Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Afshan Saher
  4. Dunyavi Asaishon Ki Tarha Insanon Ko Bhi Tabdeel Karna

Dunyavi Asaishon Ki Tarha Insanon Ko Bhi Tabdeel Karna

دنیاوی آسائشوں کی طرح انسانوں کو بھی تبدیل کرنا

انسانی زندگی کی کہانی ہمیشہ تبدیلیوں سے بھری رہی ہے۔ وقت کے ساتھ انسان نے اپنے طرزِ زندگی، نظریات اور خواہشات کو بدلتے دیکھا ہے۔ مگر ان تبدیلیوں کی ایک صورت وہ بھی ہے جو روح اور احساس کی دنیا میں رونما ہوئی۔ جب انسان نے آسائشوں کی تلاش میں خود انسانوں کو بھی اشیاء کی طرح سمجھنا شروع کیا، تو محبت، خلوص اور وفاداری جیسے جذبات کی معنویت کم ہوتی چلی گئی۔ آج کے دور میں یہ جملہ ایک تلخ حقیقت کی عکاسی کرتا ہے کہ دنیاوی آسائشوں کی طرح انسانوں کو بھی تبدیل کرنا کسی کے لیے تفریح تو کسی کے لیے اذیت بن چکا ہے۔

انسان ہمیشہ سے بہتر زندگی کی جستجو میں رہا ہے۔ وہ زیادہ آرام، زیادہ سہولت اور زیادہ خوشی چاہتا ہے۔ ابتدا میں یہ جستجو محض مادی تھی، مگر رفتہ رفتہ اس نے انسانی رشتوں اور احساسات کو بھی اس دوڑ میں شامل کر لیا۔ آج کے انسان کے نزدیک رشتہ بھی ایک چیز بن چکا ہے، جسے جب چاہو بدل لو، جیسے پرانا لباس یا فون بدل لیا جاتا ہے۔ لیکن فرق یہ ہے کہ اشیاء کے بدلنے سے سہولت بڑھتی ہے، جبکہ انسانوں کے بدلنے سے احساسات مر جاتے ہیں۔

موجودہ دور میں مادیت پسندی نے انسان کی سوچ کو محدود کر دیا ہے۔ اس نے انسانی تعلقات کو بھی ایک کاروبار کی شکل دے دی ہے۔ جہاں فائدہ ہو وہاں تعلق، جہاں فائدہ ختم وہاں جدائی۔ معاشرتی رویوں میں یہ تبدیلی خطرناک حد تک عام ہو چکی ہے۔ لوگ ایک دوسرے کو استعمال کرتے ہیں، دکھاوے کے تعلقات بناتے ہیں اور جب دل بھر جاتا ہے تو دوسروں کی جگہ نئے لوگوں کو اپنی زندگی میں شامل کر لیتے ہیں۔ یوں انسان خود بھی ایک چیز بن گیا ہے، جس کی قیمت ضرورت کے مطابق لگائی جاتی ہے۔

یہ رویہ ہر ایک کے لیے یکساں نہیں ہوتا۔ کچھ لوگ ایسے ہیں جن کے لیے رشتے صرف وقتی خوشی یا تفریح کا ذریعہ ہیں۔ وہ محبت کو ایک کھیل سمجھتے ہیں، جہاں جذبات کا کوئی وزن نہیں۔ وہ کسی کے دل کو توڑ کر بھی یہ سوچتے ہیں کہ یہ معمولی بات ہے۔ ان کے نزدیک انسانوں کو بدلنا ایسا ہی آسان ہے جیسے کوئی نئی شے خرید لینا۔ مگر دوسری طرف وہ لوگ ہیں جن کے لیے تعلقات دل سے جڑے ہوتے ہیں۔ وہ خلوص اور سچائی کے ساتھ جیتے ہیں۔ جب انہیں دھوکا ملتا ہے یا چھوڑ دیا جاتا ہے، تو ان کی روح زخمی ہوتی ہے۔ وہ احساسِ محرومی اور اذیت کا شکار ہو جاتے ہیں۔

سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل زندگی نے اس مسئلے کو مزید بڑھا دیا ہے۔ اب رشتے اسکرین کے ذریعے بنتے اور ٹوٹتے ہیں۔ لوگ چند لمحوں میں کسی کو "دوست" بنا لیتے ہیں اور اتنی ہی آسانی سے اسے بلاک کر دیتے ہیں۔ یہ دنیا مصنوعی جذبات سے بھری ہوئی ہے جہاں ہر چہرہ خوش نظر آتا ہے مگر اندر سے خالی ہے۔ یہاں دوستی اور محبت بھی "ڈیجیٹل کنکشن" کی طرح ہیں، جنہیں جب چاہو ختم کر دو۔ یوں تعلقات کی گہرائی مٹ گئی ہے اور انسان کے دل میں انسان کے لیے جگہ کم ہوگئی ہے۔

یہ طرزِ عمل دراصل اخلاقی زوال کی علامت ہے۔ جب انسان کسی دوسرے انسان کو محض فائدے یا وقتی خوشی کا ذریعہ سمجھنے لگتا ہے تو وہ اپنی روحانی قدروں سے محروم ہو جاتا ہے۔ محبت، اعتماد اور قربانی جیسے جذبے معدوم ہو جاتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ انسان بظاہر خوشحال مگر اندر سے خالی ہو جاتا ہے۔ اس کے پاس سب کچھ ہوتا ہے مگر سکون نہیں ہوتا۔ وہ جس تیزی سے دوسروں کو بدلتا ہے، خود بھی اتنی ہی آسانی سے دوسروں کے لیے غیر ضروری بن جاتا ہے۔

