The Myth Of Independence
دا متھ آف انڈیپنڈنس

ذوالفقار علی بھٹو کی کتاب The Myth of Independence محض ایک سیاسی دستاویز نہیں بلکہ ایک فکری، تاریخی اور تہذیبی بیانیہ ہے جس میں وہ آزادی کے اس تصور کی پرتیں کھولتے ہیں جو نو آزاد ریاستوں نے اپنی تاریخ کے ابتدائی صفحات پر درج کر لیا تھا۔ بھٹو کے نزدیک آزادی وہ مسند نہیں جس پر ایک دن بیٹھ کر یہ اعلان کر دیا جائے کہ سفر تمام ہوا، بلکہ یہ ایک مسلسل جدوجہد کا عمل ہے جو ہر گزرتے لمحے میں نئے امتحان، نئی ذمہ داری اور نئی بصیرت کا تقاضا کرتا ہے۔ ان کے نزدیک پاکستان کی آزادی کا اعلان اگرچہ ایک عظیم تاریخی لمحہ تھا مگر اس لمحے کے بعد جو سفر شروع ہوا وہ کہیں زیادہ پیچیدہ، خطرناک اور آزمائشوں سے بھرا ہوا تھا کیونکہ پاکستان نے ایک ایسے عالمی نظام میں آنکھ کھولی جس میں طاقتور ریاستیں کمزور ممالک کے فیصلوں پر اپنا سایہ ڈالتے ہوئے ان کی راہوں کا تعین کرتی تھیں۔
بھٹو کا بنیادی استدلال یہ ہے کہ پاکستان نے آزادی تو حاصل کر لی مگر اس آزادی کی روح اور اس کے تقاضوں کو پوری طرح نہ سمجھا اور نہ ہی اس کی حفاظت کے لیے وہ فکری اور معاشی بنیادیں قائم کیں جن کے بغیر کوئی قوم حقیقی خودمختاری حاصل نہیں کر سکتی۔ وہ اس امر پر افسوس کا اظہار کرتے ہیں کہ ہماری سیاسی قیادت نے قومی سلامتی کے نام پر مغربی طاقتوں کی جانب جھکاؤ اختیار کیا اور یوں خارجہ پالیسی وہ سمت اختیار کرتی چلی گئی جہاں پاکستان کے فیصلے اکثر بیرونی مفادات کی چھاؤں میں گم ہو گئے۔ بھٹو کے نزدیک پاکستان کی خارجہ پالیسی کی سب سے بڑی کمزوری یہی انحصار پسندی تھی جس نے ریاست کے اندر خود اعتمادی کی کمی کو جنم دیا اور عالمی قوتوں کے لیے پاکستان کو ایک آسان مہرہ بنا دیا۔
بھٹو اس حقیقت کو بھی بے نقاب کرتے ہیں کہ پاکستان کی ابتدائی دہائیوں میں عالمی سیاست کا نقشہ سرد جنگ نے مرتب کیا تھا۔ طاقت کے دو بڑے بلاک ایک دوسرے سے برسرِ پیکار تھے اور ترقی پذیر ممالک کو مجبوراً کسی نہ کسی کیمپ کا حصہ بننا پڑتا تھا۔ بھٹو کے مطابق پاکستان نے سلامتی کے تقاضوں، بھارتی خطرے اور داخلی کمزوریوں کے باعث مغربی بلاک کو اپنا سہارا سمجھا مگر یہی فیصلہ پاکستان کے لیے طویل المدت سیاسی اور سفارتی نقصان کا باعث بنا۔ وہ اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ مغربی طاقتوں کے ساتھ تعلقات نے پاکستان کو وقتی سہارا ضرور دیا مگر یہ سہارا دراصل ایک ایسا بوجھ تھا جس نے ریاست کی خودمختار سوچ کو محدود کر دیا۔ بھٹو کے نزدیک وہ تمام معاہدے جو اس دور میں پاکستان نے دفاع اور امداد کے نام پر قبول کیے وہ دراصل آزادی کے اس Myth کو تقویت دیتے رہے جہاں ہم خود کو آزاد سمجھتے بھی رہے اور دوسروں کے زیرِ اثر فیصلے بھی کرتے رہے۔
بھٹو یہ بھی واضح کرتے ہیں کہ عالمی سیاست میں کسی قوم کا اصل مقام اس وقت متعین ہوتا ہے جب وہ داخلی طور پر مضبوط ہو۔ وہ پاکستان کے اندر جمہوری کمزوری، ادارہ جاتی عدم استحکام اور باہمی انتشار کو بھی بیرونی مداخلت کے لیے راستہ ہموار کرنے والا عنصر قرار دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک جب اندرونی قیادت کمزور ہو تو ریاست بیرونی اثرات کے سامنے زیادہ جلدی جھک جاتی ہے۔ بھٹو کے مطابق آزادی کی حفاظت صرف جنگی ساز و سامان سے نہیں کی جاتی بلکہ ایک مضبوط سیاسی نظام، تعلیم یافتہ عوام اور ذمہ دار قیادت ہی وہ ستون ہیں جو قوم کی خودمختاری کو مضبوط بناتے ہیں۔
