Saqafati Shanakht Aur Istemari Ijarah Dari
ثقافتی شناخت اور استعماری اجارہ داری

عالمی سیاست اور فکری جغرافیے کی ساخت پر استعماری تاریخ کے گہرے نقوش ثبت ہیں۔ استعمار محض زمینوں اور وسائل کی فتح نہیں بلکہ ذہنوں، زبانوں، بیانیوں اور نظریات کی تسخیر بھی تھا۔ اسی تسلط کے پس منظر میں، علمی و ادبی سطح پر مابعد نوآبادیاتی فکرنے جنم لیا، جس کا مقصد ان بیانیوں کو بے نقاب کرنا تھا جو استعماری طاقتوں نے اپنے اقتدار کو مقدس اور مہذب قرار دینے کے لیے تراشے تھے۔
ڈاکٹر ناصر عباس نیر کی کتاب "ثقافتی شناخت اور استعماری اجارہ داری" اردو تحقیق میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے، جو نہ صرف علمی دیانت کا نمونہ ہے بلکہ اردو تنقید میں استعماری بیانیوں کی فکری تحلیل بھی پیش کرتی ہے۔ ان کے تحقیقی سفر کی ابتداء ہائیڈل برگ یونیورسٹی کے South Asia Institute میں ہوئی، جہاں انھیں جرمن تعلیمی ادارے DAAD کی جانب سے پوسٹ ڈاکٹریٹ فیلوشپ ملی۔ یہ سفر محض تحقیق کا نہ تھا بلکہ ایک فکری مکالمے کا آغاز تھا، جس میں انھوں نے مشرق اور مغرب کے بیانیوں کو آمنے سامنے رکھا۔
کتاب کا پیش لفظ جہاں مصنف کی ذاتی فکری تگ و دو کا عکاس ہے، وہیں اس میں یہ اقرار بھی ملتا ہے کہ استعمار کا بیانیہ صرف فوجی یا سیاسی طاقت سے نہیں بلکہ تعلیمی و ثقافتی اداروں کے ذریعے بھی قائم ہوا۔ ہائیڈل برگ یونیورسٹی میں قائم South Asia Institute کی تشکیل اور اس کے علمی رویے اس بات کا ثبوت ہیں کہ جرمن استشراق نے، برطانوی اور فرانسیسی استشراق کے برعکس، علم کو سیاسی استعمار کی توسیع کا ذریعہ نہیں بنایا۔ یہی وجہ ہے کہ اس انسٹی ٹیوٹ کے سربراہ پروفیسر ہانس ہرڈر اور اردو کی اسکالر ڈاکٹر کرسٹینا جیسے ماہرین مشرق اور مغرب کے بیانیوں کو برابری کے نظریے سے دیکھنے کے قائل ہیں۔
ڈاکٹر ناصر عباس نیر کی تحقیق اردو نصاب اور ادب میں نوآبادیاتی اثرات کو تلاش کرنے کی سعی ہے۔ ان کے مطابق، اردو نصاب میں بعض فکری اور لسانی ساختیں استعماری ذہنیت کی آئینہ دار تھیں۔ یہی استعماری ساختیں مقامی ثقافت، زبان اور علم کے وقار کو مجروح کرتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اپنی تحقیق کو "اردو نصابات کا مابعد نوآبادیاتی مطالعہ" کا عنوان دیا، جو موضوعاتی لحاظ سے نہایت معنی خیز اور وقت کی اہم ضرورت ہے۔
کتاب میں نہ صرف برصغیر میں استعمار کی لسانی حکمت عملیوں کو بے نقاب کیا گیا ہے، بلکہ یورپ میں اردو ادب کے فروغ، اس پر ہونے والی تحقیق اور اس کے مخصوص فکری زاویوں کو بھی زیر بحث لایا گیا ہے۔ جرمن محققین جیسے ڈاکٹر کرسٹینا اور دیگر نے اردو فکشن پر جو مقالات لکھے، ان سے واضح ہوتا ہے کہ یورپ میں اردو ادب کو محض نوآبادیاتی تجسس کے بجائے، ایک زندہ، متحرک اور فکری طور پر مضبوط زبان و ادب کے طور پر سمجھا جاتا ہے۔
