Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Adeel Ilyas
  4. Peeth Peeche Boli Jane Wali Baatein, Jab Lafz Talwar Ban Jayen

Peeth Peeche Boli Jane Wali Baatein, Jab Lafz Talwar Ban Jayen

پیٹھ پیچھے بولی جانے والی باتیں، جب لفظ تلوار بن جائیں

انسانی زبان جتنی طاقتور ہے، اتنی ہی خطرناک بھی ہے۔ یہ کبھی محبت بانٹتی ہے، کبھی نفرت پھیلاتی ہے۔ کبھی عزت بڑھاتی ہے تو کبھی کردار کو مسمار کر دیتی ہے۔ خاص طور پر جب کسی شخص کی غیر موجودگی میں اس کا ذکر اس انداز میں کیا جائے کہ دوسرے افراد کے دلوں میں اس کے لیے شک، نفرت یا بدگمانی پیدا ہو جائے، تو یہ عمل نہ صرف ایک اخلاقی جرم ہے بلکہ اسلامی تعلیمات کی رو سے ایک سنگین گناہ بھی ہے۔ اسے غیبت، بہتان، چغلی یا تحریفِ نیت کا نام دیا جا سکتا ہے، لیکن جو حقیقت سب سے زیادہ اہم ہے وہ یہ کہ یہ عمل لوگوں کے درمیان تعلقات، اعتماد، محبت اور بھائی چارے کو کھوکھلا کر دیتا ہے۔

اسلام ایک ایسا دین ہے جو نہ صرف عبادات بلکہ اخلاقیات کو بھی ایمان کا لازمی جزو قرار دیتا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "أفضل المؤمنين إيماناً أحسنهم خُلقاً"۔

"ایمان میں سب سے کامل وہ شخص ہے جس کا اخلاق سب سے بہتر ہے۔ " (ترمذی)

اس حدیث کی روشنی میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ اگر ایک شخص نماز، روزے، زکوٰۃ اور دیگر عبادات کا اہتمام کرتا ہے، مگر اس کی زبان دوسروں کے لیے زہر آلود ہو، وہ مجلس میں بیٹھ کر کسی کی غیر موجودگی میں اس کا ایسا ذکر کرے کہ سننے والے کی رائے بدل جائے، تو اس شخص کا ایمان نامکمل ہے۔

قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ نے بارہا غیبت، بدگمانی اور چغلی سے منع فرمایا ہے۔ سورۃ الحجرات کی آیت نمبر 12 ایک مکمل ضابطۂ اخلاق ہے: "يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجُتَنِبُوا كَثِيرًا مِّنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعُضَ الظَّنِّ إِثُمٌ ۖ وَلَا تَجَسَّسُوا وَلَا يَغُتَب بَّعُضُكُم بَعُضًا ۚ أَيُحِبُّ أَحَدُكُمُ أَن يَأُكُلَ لَحُمَ أَخِيهِ مَيُتًا فَكَرِهُتُمُوهُ ۚ"۔

ترجمہ: "اے ایمان والو! بہت زیادہ گمان سے بچو، یقیناً بعض گمان گناہ ہوتے ہیں اور تجسس نہ کرو اور تم میں سے کوئی کسی کی غیبت نہ کرے۔ کیا تم میں سے کوئی پسند کرے گا کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے؟ یقیناً تمہیں اس سے نفرت ہوگی"۔

یہ آیت صرف غیبت سے نہیں روکتی، بلکہ اس سوچ، رویے اور نیت سے بھی روکتی ہے جس کا مقصد دوسروں کی نظر میں کسی کی وقعت کو کم کرنا ہو۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ بعض لوگ دانستہ طور پر ایسے انداز میں بات کرتے ہیں کہ بات سننے والا متاثر ہو اور اُس شخص سے متنفر ہو جائے جس کے بارے میں بات کی جا رہی ہو۔ کبھی الفاظ نرم ہوتے ہیں، مگر زہر اُن میں چھپا ہوتا ہے۔ کبھی طنزیہ تبصرہ ہوتا ہے، کبھی سوالیہ انداز اور کبھی مظلومیت کے پردے میں کسی کی کردار کشی۔ ایسے افراد دراصل دوسروں کے دلوں میں نفرت، بدگمانی اور دوری کا بیج بوتے ہیں۔

نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: "کیا تم جانتے ہو غیبت کیا ہے؟" صحابہ نے عرض کیا: "اللہ اور اس کے رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ "آپ ﷺ نے فرمایا: "غیبت یہ ہے کہ تم اپنے بھائی کا وہ عیب بیان کرو جو اگر وہ سن لے تو اسے ناگوار گزرے"۔ صحابہ نے عرض کیا: "اگر وہ عیب اس میں موجود ہو؟" آپ ﷺ نے فرمایا: "اگر وہ عیب اس میں ہے تو تم نے اس کی غیبت کی اور اگر وہ عیب اس میں نہیں تو تم نے اس پر بہتان باندھا"۔ (صحیح مسلم)

یہ واضح الفاظ بتاتے ہیں کہ کسی کی غیر موجودگی میں اس کی سچی بات بھی بیان کی جائے تو وہ غیبت ہے اور اگر وہ بات جھوٹی ہو تو بہتان کہلاتی ہے اور یہ دونوں ہی کبیرہ گناہ ہیں۔

غور کیجیے! کیا ہم نے کبھی کسی مجلس میں یہ سوچ کر بات کی ہے کہ ہمارے الفاظ کسی کے بارے میں سننے والے کی رائے بدل سکتے ہیں؟ کیا ہم نے کبھی کسی کو بدظن کرنے کے لیے ایسا انداز اپنایا ہے کہ وہ شخص جسے لوگ عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، اچانک مشکوک یا برا لگنے لگے؟ اگر ایسا ہے تو ہمیں ڈر جانا چاہیے، کیونکہ ہم ان لوگوں میں شامل ہو رہے ہیں جنہیں نبی ﷺ نے منافق قرار دیا ہے: "منافق کی علامت تین ہیں: جب بولے جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے اور جب امانت دی جائے تو خیانت کرے"۔ (صحیح بخاری)

کسی کے بارے میں منفی تاثر پیدا کرنا بھی درحقیقت خیانت ہے، کیونکہ سننے والا ہمارے الفاظ پر اعتماد کرتا ہے اور ہم اُس اعتماد کو اُس شخص کی ساکھ کو برباد کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ یہ کیسی خیانت ہے جو بظاہر ایک معمولی بات لگتی ہے مگر اللہ کے ہاں بہت بڑی سمجھی جاتی ہے؟

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "جو شخص اپنے مسلمان بھائی کی عزت کی اُس وقت حفاظت کرے جب وہ موجود نہ ہو، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اُس کے چہرے کو جہنم کی آگ سے بچائے گا"۔ (ترمذی)

یہ حدیث نہ صرف یہ بتاتی ہے کہ غیبت سے بچنا ضروری ہے، بلکہ یہ بھی سکھاتی ہے کہ دوسروں کی عزت کا دفاع کرنا ایک نیکی ہے جس کا صلہ اللہ جہنم سے نجات کی صورت میں دیتا ہے۔ اگر ہم خاموش بھی رہتے ہیں، جب کوئی کسی کی غیر موجودگی میں اس کے خلاف بات کرے، تو ہم دراصل اس گناہ میں شریک ہو رہے ہوتے ہیں۔

آج کا المیہ یہ ہے کہ لوگ دوسروں کو بدنام کرنے کے لیے ہر ممکن ہتھکنڈا استعمال کرتے ہیں۔ کبھی ذاتی رنجش، کبھی حسد، کبھی رقابت اور کبھی برتری کی خواہش انہیں اس نہج پر لے جاتی ہے کہ وہ دوسروں کی عزت کو مجروح کرکے خود کو بہتر سمجھنے لگتے ہیں۔ مگر یہ بھول جاتے ہیں کہ جو عزت انسانوں کے ہاتھوں چھینی جاتی ہے، اللہ اُسے کئی گنا زیادہ عطا کرتا ہے۔

حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا: "جو تمہیں تمہارے عیبوں سے آگاہ کرے، وہ تمہارا سب سے اچھا دوست ہے اور جو تمہارے سامنے تمہاری تعریف کرے اور پیٹھ پیچھے تمہیں بدنام کرے، وہ تمہارا دشمن ہے"۔

یہ قول ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ حقیقی مخلص شخص وہ ہے جو سامنے بات کرے اور جو پیٹھ پیچھے بات کرے، اُس کی نیت پر شک کرنا واجب ہے۔

بدقسمتی سے سوشل میڈیا نے اس فتنے کو اور بھی بڑھا دیا ہے۔ آج ایک پوسٹ، ایک تبصرہ یا ایک تصویر کے ذریعے لوگ دوسروں کو بدنام کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور یوں گناہوں کے انبار اپنے سروں پر لے لیتے ہیں۔ ایک لمحے کا جملہ قیامت کے دن ترازو میں بھاری ہو سکتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "بندہ ایک کلمہ (بات) زبان سے کہتا ہے جسے وہ معمولی سمجھتا ہے، حالانکہ وہ بات اللہ کو اتنی ناراض کرتی ہے کہ وہ بندے کو جہنم میں گرا دیتی ہے"۔ (بخاری و مسلم)

لہٰذا ضروری ہے کہ ہم اپنی زبان کی حفاظت کریں، اپنی نیتوں کا محاسبہ کریں اور اگر کسی کی غیر موجودگی میں بات کرنا ہو تو خیر کے پہلو سے کریں۔ اس کا تذکرہ کریں جس سے اس کی عزت بڑھے، محبت پھیلے اور اعتماد قائم ہو۔

اگر ہم واقعی ایمان والے ہیں، تو ہمیں اللہ سے ڈرنا چاہیے۔ ہمیں یہ جان لینا چاہیے کہ ہماری زبان سے نکلنے والے الفاظ محفوظ کیے جا رہے ہیں: "مَا یَلُفِظُ مِن قَوُلٍ إِلَّا لَدَیُهِ رَقِیبٌ عَتِیدٌ"

ترجمہ: "وہ جو بھی بات کہتا ہے، ایک نگران (فرشتہ) اس کے پاس موجود ہوتا ہے، جو اسے لکھ لیتا ہے"۔ (سورۃ ق: 18)

ہماری نجات اسی میں ہے کہ ہم اپنی زبان کو قابو میں رکھیں، اپنی مجلسوں کو غیبت، بہتان، چغلی اور فتنہ سے پاک رکھیں اور اگر کوئی ہمارے سامنے کسی کی کردار کشی کرے، تو ہم اس کی بات کو روکیں یا اس سے الگ ہو جائیں۔

ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ جو دوسروں کے بارے میں باتیں لے کر آتا ہے، وہ کل ہمارے بارے میں بھی ایسی ہی باتیں لے کر کسی اور کے پاس جائے گا۔ ہمارا دین ہمیں اتحاد، محبت، خیر خواہی اور بھروسے کا درس دیتا ہے۔ لہٰذا ہمیں دوسروں کے دلوں کو جوڑنے والا بننا چاہیے، نہ کہ توڑنے والا۔

اللہ رب العزت ہمیں ایسے اعمال سے محفوظ رکھے جو دوسروں کی عزتوں کو نقصان پہنچائیں اور ہمیں اُن لوگوں میں شامل فرمائے جو اپنی زبان اور کردار سے معاشرے میں امن، محبت اور بھلائی کا ذریعہ بنتے ہیں۔

About Adeel Ilyas

Adeel Ilyas is an ex-Pakistani formal cricketer and the owner of Al-Falaq International Schools. He is a social expert and a professor of English literature. His columns and articles focus on personal development, education, and community service, offering unique insights from his diverse experiences.

Check Also

Mufti Muneeb Ur Rehman

By Abid Mehmood Azaam