Tanqeed Ka Zehr Aur Rehnumai Ka Husn
تنقید کا زہر اور رہنمائی کا حسن

ہم جس دور میں جی رہے ہیں وہاں سب سے بڑی بیماری یہ ہے کہ ہر شخص خود کو دوسروں سے زیادہ سمجھ دار، زیادہ باخبر اور زیادہ سچائی پر قائم تصور کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر وقت دوسروں کو غلط ثابت کرنے اور اپنے نظریے کو ہی واحد سچ ماننے کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے۔ گفتگو کا انداز یہ ہو چکا ہے کہ جیسے ہمارے پاس علم و حکمت کا خزانہ ہے اور دوسروں کے پاس صرف جہالت۔ یہ رویہ نہ صرف تعلقات کو زہر آلود کرتا ہے بلکہ معاشرتی ہم آہنگی کو بھی ختم کرتا ہے۔ اسلام نے ہمیں بار بار یہ سکھایا کہ اپنے نظریے کو مسلط کرنے کے بجائے دوسروں کے زاویۂ نظر کو بھی سمجھو، عزت اور وقار کے ساتھ اختلاف کرو اور رہنمائی کرو تاکہ سامنے والا دل سے قائل ہو نہ کہ زبردستی جھکنے پر مجبور۔
اسلام میں"رہنمائی" کا مطلب یہ نہیں کہ ہر وقت دوسروں کی غلطیوں پر انگلی اٹھائی جائے، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ خیرخواہی کے جذبے سے دوسروں کو سمجھایا جائے اور یہ بھی اسی وقت جب وہ سننے کے لیے تیار ہوں۔ قرآن میں فرمایا گیا: ادعُ إِلى سبيلِ ربِّك بالحكمة والموعظة الحسنة، یعنی اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور بہترین انداز سے بلاؤ۔ غور کیجیے، اللہ تعالیٰ نے "حکمت" اور "بہترین انداز" کی شرط لگائی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلام میں رہنمائی کا عمل صرف اس وقت مؤثر ہے جب وہ نرمی، عزت اور موقع کی مناسبت کے ساتھ ہو۔
مگر ہمارے ہاں عام رویہ یہ ہے کہ ہم اپنے ذاتی نظریے کو "آخری حق" سمجھتے ہیں اور دوسروں کو سننے کی زحمت ہی نہیں کرتے۔ اگر کوئی اپنی بات رکھے تو ہم فوری طور پر درمیان میں روک دیتے ہیں اور اپنی بات مسلط کرنے لگتے ہیں۔ یہ روش سراسر غلط ہے کیونکہ اسلام نے ہمیں سکھایا ہے کہ سنو بھی، سمجھو بھی اور پھر دلیل کے ساتھ بات کرو۔ اگر سامنے والے کی بات میں کوئی پہلو درست ہے تو اسے تسلیم کرو اور اگر کوئی پہلو غلط ہے تو عزت اور دلیل کے ساتھ وضاحت کرو کہ "یہ بات اس وجہ سے صحیح نہیں اور یہ بات اس وجہ سے درست ہے"۔ یہ رویہ نہ صرف رشتوں کو قائم رکھتا ہے بلکہ علم کے دروازے بھی کھول دیتا ہے۔
ہمارے معاشرے میں ایک اور کمزوری یہ ہے کہ ہم رہنمائی یا اصلاحی بات کرنے کے نام پر دوسروں کو عزت دینے کی بجائے ان کی تحقیر کرنے لگتے ہیں۔ حالانکہ قرآن میں بار بار یہ حکم دیا گیا کہ ایک دوسرے کی عزت نفس کو ٹھیس نہ پہنچاؤ۔ نبی اکرم ﷺ نے جب بھی کسی کو سمجھایا تو عزت اور احترام کے ساتھ، نرم انداز میں اور اس کی کیفیت کو دیکھتے ہوئے بات کی۔ کبھی براہِ راست کسی کو شرمندہ نہیں کیا، بلکہ عمومی انداز میں کہا: "کچھ لوگ ایسے کرتے ہیں" تاکہ براہِ راست نشانہ نہ بنے۔ یہ اسوۂ حسنہ ہمیں سکھاتا ہے کہ رہنمائی کا اصل مقصد عزت کو برقرار رکھنا ہے، نہ کہ انا کی تسکین۔
