Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Afshan Saher
  4. Aqal Ko Tanqeed Se Fursat Nahi, Ishq Par Amaal Ki Bunyad Rakh

Aqal Ko Tanqeed Se Fursat Nahi, Ishq Par Amaal Ki Bunyad Rakh

عقل کو تنقید سے فرصت نہیں، عشق پر اعمال کی بنیاد رکھ

جب علامہ اقبال نے یہ مصرع کہا، تو وہ صرف ایک شاعرانہ تجربہ نہ تھا بلکہ صدیوں پر محیط فکری کشمکش کا نچوڑ، انسان کے داخلی اضطراب اور روحانی ارتقاء کی تمثیل تھا۔ عقل اور عشق دو ایسی قوتیں ہیں جو انسانی وجود کی تشکیل میں کلیدی کردار ادا کرتی ہیں۔ ایک طرف عقل ہے جو دلیل، منطق، حساب و کتاب اور تجربے پر یقین رکھتی ہے، تو دوسری طرف عشق ہے جو جذبہ، یقین، ایثار اور تسلیم کا دوسرا نام ہے۔

عقل اپنے دائرے میں لاجواب ہے، مگر اس کی حدیں ہیں۔ یہ ہمیشہ سوال کرتی ہے، کریدتی ہے، مگر جب جواب نہ ملے تو الجھ کر رہ جاتی ہے۔ عشق وہ چراغ ہے جو اندھیرے میں روشنی کرتا ہے، وہ نغمہ ہے جو بے صوت فضا میں زندگی کی دھن جگا دیتا ہے۔ اقبال نے عقل کو انسان کی فکری توانائی کا مظہر مانا، لیکن اسے مکمل رہنما تسلیم نہیں کیا۔ ان کے نزدیک عقل کی خوبی اس میں ہے کہ وہ سوال اٹھاتی ہے، مگر عمل کا قبلہ عشق ہی متعین کرتا ہے۔

عقل: تنقید کی بے پایاں طاقت عقل انسانی شعور کی سب سے روشن علامت ہے۔ یہی عقل انسان کو حیوانات سے ممتاز کرتی ہے، یہی اسے تخلیق، تحقیق اور تفہیم کے قابل بناتی ہے۔ دنیا کی سائنسی ترقی، معاشی نظام، سیاسی ادارے اور تعلیمی ڈھانچے سب عقل کی مرہونِ منت ہیں۔ مگر اقبال اس عقل کو ایک حد سے آگے بڑھنے کا مخالف نظر آتے ہیں۔ ان کے نزدیک جب عقل صرف تنقید کا ہتھیار بن جائے، جب اس کا کام صرف نقائص تلاش کرنا رہ جائے، جب وہ عمل سے گریز کا جواز بن جائے، تو وہ بیکار ہو جاتی ہے۔

اقبال نے جدید مغربی تہذیب کے تناظر میں عقل کے اس یک طرفہ استعمال پر اعتراض کیا۔ ان کے نزدیک مغرب نے عقل کو معبود بنا کر روح، دل اور عشق جیسے داخلی و جمالیاتی پہلوؤں کو نظرانداز کر دیا، جس کے نتیجے میں انسان مشین بن کر رہ گیا۔ اس عقل نے تنقید تو بہت کی، مگر تعمیر نہ کر سکی، سوالات تو پیدا کیے، مگر ان کے جوابات نہ دے سکی، سائنس دی، مگر سکون نہ دے سکی، علم دیا، مگر عرفان سے خالی۔

عشق: عمل کی روح، یقین کا استعارہ اقبال کے ہاں عشق ایک نعرہ نہیں بلکہ ایک انقلابی قوت ہے۔ یہ وہ توانائی ہے جو خاک کو نور بنا دیتی ہے، جو قطرے کو بحر اور انسان کو کامل انسان بنا دیتی ہے۔ عشق، اقبال کے نزدیک، محض رومانی جذبہ یا کسی صنفِ مخالف کی محبت کا نام نہیں، بلکہ یہ خدا سے قربت، رسول سے محبت، قوم کے لیے ایثار اور زندگی میں یقینِ کامل کی علامت ہے۔

اقبال عشق کو وہ روحانی جوہر سمجھتے ہیں جو عمل کو توانائی دیتا ہے۔ عقل جب عشق سے محروم ہو جاتی ہے تو محض ایک خشک منطق بن جاتی ہے، جو کسی بلند مقصد تک نہیں پہنچا سکتی۔ عشق ہی وہ قوت ہے جو انسان کو بےخوف کرکے راہِ حق میں کھڑا کرتی ہے۔ عشق فرہاد کو کوہ کنی پر آمادہ کرتا ہے، عشق ہی رومی کو مولانا اور بلال حبشی کو مؤذنِ رسول بناتا ہے۔

