Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Afshan Saher
  4. Yehi Hai Zindagi, Kuch Khwab Chand Umeedein

Yehi Hai Zindagi, Kuch Khwab Chand Umeedein

یہی ہے زندگی، کچھ خواب چند امیدیں

یہی ہے زندگی، کچھ خواب چند امیدیں، ندا فاضلی کے اس مصرع میں حیاتِ انسانی کا مکمل فلسفہ سمویا گیا ہے۔ یہ محض ایک مصرع نہیں بلکہ ان تمام جذبوں، تمناؤں، محرومیوں اور امکانات کی تصویر ہے جو انسان کے دل و دماغ میں بستے ہیں۔ خواب، جو دل کو زندگی سے جوڑے رکھتے ہیں اور امیدیں، جو ہر اندھیرے میں چراغ بن کر روشنی دیتی ہیں، زندگی کو قابلِ برداشت اور خوبصورت بنا دیتی ہیں۔

یہ شعر ہمیں باور کراتا ہے کہ زندگی صرف کامیابیوں یا ناکامیوں کا نام نہیں، بلکہ ان خواہشات، ارادوں اور تگ و دو کا نام ہے جن سے انسان کا وجود تشکیل پاتا ہے۔

زندگی ایک بہتا ہوا دریا ہے، جو کئی موڑ کاٹتا، کئی پتھروں سے ٹکراتا اور کئی راستے بدلتا ہوا اپنی منزل کی طرف بڑھتا ہے۔ خواب ان پتھروں پر پڑتی روشنی کے جھماکے ہیں اور امید وہ موج ہے جو تھکن میں بھی زندگی کا حوصلہ بحال رکھتی ہے۔ ہر انسان کی زندگی میں کچھ ایسے لمحات ضرور آتے ہیں جب وہ خواب بُننے لگتا ہے، وہ خواب جو اکثر ناتمام رہ جاتے ہیں، مگر ان کا ہونا ہی انسان کو زندہ رکھتا ہے۔

ادب اور شاعری ہمیشہ سے ان خوابوں اور امیدوں کی ترجمان رہی ہے۔ غالب کا یہ کہنا کہ

ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے

اس بات کا ثبوت ہے کہ خواب اور آرزوئیں انسانی فطرت کا جزوِ لاینفک ہیں۔ خواب، جو بظاہر ایک دھندلا تصور ہیں، دراصل ہماری داخلی کائنات کی روشنی ہیں۔ جب انسان کسی اندھیرے میں امید کا چراغ جلاتا ہے، تو وہ نہ صرف خود کو جینے کا بہانہ دیتا ہے بلکہ دوسروں کے لیے بھی امید کا پیغام بن جاتا ہے۔

زندگی جب کسی دکھ، محرومی یا تنہائی سے دوچار ہو جائے، تو یہی خواب اور امیدیں اسے سہارا دیتی ہیں۔ فیض احمد فیض کی شاعری میں بھی یہ رجائیت نمایاں ہے، جب وہ کہتے ہیں:

نہیں نگاہ میں منزل تو جستجو ہی سہی

نہیں وصال میسر تو آرزو ہی سہی

یہ اشعار زندگی کے اس رجائی پہلو کی نمائندگی کرتے ہیں جہاں منزل کے نہ ہونے پر بھی راہ چلنے کی لگن ختم نہیں ہوتی۔ خوابوں کی شکست، امیدوں کی دھندلاہٹ، انسان کو مایوس ضرور کر سکتی ہے، مگر اگر دل میں امید باقی ہو، تو اندھیرے کو شکست دینا ممکن ہو جاتا ہے۔

ندا فاضلی کا یہی مصرع، "یہی ہے زندگی، کچھ خواب چند امیدیں "، ہمیں بتاتا ہے کہ زندگی صرف ٹھوس واقعات کا مجموعہ نہیں، بلکہ ایک جمالیاتی تجربہ ہے، جو کبھی خیال میں، کبھی اشک میں اور کبھی تبسم میں ڈھلتا ہے۔ خواب ہماری روح کی پرواز ہیں اور امیدیں اس پرواز کو زمین سے جوڑنے والا دھاگا۔

