Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Afshan Saher
  4. Nojawan Nasal Aur Social Media

Nojawan Nasal Aur Social Media

نوجوان نسل اور سوشل میڈیا

اکیسویں صدی کو اگر ڈیجیٹل صدی کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا اور اس صدی کی سب سے انقلابی ایجاد "سوشل میڈیا" ہے، جس نے انسانی زندگی کے ہر پہلو کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ خاص طور پر نوجوان نسل، جو ہمہ وقت اس نئے ورچوئل جہان میں سانس لے رہی ہے، موبائل فون، لیپ ٹاپ اور انٹرنیٹ کے ذریعے دنیا کی ہر خبر، ہر منظر، ہر آواز محض ایک کلک کی دوری پر آ چکی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ قربت انسانی فاصلوں کو بھی کم کر رہی ہے یا ایک نئی طرح کی تنہائی کو جنم دے رہی ہے؟

سوشل میڈیا کا آغاز جس مقصد کے لیے ہوا تھا، وہ معلومات کی تیز تر ترسیل، اظہارِ رائے کی آزادی اور عالمی سطح پر انسانوں کو جوڑنے کا خواب تھا۔ فیس بک، انسٹاگرام، ایکس (سابقہ ٹوئٹر)، ٹک ٹاک اور یوٹیوب جیسے پلیٹ فارمز نے نوجوانوں کو ایک ایسی شناخت عطا کی جو نہ صرف مقامی بلکہ عالمی سطح پر پہچانی جاتی ہے۔ آج کا نوجوان ایک ویڈیو، ایک پوسٹ یا ایک ٹرینڈ کے ذریعے ہزاروں لوگوں تک اپنا پیغام پہنچا سکتا ہے۔ وہ کسی مسئلے پر آواز بلند کر سکتا ہے، اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو پیش کر سکتا ہے اور اپنی معلومات میں بے پناہ اضافہ بھی کر سکتا ہے۔

تاہم اس بے پناہ آزادی کے ساتھ ایک گہری ذمہ داری بھی جڑی ہوئی ہے، جس کا شعور اکثر نوجوانوں کو نہیں ہوتا۔ وہ ان دیکھے معاشرتی دباؤ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر پیش کی جانے والی مثالی زندگیاں، خوش نما چہرے، مہنگے ملبوسات، غیر ملکی سفر، کامیابیاں اور تعریفی تبصرے، یہ سب ایک ایسا مصنوعی ماحول تخلیق کرتے ہیں جو حقیقی زندگی سے کوسوں دور ہے۔ نوجوان ان غیر حقیقی معیاروں سے اپنا موازنہ کرتے ہیں، نتیجتاً احساسِ کمتری، ڈپریشن اور عدم اطمینان ان کے ذہن و دل کو اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں۔

سوشل میڈیا نے معلومات کے حصول کو آسان ضرور بنایا ہے، لیکن سچ اور جھوٹ کے درمیان کی لکیر بھی دھندلا دی ہے۔ افواہوں، غلط معلومات، جھوٹے دعوؤں اور نفرت انگیز مواد کی اشاعت اب محض ایک بٹن دبانے کی بات ہے۔ نوجوان، جو ابھی فکری طور پر پختگی کے عمل سے گزر رہے ہوتے ہیں، ان مواد سے متاثر ہو کر انتہا پسندانہ سوچ، غلط فہمیوں اور نفسیاتی الجھنوں کا شکار ہو سکتے ہیں۔

ایک اور سنگین پہلو وقت کا ضیاع ہے۔ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد روزانہ کئی کئی گھنٹے بے مقصد اسکرولنگ، لائک، شیئر اور کمنٹس میں گزار دیتی ہے۔ سوشل میڈیا کی لت اس قدر شدید ہو چکی ہے کہ نیند، مطالعہ، کھیل، خاندانی روابط، حتیٰ کہ کھانے کے اوقات بھی متاثر ہو رہے ہیں۔ اس کے نتیجے میں جسمانی کمزوری، ذہنی تھکن، آنکھوں کی بیماریوں اور یادداشت کی کمزوری جیسے مسائل جنم لے رہے ہیں۔

