے مردِ قلندر، جنہوں نے ملت کو خوابِ غفلت سے بیدار کیا، فیض احمد فیض، جن کی شاعری دردِ دل، انقلاب اور امید کا مرقع تھی، انتظار حسین، جو کہانی کو وقت کا آئینہ بنا دیتے تھے اور اشفاق احمد، جن کی نثر میں حکمت اور محبت کا جادو تھا، یہ سب وہ آسمان تھے جن کی موجودگی میں ہماری فکری دنیا روشن تھی۔
آج جب ان شخصیات کو یاد کیا جاتا ہے تو دل سے بس یہی صدا نکلتی ہے کہ زمین نے کیسے کیسے آسمان نگل لیے۔ سوال یہ نہیں کہ وہ دنیا سے کیوں چلے گئے، بلکہ سوال یہ ہے کہ کیا ان کا نعم البدل پیدا ہو سکا؟ کیا آج کی نسل نے ان کی علمی و فکری میراث کو سنبھالا ہے؟ کیا ہم نے ان کے افکار کو صرف کتب خانوں میں بند کر دیا ہے؟
ادب، تہذیب، فن اور سماج، یہ سب کسی قوم کی پہچان ہوتے ہیں۔ لیکن جب ان شعبوں میں قد آور شخصیات رخصت ہو جائیں اور ان کے بعد خلا کو پُر نہ کیا جا سکے، تو یہی جملہ حقیقت بن جاتا ہے کہ "زمین کھا گئی، آسماں کیسے کیسے"۔
کیا ہمیں وہ اساتذہ یاد نہیں جو علم کو صدقِ دل سے بانٹتے تھے؟ جن کے لفظ صرف درس نہیں، دعا کی تاثیر رکھتے تھے؟ کیا ہمیں وہ والدین یاد نہیں جو اپنی اولاد کو اخلاق، تہذیب اور سچائی کا سبق دیتے تھے؟ کیا ہمیں وہ قائدین نہیں یاد آتے جو ذاتی مفادات کے بجائے قومی بھلائی کو ترجیح دیتے تھے؟
ان سب کا رخصت ہونا محض انسانی زندگی کا انجام نہیں، بلکہ ایک نظریاتی، اخلاقی اور فکری زوال کی علامت بھی ہے۔
یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہم نے اپنے ہیروز کو وقت پر پہچانا نہیں۔ ہم نے ان کی قدردانی بعد از مرگ کی، جب وہ خود اپنی عظمت کو سننے کے لیے موجود نہیں تھے۔ ہمیں اپنے محسنوں کو جیتے جی یاد رکھنے کی روایت کو زندہ کرنا ہوگا۔
آج کا انسان مشینی زندگی میں اتنا الجھ چکا ہے کہ عظمت کو فقط "وائرل" ہونے سے ناپتا ہے۔ ادب، حکمت اور سچائی کا وزن لائیکس اور فالوورز کے پلڑوں میں تولا جا رہا ہے۔ یہ وہ زمانہ ہے جہاں نہ نئی قدریں ابھر رہی ہیں، نہ پرانی محفوظ ہو رہی ہیں۔
ہمیں ماضی کی ان عظیم شخصیات کو صرف رونے کا بہانہ نہیں بنانا، بلکہ ان کی فکر کو وقت کے ساتھ مکالمہ بنانا ہے۔ ان کے نظریات، ان کا اندازِ فکر، ان کی دیانت، یہ سب کچھ آج بھی ہمارے مسائل کا حل پیش کر سکتے ہیں۔ ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ ہم ان آوازوں کو سنیں، سمجھیں اور اپنی زندگی کا حصہ بنائیں۔
اقبال کے تصورِ خودی، فیض کے درد میں ڈوبے الفاظ، اشفاق احمد کی محبت بھری دانائی اور بانو قدسیہ کے دل میں چھپی گہرائیاں، یہ سب کچھ وہ سرمایہ ہے جس سے ہم آج بھی فکری روشنی حاصل کر سکتے ہیں۔ ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ ہم ان آوازوں کو سنیں، سمجھیں اور اپنی زندگی کا حصہ بنائیں۔
اس جملے کا جواب کہ "زمین کھا گئی، آسماں کیسے کیسے"، صرف غم کے اظہار میں نہیں بلکہ ذمہ داری کے احساس میں ہے۔ کیا آج کی نسل وہ آسمان بننے کے لیے تیار ہے؟ کیا ہم وہ کردار پیدا کر رہے ہیں جنہیں کل لوگ یاد کرکے یہی فقرہ دہرا سکیں؟
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے تعلیمی نظام، فکری ماحول اور تربیت کے دائرے کو اس انداز میں ترتیب دیں کہ نئی زمینوں سے نئے آسمان جنم لیں۔
"زمین کھا گئی، آسماں کیسے کیسے" محض ایک ماتمی مصرع نہیں، بلکہ ایک پکار ہے، ایک چپ چیخ ہے جو ہمیں بیدار کرنے کے لیے کافی ہے۔ ہمیں نہ صرف ماضی کی عظمتوں کا سوگ منانا ہے بلکہ اپنے حال کی زبوں حالی کو سنوارنا بھی ہے۔
ہمیں ان شخصیات کو صرف تاریخ کے صفحوں میں نہیں، اپنے کردار، عمل اور فکر میں زندہ رکھنا ہے۔ تبھی ہم اس فقرے کو ایک نئے معنی دے سکیں گے، کہ زمین نے جن آسمانوں کو کھایا، وہ مٹی میں تحلیل نہیں ہوئے بلکہ فکر میں نمو پا چکے ہیں۔