معاشرتی سطح پر بھی اگر ہم نظر ڈالیں تو زندگی ہمیشہ خواب اور امید کے بیچ ہی چلتی رہی ہے۔ ایک محنت کش مزدور صبح اٹھ کر مزدوری کے لیے نکلتا ہے، تو اس کے دل میں بہتر مستقبل کا خواب ہوتا ہے۔ ایک طالب علم کتابیں تھامے مستقبل کی راہوں پر چلتا ہے، تو اس کے دل میں کامیابی کی امید ہوتی ہے۔ ایک ماں اپنے بچے کے چہرے پر مسکراہٹ دیکھ کر اس کے کل کے لیے دعا کرتی ہے۔ یہ سب امید کی صورتیں ہیں، جو زندگی کو دوام بخشتی ہیں۔

شاعری، افسانے، ناول اور ڈرامے ہمیشہ انسانی خوابوں اور امیدوں کی تصویریں پیش کرتے آئے ہیں۔ قرۃ العین حیدر کے ناولوں میں وہ خواب جھلکتے ہیں جو تہذیبوں کی شکست و ریخت کے باوجود دل میں پنپتے رہتے ہیں۔ منٹو کے افسانوں میں، اگرچہ تلخ حقیقتیں نمایاں ہیں، لیکن اس تلخی کے بطن میں بھی امید کی کوئی کرن ضرور جھلک دکھاتی ہے۔

زندگی کی اصل خوبصورتی اس کی ناپائیداری میں ہے۔ خواب ہمیشہ مکمل نہیں ہوتے، اکثر بکھر جاتے ہیں، امیدیں اکثر ٹوٹ جاتی ہیں، لیکن ان کا ہونا ہی انسان کے جینے کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ یہی تو وہ قوت ہے جو انسان کو ناامیدی کے اندھیروں میں بھی روشنی کی جانب کھینچ لاتی ہے۔

کبھی کبھار خواب، جو ہمیں روشن صبح کی نوید دیتے ہیں، رات کی تاریکی میں گم ہو جاتے ہیں۔ لیکن وہی تاریکی نئے خوابوں کی ضرورت کو جنم دیتی ہے۔ یہی سائیکل، خواب دیکھنا، ٹوٹنا، پھر نئے خواب بُننا، زندگی کی دھڑکن ہے۔

مولانا رومی کا قول ہے کہ: جب تمہارے اندر کوئی غم جنم لیتا ہے، سمجھ لو کہ تم میں ایک نئی روشنی آنے کو ہے۔

یہ روشنی خواب اور امید کے بغیر ممکن نہیں۔ انسان جس قدر شکستہ ہو، اگر اس کے اندر خوابوں کی رمق باقی ہے تو وہ پھر اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔

نداؔ فاضلی کا یہ مصرع ہمیں سکھاتا ہے کہ زندگی کی اصل معنویت انہی لمحوں میں پوشیدہ ہے جو ہم کسی خواب کے انتظار میں گزارتے ہیں یا کسی امید کی آنکھ سے دنیا کو دیکھتے ہیں۔ اس سفر میں چاہے ہم گِر جائیں، راہیں کھو دیں، یا زخموں سے چور ہو جائیں، خواب اور امیدیں ہمیں جینے کا جواز عطا کرتی ہیں۔

یوں کہا جا سکتا ہے کہ انسان کی زندگی میں اگر خواب نہ ہوں، تو وہ ایک بے جان وجود میں بدل جائے۔ خواب ہی ہیں جو کسی بچے کے چہرے پر چمک، کسی نوجوان کے دل میں لگن، کسی بوڑھے کی آنکھ میں انتظار بن کر اُترتے ہیں اور امید وہ قوت ہے جو ان خوابوں کو حقیقت میں بدلنے کا حوصلہ دیتی ہے۔

آخرکار، یہی ہے زندگی، کچھ خواب، چند امیدیں۔ ان کے بغیر نہ شاعری وجود رکھتی ہے، نہ افسانہ، نہ زندگی کی معنویت۔ یہ خواب اور امیدیں ہی ہیں جو ہمیں مسلسل آگے بڑھنے پر مجبور کرتی ہیں۔

Check Also

Muhammad Yaqoob Quraishi (3)

By Babar Ali