آج ہم ایک اور الجھن میں بھی مبتلا ہیں۔ ہم کتابوں، کہانیوں اور کہاوتوں کو ایسے لیتے ہیں جیسے وہ حتمی حقیقت ہوں۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ زیادہ تر کہانیاں محض مثالیں اور علامات (symbols) ہوتی ہیں جنہیں سبق سمجھانے کے لیے بیان کیا جاتا ہے۔ لیکن ہم انہیں حقیقت سمجھ کر فیصلے کرنے لگتے ہیں اور دوسروں کو انہی کہانیوں کے ترازو پر پرکھنے لگتے ہیں۔ یہ رویہ بھی درست نہیں۔ کہانیاں اور کہاوتیں صرف مثال ہیں، اصل رہنمائی کا معیار قرآن و سنت ہے اور ان کے سامنے ہر کہانی محض ایک علامت ہے جس سے صرف سبق لیا جا سکتا ہے، حقیقت نہیں۔
اسلام نے ہمیں بار بار یاد دلایا ہے کہ ہر انسان سے عزت اور وقار کے ساتھ بات کرو۔ سورہ الحجرات میں فرمایا گیا: وَلا تَلُمِزوا أَنفُسَكُم وَلا تَنابَزوا بِالأَلقاب، یعنی ایک دوسرے پر طعنہ نہ دو اور نہ برے القاب سے پکارو۔ اس آیت میں انسانوں کی عزت کا تحفظ کیا گیا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ رہنمائی بھی اگر کرنی ہے تو عزت کے دائرے میں رہ کر۔ کسی کو "تم ہمیشہ غلط ہو" یا "تمہاری سوچ بیکار ہے" کہنا اسلام کی تعلیمات کے خلاف ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ سامنے والے کو یہ احساس دلایا جائے کہ تمہاری عزت اپنی جگہ قائم ہے، مگر اس معاملے میں یہ پہلو درست نہیں۔ یہی وہ توازن ہے جو معاشرے کو سکون بخشتا ہے۔
بدقسمتی سے آج "تنقید" کا رویہ اس قدر عام ہوگیا ہے کہ لوگ ہر وقت دوسروں کو سمجھانے پر تُلے رہتے ہیں، چاہے سامنے والا سننے کے لیے تیار ہو یا نہ ہو۔ یہ رویہ نہ صرف دلوں میں کڑواہٹ پیدا کرتا ہے بلکہ رشتوں کے حسن کو بھی ختم کر دیتا ہے۔ اصل رہنمائی وہ ہے جو سامنے والے کے لیے روشنی کا چراغ بنے، نہ کہ اس پر زبردستی کا بوجھ۔
اگر ہم اسلام کی اصل تعلیمات کو دیکھیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ رہنمائی کا مقصد دوسروں کو بدلنا نہیں بلکہ اپنی اصلاح کے ساتھ دوسروں کے لیے آسانی پیدا کرنا ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: یسروا ولا تعسروا، وبشروا ولا تنفروا، یعنی آسانی پیدا کرو، مشکل نہ ڈالو، خوشخبری دو، نفرت نہ دلاؤ۔ یہی اصول اگر ہم اپنا لیں تو ہماری گفتگو میں نرمی آ جائے گی، ہم دوسروں کی بات کو سننے لگیں گے اور اپنے نظریے کو ہی آخری سچ ماننے کے بجائے دوسروں کے زاویے سے بھی سوچنے لگیں گے۔
کالم نگاری کا حق یہی ہے کہ ہم معاشرے کی اصلاح کے لیے بات کریں، نہ کہ ہر وقت دوسروں کو اپنی سوچ کے مطابق چلانے کے لیے۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ معاشرے کی بہتری اسی وقت ممکن ہے جب ہر شخص اپنی رائے کے ساتھ ساتھ دوسروں کی بات کو بھی وزن دے، عزت اور وقار کے ساتھ اختلاف کرے اور رہنمائی کے لیے نرمی اور محبت کا راستہ اپنائے۔ کہانیاں اور کہاوتیں محض مثالیں ہیں، ان پر اصرار کرنے کے بجائے ہمیں قرآن و سنت کے اصولوں کو معیار بنانا چاہیے۔ تبھی ہم تنقید کے زہر سے بچ کر رہنمائی کے حسن کو معاشرے میں زندہ کر سکیں گے۔