لیکن اس ساری تصویر کا ایک روشن رخ بھی ہے۔ سوشل میڈیا نے نوجوانوں کو ایک ایسا پلیٹ فارم فراہم کیا ہے جہاں وہ اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو جِلا دے سکتے ہیں۔ شاعری، مصوری، فوٹوگرافی، وی لاگنگ، گلوکاری، ڈرامہ نویسی اور متعدد فنونِ لطیفہ کو اب کسی بڑے اسٹیج کی ضرورت نہیں، بس ایک موبائل اور جذبے کی ضرورت ہے۔ کتنے ہی نوجوان ایسے ہیں جو صرف سوشل میڈیا کی بدولت شہرت کی بلندیوں کو چھو چکے ہیں اور باعزت روزگار کما رہے ہیں۔

تعلیم و تحقیق میں بھی سوشل میڈیا کا کردار نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ لیکچرز، آن لائن کورسز، علمی مباحث، ریسرچ گروپس اور لائبریریوں تک رسائی نے علم کے دروازے نوجوانوں پر کھول دیے ہیں۔ کورونا وبا کے دوران جب روایتی تعلیمی نظام مفلوج ہوگیا تھا، تب سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل پلیٹ فارمز نے ہی تعلیمی تسلسل کو ممکن بنایا۔ یہ کہنا بجا ہے کہ آنے والے وقت میں تعلیم، سوشل میڈیا کے بغیر نامکمل رہے گی۔

سوشل میڈیا نے نوجوانوں کو اظہارِ رائے کا ایسا فورم دیا ہے جو کسی بھی سیاسی یا معاشرتی تحریک کے لیے ناگزیر ہو چکا ہے۔ "عرب اسپرنگ" ہو یا "بلو ویلفیئر" جیسے فلاحی اقدامات، نوجوان ہی ان تحریکوں کی روح تھے۔ پاکستان میں بھی حالیہ برسوں میں نوجوانوں کی آن لائن مہمات نے حکومتوں کو فیصلے بدلنے پر مجبور کیا۔ یہ اس امر کی دلیل ہے کہ نوجوان سوشل میڈیا کے ذریعے نہ صرف تبدیلی لا سکتے ہیں بلکہ پوری دنیا کو اپنی آواز سنا سکتے ہیں۔

تاہم اس طاقت کو دانش مندی سے استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ سوشل میڈیا ایک تلوار ہے جو اگر مثبت استعمال ہو تو انصاف کی بحالی کا ذریعہ بن سکتی ہے اور اگر منفی انداز میں برتی جائے تو سماج کے لیے زہر بن سکتی ہے۔ نوجوان نسل کو یہ سمجھنا ہوگا کہ سوشل میڈیا ان کی شخصیت کی عکاسی کرتا ہے۔ ان کا ہر لفظ، ہر تصویر، ہر ویڈیو ایک تاثر چھوڑتی ہے جو یا تو معاشرے کو نکھار سکتی ہے یا بگاڑ سکتی ہے۔

والدین، اساتذہ اور ریاست کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ نوجوانوں کو سوشل میڈیا کے مثبت اور منفی پہلوؤں سے آگاہ کریں۔ تعلیمی اداروں میں میڈیا لٹریسی کو نصاب کا حصہ بنایا جائے تاکہ نوجوان صرف صارف نہ رہیں بلکہ باشعور اور ذمہ دار صارف بن سکیں۔ سائبر کرائم، پرائیویسی اور آن لائن اخلاقیات جیسے موضوعات پر ورکشاپس اور سیمینارز کا انعقاد ضروری ہے تاکہ نوجوان اپنی شناخت، وقت اور ذہن کو محفوظ رکھ سکیں۔

آخر میں یہ کہنا بجا ہے کہ سوشل میڈیا نہ تو مکمل نعمت ہے اور نہ ہی سراسر لعنت۔ یہ ایک طاقت ہے جو استعمال کرنے والے کے شعور، نیت اور رویے پر منحصر ہے۔ نوجوان نسل اگر اس طاقت کو دانشمندی، اعتدال اور مقصدیت کے ساتھ استعمال کرے تو یہ ان کے لیے ترقی، آگہی اور خود اعتمادی کی راہ ہموار کر سکتا ہے۔ بصورتِ دیگر یہ بے مقصدیت، خود فریبی اور گم گشتگی کا سبب بن سکتا ہے۔

لہٰذا نوجوانوں کے لیے یہ لمحۂ فکریہ ہے کہ وہ خود سے یہ سوال کریں: "میں سوشل میڈیا کو استعمال کر رہا ہوں، یا سوشل میڈیا مجھے استعمال کر رہا ہے؟"

Check Also

Mufti Muneeb Ur Rehman

By Abid Mehmood Azaam