Maholiyati Tabdeeli Aur Urdu Adab
ماحولیاتی تبدیلی اور اردو ادب

دنیا آج ایک سنگین ماحولیاتی بحران سے دوچار ہے، جس کے اثرات نہ صرف فطری ماحول پر پڑ رہے ہیں بلکہ انسانی زندگی، معیشت، صحت اور تہذیب پر بھی گہرے نقوش چھوڑ رہے ہیں۔ عالمی درجہ حرارت میں اضافہ، گلیشیئرز کا پگھلاؤ، جنگلات کی بے دریغ کٹائی، فضائی آلودگی، پانی کی قلت اور موسمیاتی بے ترتیبی جیسے مسائل اب معمول بن چکے ہیں۔ یہ وہ حقائق ہیں جو نہ صرف سائنسی رپورٹس اور اقوامِ متحدہ کے اداروں کی تحقیقات میں سامنے آ رہے ہیں بلکہ عام انسان بھی ان کا روز مرہ زندگی میں مشاہدہ کر رہا ہے۔
جہاں سائنس، معیشت اور پالیسی سازی کے ماہرین ماحولیاتی تبدیلی پر گفتگو کر رہے ہیں، وہیں ادب خصوصاً اردو ادب نے بھی اس موضوع پر خاموشی اختیار نہیں کی۔ اردو ادب، جو ہمیشہ انسانی احساسات، مشاہدات اور مسائل کا ترجمان رہا ہے، اب ماحولیاتی بحران کو بھی اپنی تخلیقات میں جگہ دے رہا ہے۔ اس حوالے سے اردو شاعری، نثر، صحافت اور بچوں کے ادب میں نمایاں تبدیلی دیکھی جا سکتی ہے۔
اردو شاعری کا دامن فطری عناصر سے ہمیشہ بھرا رہا ہے۔ کلاسیکی شعرا جیسے میر، غالب، اقبال اور نظیر اکبرآبادی نے اپنی شاعری میں بہار، خزاں، چمن، بارش، پرندوں اور درختوں کو علامتی اور جمالیاتی طور پر استعمال کیا۔ تاہم موجودہ دور کے شعرا نے فطرت کی خوبصورتی کے ساتھ ساتھ اس کی بگڑتی ہوئی حالت پر بھی قلم اٹھایا ہے۔ جدید شاعری میں ماحول سے جڑے مسائل، جیسے دھوئیں سے آلودہ فضا، بارشوں کی کمی، درختوں کی کٹائی اور زمین کی بنجر ہوتی ہوئی صورت حال کا ذکر بڑے حساس انداز میں کیا جا رہا ہے۔
اسی طرح اردو نثر بھی پیچھے نہیں رہی۔ افسانہ، ناول اور مضامین میں ایسے موضوعات اب نمایاں ہو چکے ہیں جن میں زمین کی زرخیزی، قدرتی وسائل کی کمی، کسانوں کی حالتِ زار، گاؤں کے اجڑنے اور بارشوں کی قلت جیسے مسائل شامل ہیں۔ بعض کہانیوں میں قدرتی آفات جیسے سیلاب، قحط، یا خشک سالی کو موضوع بنا کر نہ صرف ماحول کی خرابی کو بیان کیا گیا ہے بلکہ اس کے انسانی زندگی پر اثرات کو بھی اجاگر کیا گیا ہے۔
اردو ادب میں بچوں کے لیے لکھی جانے والی تحریریں بھی ماحولیاتی شعور بیدار کرنے میں اپنا کردار ادا کر رہی ہیں۔ اب کہانیوں، نظموں اور سبق آموز تحریروں میں درختوں کی اہمیت، پانی کے تحفظ، جانوروں سے حسنِ سلوک اور فضائی آلودگی سے بچاؤ جیسے موضوعات شامل کیے جا رہے ہیں۔ اس کا مقصد نئی نسل کو ابتدا ہی سے ماحول دوست رویے اپنانے کی ترغیب دینا ہے، تاکہ وہ ایک بہتر اور محفوظ مستقبل کے معمار بن سکیں۔
ادبی تقاریب اور تعلیمی اداروں میں بھی ماحولیاتی موضوعات پر مشاعرے، تقاریر اور مضمون نویسی کے مقابلے منعقد کیے جا رہے ہیں۔ یہ سرگرمیاں اس بات کا ثبوت ہیں کہ اردو زبان اور اس کے ادارے اس عالمی مسئلے سے غافل نہیں۔ اخبارات اور جرائد میں ماحولیاتی تبدیلی سے متعلق کالم، فیچرز اور اداریے اب باقاعدگی سے شائع ہو رہے ہیں، جو اردو قارئین میں بیداری پیدا کرنے کا ایک مؤثر ذریعہ بن چکے ہیں۔
یہ حقیقت اب کسی سے پوشیدہ نہیں رہی کہ ماحولیاتی تبدیلی صرف سائنسی یا تکنیکی مسئلہ نہیں بلکہ ایک انسانی، تہذیبی اور فکری مسئلہ بھی ہے۔ ادب چونکہ انسانی شعور، جذبات اور احساسات کا آئینہ دار ہوتا ہے، اس لیے اس کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ معاشرے میں ماحول دوست سوچ پیدا کرے۔ اردو ادب میں یہ رجحان اب نمایاں ہو چکا ہے کہ لکھنے والے ماحول سے متعلق نہ صرف مسائل کی نشاندہی کریں بلکہ ان کے ممکنہ حل پر بھی غور و فکر کریں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ اردو زبان میں ماحولیاتی موضوعات پر مزید معیاری کتب، تحریریں اور تحقیق سامنے آئے، تاکہ یہ شعور نہ صرف ادبی حلقوں تک محدود رہے بلکہ عام قارئین تک بھی پہنچے۔ تعلیمی نصاب میں ماحولیاتی تبدیلی پر مبنی اردو مضامین کا اضافہ، اساتذہ کی تربیت اور اردو میڈیا میں ماحول دوست مواد کی ترویج وقت کی اہم ضرورت ہے۔
آخر میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی ایک ایسا بحران ہے جس پر سنجیدہ گفتگو ہر سطح پر ہونی چاہیے۔ اردو ادب چونکہ عوامی زبان ہے اور اس کی رسائی ہر طبقے تک ہے، اس لیے اس کے ذریعے ماحولیاتی بیداری پیدا کرنا نہ صرف ممکن ہے بلکہ مؤثر بھی۔ اگر اردو ادیب، شاعر اور صحافی اس اہم موضوع کو اپنی ترجیح بنائیں تو یقیناً ایک مثبت تبدیلی کی بنیاد رکھی جاسکتی ہے۔ آج کا اردو ادب صرف دل کی بات نہیں، زمین کی بات بھی کر رہا ہے اور یہی ہماری بقا کی امید ہے۔