عقل اور عشق کی اس فکری کشمکش کو صدیوں سے صوفیاء، فلاسفہ اور شاعروں نے اپنے اپنے انداز میں بیان کیا ہے۔ مولانا روم فرماتے ہیں:

عقل با عقلان در آویزد مدام
عشق با دیوانہ گوید السلام

عقل ہمیشہ دوسرے عاقل کے ساتھ مباحثے میں الجھتی رہتی ہے، جبکہ عشق دیوانوں کو بھی خوش آمدید کہتا ہے۔ یہ فرق اقبال کی فکر میں بھی نمایاں ہے۔ وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ عقل کا دائرہ محدود ہے، جب کہ عشق لامحدود امکانات کا دروازہ کھولتا ہے۔ عقل جہاں "کیوں" سے آغاز کرتی ہے، عشق وہاں "کیوں نہیں" سے۔ اقبال کے اشعار میں جگہ جگہ اس تصادم کو محسوس کیا جا سکتا ہے:

خرد نے کہہ بھی دیا لا الہ تو کیا حاصل
دل و نگاہ مسلم نہیں تو کچھ بھی نہیں

یہاں وہ عقل کی تنقید پر نہیں، بلکہ اس کے ناقص استعمال پر تنقید کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک دل (عشق) کی غیر موجودگی میں عقل بےنوری کا باعث ہے۔

اسلام میں عقل کی بڑی اہمیت ہے۔ قرآن بارہا تدبر، تفکر اور تعقل پر زور دیتا ہے۔ مگر قرآن جہاں عقل کی بات کرتا ہے، وہاں قلبِ سلیم، نورِ ایمان اور خشیت جیسے الفاظ بھی استعمال کرتا ہے، جو عشق کے دائرے میں آتے ہیں۔ یعنی اسلام عقل و عشق دونوں کو لازم و ملزوم قرار دیتا ہے۔ ایک مکمل انسان وہی ہے جو عقل سے سوچے اور عشق سے عمل کرے۔

پیغمبر اکرم ﷺ کی زندگی اس کامل امتزاج کی بہترین مثال ہے۔ ان کی حکمت عقل کی معراج تھی اور ان کا عشق خدا کے حضور فنا ہونے کا استعارہ۔ خلفائے راشدین، صحابہ کرام، اولیاء اللہ سب عشق کے مجسم نمونے تھے جن کی عقل بھی عشق کے تابع تھی۔ جدید معاشرہ اور عقل کی بالا دستی آج کے دور میں جب انسان خلا میں پہنچ چکا ہے، مصنوعی ذہانت تخلیق کر رہا ہے، بایوٹیکنالوجی سے زندگی کو طول دے رہا ہے، وہاں عشق جیسے نازک جذبے کو ایک کمزور عنصر سمجھا جاتا ہے۔ محبت، خلوص، ایثار، قربانی جیسے الفاظ صرف شاعری تک محدود ہو چکے ہیں۔ لیکن اسی معاشرے میں بےچینی، تنہائی، ذہنی بیماریوں اور خودکشی کے رجحانات بھی تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔

یہ حقیقت اس امر کی غمازی کرتی ہے کہ صرف عقل، صرف منطق، صرف مادیت انسان کی روح کی پیاس نہیں بجھا سکتی۔ انسان کو ایک ایسی روشنی، ایک ایسا مرکز، ایک ایسی قوت درکار ہے جو اسے مکمل کرے۔ یہ قوت عشق ہے، جو عمل کو جواز دیتی ہے، جو سوچ کو یقین میں بدلتی ہے اور جو علم کو وجدان سے ہم آہنگ کرتی ہے۔

عقل کو تنقید سے فرصت نہیں، عشق پر اعمال کی بنیاد رکھ دراصل ایک دعوت ہے، دعوتِ اصلاح، دعوتِ توازن، دعوتِ تکمیل۔ اقبال کی یہ پکار ہمیں یاد دلاتی ہے کہ صرف تنقید سے تعمیر ممکن نہیں اور نہ ہی بغیر دلیل کے یقین کا سفر طے کیا جا سکتا ہے۔ ہمیں عقل سے راہیں تلاش کرنی ہیں اور عشق سے ان پر چلنا ہے۔

عقل کے بغیر عشق اندھا ہے اور عشق کے بغیر عقل بےجان۔ جب دونوں قوتیں یکجا ہوں، تو انسان فنا سے بقا، شک سے یقین اور جہالت سے عرفان کی طرف بڑھتا ہے۔ اقبال ہمیں ایک ایسے انسان کا تصور دیتے ہیں جو عقل سے دیکھتا ہے اور عشق سے جیتا ہے۔ یہی انسان مردِ مومن ہے، جو تاریخ کا رخ موڑنے کی طاقت رکھتا ہے۔

Check Also

Mufti Muneeb Ur Rehman

By Abid Mehmood Azaam