دوسروں کو بدلنے کی عادت ایک طرح کا خود فریبی ہے۔ یہ انسان کو یہ احساس دلاتی ہے کہ وہ خود مختار اور طاقتور ہے، مگر درحقیقت وہ اپنی کمزوری چھپا رہا ہوتا ہے۔ جو شخص رشتے نبھا نہیں سکتا، وہ اپنی ناکامی کو "دلچسپی ختم ہونے" کا نام دیتا ہے۔ اس کے برعکس جو شخص خلوص کے ساتھ کسی سے وابستہ ہوتا ہے، وہ جدائی کو ایک ذاتی المیہ سمجھتا ہے۔ اس کی دنیا ٹوٹ جاتی ہے کیونکہ اس نے رشتے کو دل سے قبول کیا تھا۔ یہی فرق ہے تفریح اور اذیت میں۔

انسان کی اصل خوبصورتی اس کے احساس میں ہے۔ وہ مٹی کے مجسمے کی طرح نہیں کہ جسے جب چاہے تراش لیا جائے۔ انسان اپنی یادوں، تجربات اور جذبات کا مجموعہ ہے۔ جب ہم کسی کو بدلنے کی کوشش کرتے ہیں تو دراصل ہم اس کی انفرادیت کو ختم کرتے ہیں۔ ہر انسان ایک الگ کہانی رکھتا ہے۔ اسے بدلنے کے بجائے قبول کرنا ہی انسانیت کی اصل روح ہے۔

موجودہ معاشرے میں یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ لوگ اپنی ناکامیوں کا مداوا نئے تعلقات میں ڈھونڈنے لگے ہیں۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ شاید کوئی نیا شخص انہیں مکمل کر دے گا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ جب تک انسان اپنے اندر کی کمزوریوں کو نہیں بدلتا، کوئی دوسرا انسان اس کے خالی پن کو نہیں بھر سکتا۔ تعلقات بدلنے سے زندگی نہیں بدلتی۔ صرف چہرے بدلتے ہیں، مگر احساس وہی رہتا ہے ادھورا، کمزور اور نامکمل۔

ہم جس دنیا میں رہتے ہیں وہاں تیز رفتار تبدیلیوں نے سب کچھ متاثر کیا ہے۔ مشینیں، ایجادات، معلومات، سب بدلتے جا رہے ہیں۔ مگر انسان کو بھول جانا سب سے خطرناک تبدیلی ہے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ سہولتیں بدلی جا سکتی ہیں، مگر انسان نہیں۔ اشیاء کے بدلنے سے زندگی آسان ہوتی ہے، مگر انسانوں کے بدلنے سے زندگی خالی ہو جاتی ہے۔

محبت، دوستی اور خلوص جیسے رشتے وقت کے ساتھ مضبوط ہوتے ہیں اگر ان میں اعتماد قائم رہے۔ لیکن جب ہم انہیں صرف وقتی تسکین کے لیے استعمال کرتے ہیں تو ہم ان کی روح مار دیتے ہیں۔ یہ عمل ہمیں لمحاتی خوشی تو دیتا ہے مگر طویل اذیت میں مبتلا کر دیتا ہے۔ کیونکہ انسان اشیاء کی طرح جامد نہیں۔ وہ محسوس کرتا ہے، دکھ اٹھاتا ہے اور ٹوٹنے پر بکھر جاتا ہے۔

انسانی رشتوں کو برقرار رکھنا صبر، ایثار اور فہم کا تقاضا کرتا ہے۔ مگر جدید انسان جلد باز ہے۔ وہ سب کچھ فوری چاہتا ہے خوشی، محبت، کامیابی۔ یہی جلد بازی رشتوں میں بے صبری پیدا کرتی ہے۔ وہ جس تیزی سے دوسروں کو اپنی زندگی میں لاتا ہے، اتنی ہی آسانی سے ان سے الگ بھی ہو جاتا ہے۔ نتیجتاً، معاشرہ ایسے افراد سے بھرتا جا رہا ہے جو بظاہر مسکراتے ہیں مگر اندر سے ٹوٹے ہوئے ہیں۔

آخر میں حقیقت یہ ہے کہ دنیاوی آسائشیں بدلنے سے انسان کا معیارِ زندگی تو بہتر ہو سکتا ہے، مگر انسانوں کو بدلنے سے اس کی انسانیت مجروح ہو جاتی ہے۔ جو لوگ دوسروں کو صرف اپنی خوشی کے لیے بدلتے ہیں، وہ خود اپنی روح کے خالی پن کا شکار ہو جاتے ہیں۔ جبکہ جو لوگ رشتوں کو نبھاتے ہیں، وہ تکلیف ضرور اٹھاتے ہیں مگر ان کی انسانیت باقی رہتی ہے۔

زندگی کی اصل خوبصورتی اس میں ہے کہ ہم دوسروں کو قبول کریں، ان کے احساسات کی قدر کریں اور ان کے وجود کو ایک نعمت سمجھیں۔ اشیاء بدلنا ممکن ہے، مگر انسانوں کو بدلنے کی کوشش انسان کو خود بدل دیتی ہے اور ہمیشہ بہتر کے بجائے بدتر بنا دیتی ہے۔ اس لیے اگر آسائشیں بدلنی ہیں تو بدل لیجیے، مگر انسانوں کو نہیں۔ کیونکہ انسان بدلنے سے زندگی نہیں، احساسات ختم ہو جاتے ہیں اور یہی وہ اذیت ہے جس کا کوئی مداوا نہیں۔

Check Also

J Dot Ka Nara

By Qamar Naqeeb Khan