کتاب میں بیان کیا گیا ایک نہایت اہم نکتہ یہ ہے کہ مکالمہ، مغرب اور مشرق کے درمیان موجود خلیج کو مٹانے کا مؤثر ذریعہ ہے۔ ڈاکٹر ناصر عباس نیر کا مشاہدہ ہے کہ یورپی طالب علموں اور ماہرین سے ہونے والی گفتگو میں یہ بات بار بار سامنے آتی ہے کہ فکری، مذہبی اور سیاسی اختلافات کے باوجود مشترکہ انسانی بنیادیں اب بھی موجود ہیں اور انھیں مستحکم کیا جا سکتا ہے۔ مکالمہ ہمیں اختلاف کے ساتھ جینا سکھاتا ہے، نہ کہ مخالفت میں جینا۔
یہ نکتہ اسی لیے اہم ہے کہ استعماری اور نوآبادیاتی بیانیے میں مشرق کو ہمیشہ ایک دوسرے کے طور پر پیش کیا گیا۔ ایڈورڈ سعید نے اپنی کتاب "Orientalism" میں اس دوسرے پن کو بے نقاب کیا، جس کے تحت مشرق کو ایک جامد، غیر ترقی یافتہ اور مغرب کا محتاج خطہ قرار دیا گیا۔ ڈاکٹر ناصر عباس نیر اس تنقیدی روایت کو اردو ادب پر منطبق کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ کس طرح ہمارے نصابات، علمی ادارے اور حتیٰ کہ زبان کی ساخت بھی نوآبادیاتی ورثے کی حامل ہیں۔
مصنف کا مشاہدہ یہ بھی ہے کہ ہائیڈل برگ یونیورسٹی جیسے اداروں میں، جہاں تحقیقی مواد، لائبریری اور تعلیمی ماحول میں طبقاتی رکاوٹیں نہیں، وہاں علم کی اصل روح کار فرما ہوتی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ تین لاکھ سے زائد کتب پر مشتمل لائبریری میں جنوبی ایشیا سے متعلق علمی مواد کی جدید انداز میں دستیابی، اس بات کی علامت ہے کہ علم کو سنبھالنے اور عام کرنے کا فن، استعماری دنیا کے برعکس، یہاں زیادہ جمہوری ہے۔
کتاب میں مغربی مفکرین کے حوالے بھی بڑی دقت نظر سے شامل کیے گئے ہیں، تاکہ قارئین کو علم ہو کہ استشراق صرف استعماری سازش نہیں بلکہ فکری پیچیدگیوں، تہذیبی ارتباط اور علمی تحقیق کی بنیاد بھی ہے۔ ڈاکٹر ناصر عباس نیر نے اردو ادب کے نصاب کو محض درسی مواد نہیں سمجھا بلکہ اسے ایک سیاسی و فکری متن کی حیثیت دی، جو استعماری اور قومی بیانیوں کے بیچ جھولتا رہا۔
آخر میں مصنف اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ اصل خطرہ مغرب سے نہیں بلکہ اس اشرافی اقلیت سے ہے جو ہر ملک کے اقتدار پر قابض ہے اور جس کی مفاد پرستی نے دنیا کو نظریاتی، ثقافتی اور معاشی بنیادوں پر تقسیم کر رکھا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مغرب کا خوف اس وقت زائل ہوتا ہے جب ہم مکالمے، تحقیق اور علمی گفتگو کے دروازے کھولتے ہیں۔ یہی وہ نکتہ ہے جس پر کتاب کا پورا استدلال قائم ہے: کہ علم، سوال سے جنم لیتا ہے اور سوال ہی استعمار کے بند دروازے توڑتا ہے۔
یوں یہ کتاب محض ایک علمی مقالہ نہیں، بلکہ اردو ادب، نصاب اور فکری آزادی کے لیے ایک بیداری کا پیغام ہے۔ اردو تنقید میں اس کتاب کی اہمیت اس لیے بھی مسلم ہے کہ یہ مابعد نوآبادیاتی تھیوری کو محض مغربی تنقیدی فریم ورک کے تحت نہیں، بلکہ مقامی تناظر میں برتنے کی کامیاب مثال پیش کرتی ہے۔