پاکستان کی جغرافیائی حیثیت کو بھٹو ایک نعمت بھی کہتے ہیں اور آزمائش بھی۔ وہ اعتراف کرتے ہیں کہ جنوبی ایشیا کے مسائل خصوصاً بھارت کے ساتھ کشیدہ تعلقات اور کشمیر کا تنازع پاکستان کی خارجہ پالیسی کے بنیادی محرکات رہے ہیں۔ ان کے مطابق کشمیر محض ایک زمینی تنازع نہیں بلکہ پاکستان کی سلامتی، قومی وقار اور نظریاتی تشخص سے جڑا ہوا مسئلہ ہے۔ اسی لیے پاکستان نے عالمی سیاست میں اکثر وہ فیصلے کیے جو کشمیر کے تناظر میں دیکھے جاتے ہیں۔ بھٹو سمجھتے ہیں کہ بھارت کی بالادستی کی خواہش ہمیشہ خطے میں طاقت کے عدم توازن کا سبب رہی ہے اور اس توازن کو برقرار رکھنے کے لیے پاکستان کو ایک ایسی خارجہ پالیسی کی ضرورت تھی جو خودمختاری پر قائم ہو نہ کہ کسی بیرونی طاقت کے عوض میں۔
بھٹو اپنے تجزیے میں چین کے ساتھ تعلقات کو پاکستان کی تاریخ کا ایک روشن باب قرار دیتے ہیں۔ وہ اسے ایک فطری دوستی کہتے ہیں جس کی بنیاد جغرافیائی قربت، مشترکہ سلامتی کے خدشات اور باہمی احترام پر قائم ہے۔ بھٹو کے مطابق چین کے ساتھ تعلقات پاکستان کو ایک ایسے مضبوط سفارتی محور تک لے جا سکتے تھے جو اسے مغربی اور مشرقی طاقتوں کے درمیان متوازن رکھتا۔ اسی طرح مسلم دنیا سے باہمی تعاون کو بھی وہ پاکستان کے لیے ایک بڑا موقع سمجھتے ہیں۔ بھٹو کا خیال ہے کہ اگر پاکستان مسلم دنیا میں فکری اور سیاسی قیادت کا کردار ادا کرتا تو اسے بیرونی طاقتوں کی محتاجی نہ رہتی بلکہ ایک خودمختار بلاک کی بنیاد رکھنے میں بھی حصہ ڈال سکتا تھا۔
بھٹو غیر وابستہ ممالک کی تحریک کو بھی پاکستان کے لیے ایک بہترین سفارتی راستہ سمجھتے ہیں۔ ان کے مطابق یہ تحریک ترقی پذیر ممالک کو موقع دیتی تھی کہ وہ اپنے فیصلے عالمی دباؤ سے آزاد ہو کر کریں اور اپنی ترجیحات اپنی ضرورتوں کے مطابق طے کریں۔ بھٹو کو افسوس ہے کہ پاکستان نے اس تحریک میں مرکزی کردار ادا کرنے کے بجائے خود کو ایک مخصوص عالمی بلاک تک محدود کر دیا اور یوں وہ جگہ کھو دی جو اسے ایک خودمختار، باوقار ریاست کے طور پر مل سکتی تھی۔
کتاب کے آخر میں بھٹو پاکستان کے لیے ایک ایسا وژن پیش کرتے ہیں جو خود اعتمادی، باوقار سفارت کاری اور قومی مفاد پر مبنی پالیسیوں کے گرد گھومتا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کو اپنی آزادی کا Myth توڑ کر حقیقت کا سامنا کرنا ہوگا۔ اس حقیقت کے مطابق اگر کوئی قوم معاشی طور پر دوسروں کی محتاج ہو، دفاعی طور پر دوسروں کے سہارے کی طالب ہو اور سیاسی طور پر بیرونی دباؤ قبول کرنے پر مجبور ہو تو وہ بظاہر آزاد تو ہو سکتی ہے مگر حقیقت میں اس کی آزادی ادھوری ہوتی ہے۔ بھٹو کے نزدیک حقیقی آزادی وہ ہے جہاں ریاست اپنے فیصلے خود کرے، اپنی پالیسی خود بنائے اور اپنی سمت خود متعین کرے۔ ان کے مطابق پاکستان کا مستقبل اسی وقت روشن ہو سکتا ہے جب وہ عالمی سیاست میں برابری کی سطح پر کھڑا ہو کر اپنے مفاد کے مطابق فیصلے کرے اور اپنی خودمختاری کو سب سے بلند تر قدر سمجھتے ہوئے اس کی حفاظت کرے۔

